جب ریاست جیل میں نوازشریف سے ملنے آئی


ریاست۔ کیا نام ہے تمہارا؟

نوازشریف ۔ آپ کو معلوم بھی ہے پھر بھی بتائے دیتا ہوں محمد نواز شریف

ریاست ۔ ایک سال پہلے تمہیں لوگ عہدے کے ساتھ کیا پکارتے تھے

نوازشریف ۔ اس وقت وزیراعظم محمد نواز شریف کہتے تھے

ریاست ۔ پھر تمہیں کیا مسلہ تھا کہ ہم سے الجھ کر عہدہ بھی گنوایا اور آج ادھر جیل میں پڑے ہوئے ہو؟

نواز شریف ۔ میں سیاستدان ہوں اور یہ جیل اور جبر تو سیاست کا حصہ ہے

ریاست ۔ بڑی حیرانی کی بات ہے۔ باہر تمہیں لوگ لیڈر کہتے ہیں اور تم خود کو سیاستدان کہتے ہو۔ دوسری طرف عمران خان ہے۔ ہم اسے سیاستدان کہتے ہیں، وہ خود کو لیڈر کہتا ہے

نواز شریف ۔ میں عاجز آدمی ہوں۔ خود کو لیڈر کہہ کر نرگسیت کا شکار نہیں ہوتا۔ عوام میرے لئے جو کہتے ہیں اور جو بیرونی ممالک میں کہا جاتا ہے، یہ ان کی بلند ظرفی ہے، جس پر میں ان کا شکریہ ادا کر سکتا ہے

ریاست ۔ مقصد کی بات کریں

نواز شریف۔ اس سے پہلے آپ نے بامقصد بات کی کب ہے ؟

ریاست ۔ تمہیں بھی تو جیل یا جلاوطنی کے بغیر بات کرنے کا طریقہ ہی نہیں آتا۔

نواز شریف ۔ ویسے آپ کو بات کرنے کا مینڈیٹ ہی نہیں ہے مجھ سے۔ آئین میں جن کا ذکر لکھا ہے، میں ان سے بات کرتا ہوں اور ان کو جوابدہ ہوں۔ بہرحال آپ بات کریں

ریاست۔ تمہیں کیا پڑی تھی کہ مشرف کے خلاف مقدمات ۔ خارجہ امور پر دسترس ۔ ہندوستان اور افغانستان کے ساتھ دوستی ۔ دفاعی بجٹ پر مکالمہ ۔ سی پیک سیاسی حکومت کے ماتحت کرنے کی کوشش اور ملک کے محب وطن جہادی تنظیموں پر تنقید اور ان کو کنٹرول میں لانا اور داخلہ پالیسی میں ہمیں نظر انداز کرنا اور سعودی عرب کی جنگ میں شامل نہ ہو کر شیری رحمان کی پارلیمنٹ میں قرارداد کو جواز بنا کر برادر اسلامی ملک کو ہم سے خفا کرنا؟

نواز شریف ۔ میں نے جو بھی اقدامات کئے وہ ملک کی فلاح اور دیرپا استحکام اور ماضی کی غلطیوں کی تلافی کے لئے کئے۔ آئین پاکستان نے آئین سے غداری کے جرم میں مشرف کے لئے سزائے موت رکھی ہے اور اسے یہ سزا ملنی چاہیے۔ خارجہ اور داخلہ پالیسی کا اختیار بھی مجھے آئین پاکستان نے ہی دیا ہے۔ ہندوستان اور افغانستان سے دشمنی ختم کئے بغیر خطے میں امن اور خوشحالی نہیں آسکتی۔ باقی کسی بھی گمراہ گروہ کو برداشت نہیں کیا جا سکتا کہ وہ بغیر اجازت کے ریاست کے اندر ریاست قائم کرے اور دہشتگری پھیلائے۔ قوم اور عالمی دنیا مجھے سلام کرتی ہے کیونکہ ان روگ عناصر کی وجہ سے عالمی جنگ ہو سکتی ہے۔ باقی سعودیہ عرب کی جنگ کا حصہ نہ بننے پر فخر ہے اور یہ پارلیمنٹ کی اجتماعی دانش کا ثبوت ہے۔ آئین کی سر بلندی کےلئے غیر جمہوری قوتوں کو کمزور کرنا میرے نزدیک جرم نہیں، اعزاز کی بات ہے

