مسلم لیگ ن کا فارورڈ بلاک اور شہباز شریف اور زرداری کا مزاحمت سے انکار


 

متحدہ اپوزیشن کا الیکشن کمیشن اسلام آباد کے مرکزی دفتر کے باہر عوامی مینڈیٹ پر ڈاکے کے خلاف احتجاج ایک بے معنی اور بے مقصد سیاسی قدم دکھائی دیا۔ پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ شہباز کی اعلی قیادت نے احتجاج میں شریک نہ ہو کر یہ عندیہ دے دیا ہے کہ فی الحال یہ دونوں جماعتیں مقتدر قوتوں سے سو جوتے سو پیاز کھاتے ہوئے ان کی فرمانبرداری اور اطاعت کو ہی ترجیح دیں گی۔ پیپلز پارٹی کو سندھ میں اپنا حصہ مل چکا ہے اور اسے ”راہ راست“ پر رکھنے کے لئے آصف زرداری صاجب پر منی لانڈرنگ کیس کی تحقیقات کا آغاز بھی ہو چکا ہے۔ جبکہ مسلم لیگ نواز اب مسلم لیگ شہباز بن چکی ہے اور توقعات کے عین مطابق شہباز شریف نے اس جماعت کا بیڑہ غرق کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے۔

تیرہ جولائی کو موصوف لاہور ائیر پورٹ کا راستہ بھو ل بیٹھے تھے اور آٹھ اگست کو جناب الیکشن کمیشن اسلام آباد کے دفتر کا پتہ بھول گئے۔ کچھ یہی حال مسلم لیگ شہباز کے باقی ماندہ راہنماؤں کا ہے جو چند ایک بڑھکیں لگانے کے علاوہ نہ تو سنجیدہ طور پر احتجاج ریکارڈ کروانا چاہتے ہیں اور نہ ہی فی الوقت اپنے حصے کی لڑائی خود لڑنا چاہتے ہیں۔ مولانا فضل الرحمٰن ، محمود اچکزئی اور اسفند یار ولی بھرپور طریقے سے احتجاج کرتے دکھائی دیتے ہیں۔

مولانا فضل الرحمان اور عوامی نیشنل پارٹی نے خیبر پختونخواہ اور بلوچستان کی حد تک بہت موثر احتجاج ریکارڈ کروایا ہے البتہ میڈیا پر اس احتجاج کو ”فرشتوں“ کے احکامات کی بدولت بلیک آوٹ کیا جا رہا ہے۔ اس کے برعکس مسلم لیگ شہباز شتر مرغ کی مانند ریت میں سر چھپا کر یہ سمجھ رہی ہے کہ طوفان ٹل جائے گا۔ جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ پنجاب میں مسلم لیگ نواز کا فارورڈ بلاک بن چکا ہے اور جلد ہی نومنتخب نمائندوں کی اچھی خاصی تعداد اڑان بھر کے خاکی درخت کی کسی بھی انصافی یا پرویزی شاخ پر گھونسلہ تعمیر کر لے گی۔

شہباز شریف اور ان کے ثپوت حمزہ شہباز نے مقتدر قوتوں کے آگے جو سر تسلیم خم کیا ہے اس کے بعد مسلم لیگ کا دو ٹکڑوں میں بٹنا ناگزیر ہو چکا ہے۔ شہباز شریف اور ان کے ہمنوا آج بھی ملکی سیاست کی بدلتی ہوئی ہیئت اور آنے والے دنوں میں سیاسی تبدیلیوں کو سمجھنے سے قاصر ہیں اور اس وجہ سے نواز شریف اور مریم نواز کے بیانیے کو ناقابل تلافی نقصان پہنچانے کا باعث بن رہے ہیں۔ اگر واقعی مسلم لیگ شہباز نواز شریف کے بیانیے کے ساتھ مخلص ہوتی تو یہ جماعت انتخابات کے نتائج کو تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہوئے ایک ملک گیر احتجاجی تحریک چلانے کا اعلان کرتی۔ شہباز شریف نواز شریف کی مانند کھل کھلا کر ان قوتوں کا نام لیتے جو انتخابات کی انجئینرنگ میں ملوث تھے۔ لیکن اس کے برعکس محض چند پریس کانفرنسوں میں مینڈیٹ پر ڈاکے کی دہائیوں کے علاوہ کچھ بھی اس جماعت کی جانب سے دیکھنے اور سننے کو نہیں ملا۔

