ابا کا سرکہ اور مدیحہ کی ریڈ وائن


فیس بک پر شروع ہونے والے رومانس نے دو الگ الگ کلچر کے انسانوں کو آپس میں دلچسپی لینے پر مجبور کردیا۔ شنگہائی کی دوشیزہ تائی چی اور حیدر آباد کا عرفان ایک دوسرے کو اپنانے کے سپنے سجانے لگے۔ عرفان نے میسج کیا۔ میر ی می۔ تائی چی نے جواب دیا۔ شیور، آئی ول۔ کیا تم چائنا آسکتے ہو؟ عرفان نے کہا۔ بہت مشکل ہے۔ میرے ڈیڈ کا یہاں بزنس ہے۔ ونی گر سپلائی کا۔ مجھے کاروبار کو لک آفٹر کرنا ہے۔ تم یہاں آجاوٌ۔ ہم پہلے سکائپ پر نکاح کرلیتے ہیں۔ تائی چی کا جواب آیا۔ کیا تمھارے پیرنٹس مجھے قبول کرلیں گے؟ میں انہیں راضی کرلوں گا۔ عرفان نے اطمینان دلایا۔ لیکن تم کو نکاح سے پہلے مسلمان ہونا پڑے گا۔ بٹ وہائے؟ آئی ہیو نو پرابلم ود مائی ریلی جن۔ تائی چی کے الفاظ عرفان کے لیپ ٹاپ کی اسکرین پر جھلملائے۔ سمجھا کرو۔ عرفان نے کہا۔ ہمارے ہا ں نکاح کے لئے مرد اور عورت کا مسلم ہونا ضروری ہے۔ مذہب بدلنا بہت مشکل ہے عرفان۔ تا ئی چی نے جواب دیا۔ عرفان کی تو دنیا ہی تاریک ہو گئی۔ اوکے۔ آئی ٹرائی ٹو فائنڈ سم سولوشن۔ عرفان نے ٹائپ کیا۔ کل بات کرتے ہیں۔ لوو یو۔ بائے۔

اگلے دن تائی چی کی اسکرین پر عرفان کا میسج آیا۔ میں نے ایک مولوی سے پوچھ لیا ہے۔ تم کو مولوی کے سامنے کلمہ پڑھوایا جائے گا۔ اور تمھارا نام بدل کر اچھا سا اسلامی نام رکھ دیں گے۔
دیٹس اٹ؟ تائی چی نے حیران ہو کر پوچھا۔
یس۔ دیٹس اٹ۔ باقی جب تم یہاں آجاوٌ گی تو میں تم کو سب طور طریقے سکھادوں گا۔ عرفان نے شیخی بگھاری۔
اوہ عرفان۔ آئی لوو یو سو مچ۔ تائی چی نے خوشی سے پھولے نہ سماتے ہوئے ٹائپ کیا۔ میں اپنے پیرنٹس کو انفارم کرکے تمہیں کانٹیکٹ کرتی ہوں۔ ہوسکتا ہے کہ وہ شادی سے پہلے تم سے بات کرنا چاہیں۔
آئی ایم آل فار اٹ بے بی۔ عرفان نے زیر لب مسکراتے ہوئے جواب دیا۔

نکاح بخیر و خوبی سرانجام پاگیا۔ تائی چی کا اسلامی نام مدیحہ تجویز کیا گیا۔ مدیحہ چائنا سے رخصت ہو کر عرفان کے گھر سدھار گئیں۔ شادی کی ہنگامہ خیز تقریبات کے اختتام پر عرفان نے مدیحہ کو اپنے گھر کا دورہ کروایا۔ گھر کے عقبی حصے میں عرفان کے ابا نے سرکہ بنانے کا کارخانہ لگایا ہوا تھا۔ جہاں سرکہ بنانے کے بعد شہر بھر میں سپلائی کیا جاتا تھا۔ سرکہ بنتے وقت اتنی تیز بو آتی تھی کہ عرفان کے پورے گھر کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی تھی۔ عرفان کے گھر والے تو اس کے عادی تھے مگر عرفان تھوڑا کنفیوز تھا کہ کہیں مدیحہ کو یہ بو شاق نہ گزرے۔ آر یو کمفرٹ ایبل ڈارلنگ؟ عرفان نے مدیحہ سے دریافت کیا۔ یس نو پرابلم سو فار۔ مدیحہ نے اطمینان دلایا۔ وہائے آر یو آسکنگ؟ میں یہ سوچ رہا تھا کہ کہیں تمہیں یہ سرکہ کی بو ناگوار تو نہیں گزر رھی۔ عرفان اپنے خدشے کو اپنی زبان پر لے آیا۔ نو۔ دیٹس ونڈرفل۔ مدیحہ نے اپنی ادکھلی آنکھیں میچ کر مسحور ہوتے ہوئے کہا۔ عرفان کو لگا جیسے اس کے سر سے ایک بوجھ اتر گیا ہے۔

شادی کے چند روز بعد عرفان نے محسوس کیا کہ مدیحہ تھوڑی مضمحل اور تھکی تھکی سی رہتی ہے۔ عرفان نے مدیحہ سے وجہ دریافت کی۔ تو مدیحہ نے کہا۔ عرفان۔ میں اپنے ملک میں روزانہ تھوڑی مقدار میں ریڈ وائن پیا کرتی تھی۔ اب یہاں جب سے آئی ہوں تو وائن نہ ملنے کی وجہ سے میرے اعصاب چٹخنے لگے ہیں۔ ارے تم نے مجھ سے پہلے کبھی یہ ذکر کیوں نہیں کیا۔ وائن تو نہیں البتہ وہسکی کا میں انتظام کردیتا۔ عرفان نے اس کو تسلی دی۔ میں بھی کبھی کبھی شغل کرلیتا ہوں۔ نہیں عرفان مجھے وسکی نہیں ریڈ وائن ہی پینی ہے۔ مدیحہ نے اصرار کیا۔