ریاست ۔ پھر تم خود بتاؤ کہ ڈان لیکس میں تم نے اور پرویز رشید نے مل کر جو ملک کے خلاف سازش رچائی، اس کا تمہیں پانامہ لیکس کے ذریعہ جواب تو مل گیا ہے نا؟ اس بات کی تو سمجھ آہی گئی ہے کہ ہم جواب کتنا خوبصورت اور بروقت دینا جانتے ہیں۔

نواز شریف ۔ ڈان لیکس پر میرا دوٹوک موقف ہے کہ یہ ایک سازش تھی ہماری حکومت کو کمزور کرنے کے لئے اور اگر ایک لمحے کے لئے اگر اس کو سچ تسلیم بھی کر دیا جائے تو اس میں کون سا جھوٹ تھا کہ پنجاب میں کالعدم تنظیموں کو ریاست کی حمایت حاصل نہیں تھی۔ جس کی ایک مثال ان کا انتخابات میں حصہ لینا صرف آپ کی مرضی سے ہی ممکن ہے اور رہی پانامہ لیکس کی بات تو یہ انٹرنیشنل اسٹیبلشمنٹ کی سازش تھی انہیں بھی آپ کی طرح پاکستان میں کسی مضبوط جمہوری حکمران سے نفرت ہے جو ان کی راہ میں رخنہ ڈالے۔ وہ مجھ سے سی پیک میں فرنٹ فٹ پر آنے اور سعودی فوجی اتحاد کا حصہ نہ بننے پر سخت ناراض تھے۔ اس کا رزلٹ یہ کہ انہوں نے پانامہ لیکس، جو سازش اور بہتان کا گورکھ دھندہ ہے، کے ذریعے مجھے اقتدار سے ہٹانے کی عالمی سازش کی

ریاست ۔ تم ہر وقت شیخ مجیب کا ذکر کیوں کرتے ہو اس بات کا علم ہونے کے باوجود کہ وہ ملک کا غدار تھا اور دوسری بات اس نے جب بغاوت کی تھی تو اس کے ساتھ ڈھاکہ دھان منڈی میں دس لاکھ لوگ ایک جلسے میں نکلے تھے تمہارے ساتھ ایک لاکھ لوگ بھی لندن سے واپس آمد پر لاہور کی سٹرکوں پر نہ نکل سکے

نوازشریف ۔ آپ کی بات کے پہلے حصے کا جواب یہ ہے کہ شیخ مجیب نے 70 کے انتخاب میں اکثریت حاصل کی تھی اور اقتدار اس کا حق تھا ہم دونوں میں ایک قدر یہ مشترک ہے کہ شیخ مجیب کو اقتدار نہیں دیا گیا اور مجھ سے تین دفعہ اقتدار چھینا گیا۔ شیخ مجیب الرحمن نے علیحدگی کا فیصلہ مجبور ہو کر کیا۔ اور میرا فیصلہ صرف پاکستان ہے یہ میرے وجود اور روح کا حصہ ہے لیکن میری آخری سانس تک کوشش رہے گی کہ میں جمہوری اور فلاحی پاکستان بنا سکوں جس کی بنیاد میں نے رکھ دی ہے اور غیر جمہوری قوتوں کا اصل چہرہ عوام کے سامنے لے آیا ہوں۔ یہی میری جیت ہے اور رہی بات کہ میرے ساتھ لاہور میں کم لوگ نکلے ہیں تو میں اس کمی کو تسلیم کرتا ہوں اس کی وجہ یہ ہے کہ پنجاب کا زیادہ وقت پرو اسٹیبلشمنٹ گزرا ہے اس لئے انہیں اس سوچ کے خلاف نکلنے میں وقت لگے گا لیکن ایک کروڑ اٹھائیس لاکھ ووٹوں کو آپ نظر انداز نہیں کر سکتے۔

ریاست ۔ تمہیں ہم سمجھانے آئے تھے۔ تم نے آگے وہ ہی باتیں شروع کر دی۔ لیکن یاد رکھنا ادھر جیل میں دس سال پڑے رہو۔ تم کبھی نیلسن منڈیلا نہیں بن سکتے

نواز شریف ۔ مجھے نیلسن منڈیلا بننے کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ اس کی سیاسی جدوجہد، حالات اور وقت مختلف تھے اور میری جدوجہد مختلف ہے۔ میں نواز شریف ہی بن سکتا ہوں۔ کوئی بھی لیڈر کسی دوسرے کی جگہ نہیں لے سکتا ۔ آپ کو یہ بات دیر سے سمجھ آئے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).