مدرسوں میں اپنے بچوں کی تعلیمی تباہی سے بے خبر مسلمان‎


بات چیت کے بیچ بارش مسلسل تیز ہی رہی اور اس سے چھن چھن کی آوازیں بہت خوشگوار معلوم ہورہی تھیں، مغرب کی نماز میں ابھی دیر تھی لہذا وہ سوچ میں ڈوبے اٹھ گئے۔ اب میں پھر تنہا بیٹھا رہ گیا۔ پھر باہر کے ماحول پر نظر پڑی۔ چھوٹے چھوٹے مدرسے میں رہنے والے بچے ماں باپ سے دور مسجد میں اچھل کود مچا رہے تھے۔ کوئی کسی کا ہاتھ پکڑے گھسیٹ رہا تھا تو کوئی کسی کا پیر۔ اس کے ساتھ ہی کچھ بچے مدرسے کے آنگن میں اور کچھ بچے مسجد کے سنگ مرمری فرش پر لوٹ پوٹ ہوکر مسلسل بارش کا لطف لے رہے تھے۔

اس حسین منظر میں بھی میرے منفی ذہن نے اپنے مطلب کی چیز تلاش لی۔ سوچنے لگا اگر یہ بچے اپنے گھر پر اپنے والدین کے بیچ اتنی بے فکری سے مسلسل نہاتے رہتے تو کیا ان کو ان کی طبیعت کی فکر نہ ہوتی، کہ کہیں میرا بچہ بیمار نہ پڑ جائے، اسے بخار نہ ہوجائے؟ لیکن یہاں ان سب باتوں کا کہاں گزر۔ یہ مدرسہ ہے، ایک یتیم خانہ، یا یوں کہہ لیں اولڈ ایج ہوم کی طرح یہ بھی ایک چائلڈ ایج ہوم ہے۔ جیسے اولڈ ایج ہوم میں موت کے دن گنے جاتے ہیں بالکل اسی طرح یہاں بھی کوئی پرسان حال نہیں ہوتا۔ ایک مرتبہ مدرسے میں والدین چھوڑ گئے تو ان کو بس فراغت کے بعد ہی بچے کی فکر ہوتی ہے، یا پھر ممکن ہے کہ میری سوچ سخت ہو۔

بیٹھے بیٹھے میں نے کچھ بوریت محسوس کی تو اٹھ کر ستون سے ٹیک لگالیا پھر آگے دیکھتا ہوں اساتذہ کے لئے جو قدیم رہائشی کمرے تھے، شاید ان میں اب بھی کچھ اساتذہ رہتے ہیں، دیکھتا ہوں وہاں بارش کی کثرت کی وجہ سے ایک بالشت پانی بھر گیا ہے اور شاید اندر موجود استاد باہر آنے کی سوچ رہے ہیں تو چھوٹے چھوٹے طالب علم ان کی حالت پر اکٹھے ہو کر مسکرا رہے ہیں۔ میں سوچنے لگا اس قوم کا کیا ہوگا جہاں ایک معلم تمام تر دشواریوں کو جھیلتا ہوا کم تنخواہ پر راضی پیٹ پر پتھر باندھ کر قوم کی تعمیر میں لگا ہے اور اس کی رہائش گاہ میں ایک بالشت پانی ہے۔ کیا ہمیں اتنی توفیق بھی نہیں کہ ان کے لئے نئی رہائش گاہ کا انتظام کرسکیں۔ کہنے کو تو دو منزلہ دارالاقامہ اور عالی شان مسجد موجود ہے، لیکن شاید اس میں ان کے لئے جگہ نہیں۔

اس کے علاوہ ایک اور سوچ نے سر ابھارا کہ آخر کیا وجہ ہے کہ اساتذہ اور قائدین کے تمام اخلاص کے باوجود ہمارا حال بد سے بدتر کی طرف بڑھ رہاہے۔ کہیں تو کچھ کمی ہے، کہیں تو کچھ خلا ء ہے، جس کو ہماری ظاہر ی آنکھیں نہیں دیکھ پارہی ہیں۔ یا تو ہماری فکر میں کمی ہے یا پھر ہمارا نظام تعلیم مکمل نہیں ہے۔

دارالاقامہ، وضو خانہ اور واش روم الگ الگ ہیں۔ جب بارش کا زور کچھ کم ہوا تو دیکھتا ہوں کہ کچھ طلباء اساتذہ کے حکم پر یا خدمت کے جذبے سے بچوں اور اساتذہ کے لئے وضو خانے اور واش روم تک جانے کے لئے دو دو اینٹوں سے راستہ بنارہے ہیں۔ گاؤں کے لوگ خوشحال ہیں، علاقے میں مسجدوں کی کثرت ہورہی ہے، تقریبا ہر گھر کا ایک فرد بیرون ممالک میں پیسے جوڑ رہا ہے اور اپنے بچوں کی تعلیمی تباہی سے بے خبر ہے۔ میری عمر کے بچے نشے میں لت پت ہیں، بڑے بزرگ یوں تو جماعت کے واقعات سن کر دیندار بن جاتے ہیں لیکن مسجد کے امام کے ساتھ ان کی پٹھانیت اور ہم چوں دیگرے نیست عروج پر ہے۔ قوم بے حال ہے اور ہم بے فکر۔ یہ حال صرف میرے گاؤں یا مدرسے کا ہی نہیں بلکہ یہ کہانی ہر اس مدرسے کی ہے جو دیہات میں واقع ہے اور جس کے پاس وسائل کی کمی ہے۔

مغرب کا وقت ہوا وضو کیا مسجد آیا دیکھتا ہوں کچھ طلباء مغرب کی اذان سے قبل دعاؤں میں مشغول ہیں، مجھے وہ دن یاد آگئے جب کبھی دوران طالب علمی مجھ پر بزرگی کا دورہ پڑا تھا اور وقت مغرب میں بھی مسجد میں ہوتا تھا۔ نماز کے بعد بارش جاری رہی تھوڑی دیر بیٹھا، دیکھتا ہوں کہ وہی پرانی یادیں پھر میرے سر پر سوار ہیں، عربی کے طلباء الگ الگ مجلسوں میں بیٹھے ہیں، اسی طرح حفظ کے طلباء اپنے اپنے استاد کی نگرانی میں سبق یاد کرنے کے لئے حلقہ بنا چکے ہیں اور بالکل درمیان میں مہتمم صاحب اپنے قدیم رعب وداب کے ساتھ جلوہ افروز ہیں۔ میں ستون سے ٹیک لگائے بیٹھا قرآنی آیتوں کا تکرار سنتا رہا۔ کتنا سحرانگیز تھا یہ منظر، بارش کی رم جھم اور قرآنی آیات کا ربط کسی بھی انسان کے دل کو تڑپا دینے کے لئے کافی تھے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2