اب پریشان ہونے کی باری عرفان کی تھی۔ شہر میں وہسکی، رم، ڈرائی جن وغیرہ تو با آسانی دستیاب تھیں۔ مگر یہ دختر انگور بہت مہنگی اور مشکل سے ملتی تھی۔ اوکے۔ ڈونٹ وری آئی ٹرائی ٹو ارینج آ باٹل فار یو۔ عرفان نے تسلی دی۔ ڈیوٹی فری شاپ سے ایک بوتل سرخ شراب منگوانے میں عرفان میاں کے اچھے خاصے روپے ٹھنڈے ہوگئے۔ انہوں نے اپنی مدیحہ بیگم سے کہا کہ ڈارلنگ اس بوتل کے بعد اب تم وائن کو بھول بھال جاوٌ اور جب کبھی طلب ہو تو وہسکی سے شغل کر لیا کرو۔ کیوں کیا ہم اپنے گھر میں وائن نہیں بنا سکتے؟

مدیحہ کا یہ جواب سن عرفان کے دیوتا کوچ کرگئے۔ کک۔ کیا کہ رہی ہو ڈارلنگ؟ گھر سے نکلواؤ گی مجھے؟
عرفان تمھارے گھر میں ونی گر بنتا ہے۔ آئی ہیو سین دیٹ۔ بلیک گریپس آر رئیلی گڈ فار ریڈ وائن۔ مجھے ساری ریسیپی معلوم ہے۔ مدیحہ نے اطمینان سے جواب دیا۔
لیکن ڈیڈ کو پتا چلا تو وہ گھر سے نکال دیں گے۔ عرفان گھبرایا۔
اوہ کم آن۔ عرفان۔ تم مجھے سارے انگریڈینٹس پروائڈ کردو۔ میں اپنے روم میں چھپا کے بنا لوں گی۔ بہت سستی پڑے گی۔ میں آرام سے پیتی رہوں گی۔
چار وناچار عرفان کو اپنی بیگم کی بات ماننی ہی پڑی۔ اس نے کالے انگور، گندم، چینی، خمیر وغیرو سب سرکہ بنانے کے کارخانے سے لا کر مدیحہ بیگم کے حوالے کردئے۔ ایک عدد تام چینی کا بنا ہوا بڑا سا جار بھی لا دیا۔ کیونکہ بقول مدیحہ کے چائنا میں قدیم زمانے سے ایسے ہی سر خ شراب بنائی جاتی رہی ہے۔

تین ہفتے بعد جب انگور میں سے خمیر کی تیز اٹھتی ہوئی مہک نے کمرے سے باہر نکل کر پورے گھر کو لپیٹ میں لیا تو عرفان کے ابا ناک سکوڑتے ہوئے عرفان کے کمرے کے باہر آ کھڑے ہوئے۔ عرفان کی ماں۔ کہاں ہو بھئی؟
عرفان کی اماں جلدی سے اپنے کمرے سے نکل کر شوہر کی طرف بھاگیں۔ کیا ہو گیا؟ کیوں چلا رہے ہیں؟
یہ عرفان کے کمرے میں سرکہ بنانا کب سے شروع کردیا؟ کیا کارخانے میں جگہ کم پڑ گئی تھی؟

اب سٹپٹانے کی باری عرفان کی اماں کی تھی۔ ارے بہو۔ باہر آو بیٹا۔
مدیحہ بیگم باہر آئیں۔ یس مام، یس ڈیڈ؟
عرفان کے ابا نے اپنی ٹوٹی پھوٹی انگریزی کے سہارے بہو بیگم سے پوچھا وہاٹ از دس اسمیلنگ ان یور روم؟
اوہ دیٹس نتھنگ ڈیڈ۔ مدیحہ نے چھپانا چاہا۔
شو می۔ عرفان کے ابا نے حکم دیا۔
مدیحہ نے جب کوئی بچاوٌ کا راستہ نہ دیکھا تو چپ چاپ تام چینی کا وہ جار لاکر ابا کے سامنے حاضر کردیا جس میں تین ہفتوں کی تیاربریوو موجود تھی۔
ابا نے ایک نظر جار کے اندر ڈالی، سونگھا، تھوڑاسا محلول چکھ کر دیکھا اور چیخے۔ لا حول ولا قوہ۔ کہاں ہے یہ نالائق عرفان؟ اسی لئے عرفان کی ماں میں کہتا تھاکہ اپنے لڑکے کو سنبھالو۔ یہ انٹرنیٹ پرہر وقت لگے رہنے کا نتیجہ آگیا نا سامنے؟ غضب خدا کا میرے گھر کو ناپاک کردیا۔ پہلے کافر سے شادی کی اور اب گھر کے اندر ہی ام الخبائث بنائی جارہی ہے۔ نکالو ان کو گھر سے باہر۔ برامدے میں کھڑی مدیحہ سابقہ تائی چی حیرت سے کبھی تام چینی کے مرتبان اور کبھی عرفان کے ابا کا غیض و غضب دیکھتی رہ گئی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).