نیا پاکستان اور کپتان کا امتحان


انتخابات 2018 کے بطن سے نئی حکومت جنم لیا چاہتی ہے۔ حکومت سازی کا مرحلہ شروع ہوا چاہتا ہے۔ قدرتی رعنائیاں دامن میں لئے اسلام آباد کا نواحی مقام بنی گالا پورے ملک کا مرکز نگاہ بنا ہوا ہے۔ کپتان کی مجلس شوری روز منعقد ہو رہی ہے۔ بنی گالا میں ملاقاتیں جاری ہیں۔ سیاسی اتحاد بن رہے ہیں۔ ماضی کے حریف حلیف بن رہے ہیں۔ گئے وقتوں کی سیاسی دشمنیاں دوستی کا روپ دھار رہی ہیں۔ نمبر گیم کے تقاضے پورے کیے جا رہے ہیں۔ ملک کے مستقبل کے فیصلے کرنے والوں کے فیصلے کیے جا رہے ہیں۔ شنید ہے کپتان مطلوبہ سکور پورا کر چکے ہیں۔ قرائن یہی بتاتے ہیں 15 اگست کے آس پاس ان کا دیرینہ خواب شرمندہ تعبیر ہو جائے گا۔ اقتدار کا ہما سر بیٹھ جائے گا۔ وزارت عظمی کی مسند پر متمکن ہو جائیں گے۔

عمران خان پاکستان کی حکمرانی کی پچ کے اوپننگ بلے باز ہیں نہ ہی ان کے بعد یہ میدان خالی ہو گا۔ مگر قدرت نے انہیں پہلا موقع عطا ہے۔ اب یہ خان پہ منحصر ہے کہ وہ خود کو طویل اننگز کھیلنے والے مستند بیٹسمن ثابت کرتے ہیں یا ڈیبیو پہ ہی اکتفا کرتے ہیں۔ ہر چند کہ عمران خان کی انتخابی کامیابی کو کچھ حلقے مشکوک نگاہوں سے دیکھ رہے ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ کے تانے بانے بنی گالہ سے ملائے جا رہے ہیں، تاہم یہ بھی حقیقت ہے عمران خان خود کو ایک مقبول عوامی لیڈر کے طور پر منوا چکے ہیں۔ زمینی حقائق یہی ہیں کہ تحریک انصاف انتخابات2018 میں اول پوزیشن لینے والی جماعت کے طور پر سامنے آ چکی ہے۔ قومی اسمبلی میں سنگل لارجسٹ پارٹی کے طور پر سیاسی افق پر ابھر چکی ہے۔

جیسا کہ گزشتہ سطور میں عرض کیا کہ عمران خان پاکستان کے پہلے حکمران ہیں نہ کہ ان کے بعد یہ سلسلہ رک جائے گا مگر نئی حکومت جو نئی چیز لے کے آ رہی ہے وہ ہے ”نیا پاکستان“۔ نئے پاکستان کا خدوخال کیا ہو گا؟ حکومت چلانے کی ترکیب کیا ہو گی؟ خان صاحب کے پاس ایسی کونسی کنجی ہے جس کے ذریعے ”پرانے پاکستان“ کا در مقفل کیا جائے گا؟ ”نیا پاکستان“ کا دروزہ کھولا جائے گا؟ ان سوالوں کے جواب آنے والے دنوں میں مل جائیں گے۔ تاہم راقم ”نیا پاکستان“ کی تفہیم ذرا دوسرے انداز میں کرتا ہے۔

میرے نزدیک ہم جس نئے پاکستان میں داخل ہونے جا رہے ہیں اس نئے پاکستان کی کنجی تبدیلی کا نعرہ ہے۔ جی ہاں! تبدیلی یعنی وہ نعرہ جس نے عمران خان کو سرفراز کیا۔ تبدیلی وہ فلسفہ جس نے نوجوانوں کے ذہنوں کو تبدیل کیا۔ لھذا عمران خان کے پاس یہ پہلا اور شاید آخری موقع ہے۔ جس طرح تبدیلی کے نعرے نے عمران خان کے وزیر اعظم بننے کے خواب کو تعبیر بخشی ہے بعینہ کپتان کو نوجوانوں کے تبدیلی کے خواب کو پورا کرنا پڑے گا بصورت دیگر وہ تاریخ کے کٹہرے میں ایک ناکام سیاست دان کے طور پر کھڑے ہوں گے۔

ابن خلدون نے کہا تھا ایک سماج کو بدلنے میں 40 سال لگتے ہیں۔ اس کو حسن اتفاق کہیں یا ہمارے سماج کا خاصہ کہ 40 سال بعد ہماری سیاسی سماجی حرکیات کو تغیر پزیر ہوتے دیکھا جا سکتا ہے۔ 1970 کے عام انتخابات میں ذوالفقار علی بھٹو تبدیلی کے نقیب ٹھہرے۔ 40 سال بعد 2011 میں عمران خان کی اٹھان ہوئی۔ گوکہ با خبر سیاسی مبصرین کے نزدیک یہ اٹھان از خود نہیں ہوئی، بلکہ خان کو ” اٹھایا گیا“ مگر ان سطور میں ہم سازشی تھیوریوں کو داخل ہونے نہیں دیتے۔ لمحہ موجود کے زمینی حقائق کو سامنے رکھ کر بات کرتے ہیں۔ معروضی حقیقت یہی ہے کہ 30 اکتوبر 2011 کو مینار پاکستان کے جلسے کے نتیجے میں مین سٹریم سیاسی جماعت کا روپ دھارنے والی تحریک انصاف 2018 میں حکمران ٹھہری۔

یہ بات شک و شبہے سے بالاتر ہے کہ قومی اسمبلی کی نشستوں کے لحاظ سے ہی نہیں بلکہ پاپولر ووٹ کی دوڑ میں بھی تحریک انصاف دیگر جماعتوں سے آگے ہے۔ حالیہ انتخابات میں لگ بھگ پونے 2 کروڑ ووٹرز نے کپتان کے بلے پر ٹھپہ لگایا ہے۔ تبدیلی کے نعرے پر مہر ثبت کی ہے۔ اب خان کا امتحان شروع ہوا چاہتا ہے۔ عمران خان کے پاس یہ سنہری موقع ہے کہ وہ واقعی تبدیلی کے نقیب ٹھہریں۔

سوال یہ ہے کہ تحریک انصاف کیا تبدیلی لا سکتی ہے؟ اول تو یہ کہ انتخابی منشور پر عمل کرکے دکھائے۔ اس سے بڑی تبدیلی نہیں ہو سکتی۔ دوسری اور اہم تبدیلی یہ ہو سکتی ہے عمران خان اور تحریک انصاف سیاسی اقدار کو بدل دیں۔ ملک کی سیاست کو الیکٹیبلز کے چنگل سے نکالیں۔ اپنی سیاست کو نظریہ کی پوشاک پہنائیں۔ سیاسی ایوانوں کو کارپوریٹ کمپنیوں اور سرمایہ داروں کی کمیں گاہ بننے نہ دیں۔ سیاست ایک نہایت ہی سنجیدہ شعبہ زندگی ہے۔ اس کو گلیمر نہ سمجھا جائے۔ سیاسی نظام کو گالم گلوچ اور گلوازم سے پاک کیا جائے۔ عمران خان ایسا سیاسی کلچر قائم کرتے ہیں تو تبدیلی بھی آئے گی۔ نیا پاکستان بھی بنے گا۔

آخر میں یہ کہ ان معروضات میں خان صاحب کے ماضی قریب میں اختیار کردہ اسلوب بیان کو مستثنٰی رکھا گیا۔ ان کی طرف سے روا رکھی جانے والی سیاسی بد زبانی کا جان بوجھ کر ذکر نہیں کیا گیا۔ حالیہ انتخابات میں کی گئی مبینہ سیاسی انجینیرنگ کو بھی دانستہ صرف نظر کیا گیا۔ چونکہ خان صاحب اپنے دعوے کے مطابق نیا پاکستان بنانے جا رہے ہیں۔ سو ہم امید کرتے ہیں تحریک انصاف کوئی مثبت تبدیلی لائے گی۔ اسی امید اور امید فاضلی کے شعر کے ساتھ اظہاریے کو مکمل کر دیتا ہوں۔
انقلاب آئے مگر آئے نہ ایسا کہ امید
سایہ خورشید سے اور دھوپ شجر سے نکلے

ڈاکٹر سکندر علی زرین

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر سکندر علی زرین

سکندر علی زرین کا تعلق گلگت بلتستان سے ہے۔ ماس کمیونیکیشن کے پی ایچ ڈی اسکالر ہیں۔ گزشتہ دس برس سے جیو نیوز سے بطور ایسوسی ایٹ اسائنمنٹ ایڈیٹر منسلک ہیں۔ گلگت بلتستان کے اخبارات کے لیے رپورٹنگ کرتے ہیں اور کالم بھی لکھتے ہیں۔ سیاست، تاریخ، اردو ادب، ابلاغیات ان کے پسندیدہ میدان ہیں

sikander-ali-zareen has 45 posts and counting.See all posts by sikander-ali-zareen