چونکہ شہباز شریف مزاحمتی سیاست کے ہرگز بھی عادی نہیں ہیں اس لئے انہیں مزاحمتی صفوں کے بجائے مفاہمتی صفوں میں کھڑا دیکھ کر ہرگز بھی حیرت نہیں ہونی چائیے۔ بدھ کو الیکش کمیشن کے مرکزی دفتر کے باہر اگر جمیعت علمائے اسلام ف اور عوامی نیشنل پارٹی کے کارکن موجود نہ ہوتے تو مسلم لیگ شہباز اور پیپلز پارٹی کے رہنما ایک دوسرے کو اپنی اپنی تقاریر سنوا کر پتلی گلی سے نکل چکے ہوتے۔ متحدہ اپوزیشن کو اب اس وقت تک کسی بھی اگلے لائحہ عمل کا اعلان نہیں کرنا چائیے جب تک کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ شہباز کے بجائے مسلم لیگ نواز سے اس بات کی گارنٹی نہ حاصل کی جائے کہ یہ جماعتیں پورے دل اور میسر قوت کے ساتھ احتجاج میں شرکت کریں گی۔ بصورت دیگر اس گرینڈ اپوزیشن کا حال بھی بالکل ویسا ہو گا حیسا کہ تحریک انصاف، پیپلز پارٹی، مسلم لیگ قاف اور طاہر القادری کی عوامی تحریک پر مشتمل گرینڈ اپوزیشن کا ہوا تھا۔

آصف زرداری تو خیر شروع سے ڈبل گیم کھیل رہے ہیں اور ایسٹیبلیشمنٹ کے طفل عمران خان کو بچانے باآخر انہیں ہی استعمال کیا جائے گا لیکن مسلم لیگ اس صورتحال میں ڈبل گیم کھیلنے کی متحمل نہیں ہو سکتی ہے۔ نواز شریف اور مریم نواز کو اب جلد یا بدیر شہباز شریف کو پارٹی صدارت سے ہٹانے کا فیصلہ کرنا ہو گا بصورت دیگر مسلم لیگ نواز کا وجود ختم ہو جائے گا اور مسلم لیگ شہباز مسلم لیگ قاف کی مانند غیر موثر ہو کر کسی آنے والے خاکی مہربان کا انتظار کرتی رہ جائے گی۔ اگر نواز شریف نے اس مزاحمتی سیاست کے راستے پر تادیر چلنا ہے تو پھر انہیں مشاہد اللہ خان، پرویز رشید، خرم دستگیر، رانا ثنا الہ، خاقان عباسی اور خواجہ آصف جیسے رفقا کی شدید ضرورت ہے اور انہی میں سے کسی ایک فرد کو پارٹی کی باگ ڈور بھی سونپ دینی چائیے۔

عظمی بخاری جس طریقے سے نواز شریف کے بیانیے کی بھرپور وکالت کرتی دکھائی دیتی ہیں اگر انہیں پنجاب میں اپوزیشن لیڈر کا عہدہ سونپ دیا جائے تو مسلم لیگ نواز کے بیانیے کو نہ صرف تقویت ملے گی بلکہ تحریک انصاف کے ساتھ ساتھ وہ مقتدر قوتوں کے لئے بھی سر درد کا باعث بنی رہیں گی۔ خواجہ آصف کو مرکز میں اپوزیشن لیڈر بنا کر مزاحمتی سیاست کے بیانیے کو مزید مستحکم کیا جا سکتا ہے۔

اگر تمام حالات و واقعات کو مد مظر رکھتے ہوئے بھی نواز شریف شہباز شریف کو ہی پارٹی صدارت پر فائز رکھتے ہیں اور مرکز میں شہباز شریف اپوزیشن لیڈر یا حمزہ شہباز پنجاب میں بطور اپوزیشن لیڈر بن کر سامنے آتے ہیں تو پھر مقتدر قوتوں کے لئے یہ موزوں ترین صورتحال ہو گی۔ جہاں ایک طرف ان کی ایک کٹھ پتلی عمران خان کی صورت میں حکومت میں ہو گی جبکہ دوسری جانب ان کی اپنی ہی کٹھ پتلیاں شہباز شریف، آصف زرداری اور حمزہ شہباز اپوزیشن میں بھی موجود ہوں گی۔ یعنی حکومت بھی مقتدر قوتوں کی اور اپوزیشن بھی مقتدر قوتوں کے ہی پاس۔

اس وقت نواز شریف کو اپنے قریبی رفقا پر بھروسہ کرتے ہوئے انہیں اہم جماعتی ذمہ داریاں سونپتے ہوئے مولانا فضل الرحمان، اسفند یار ولی اور محمود خان اچکزئی کو اپنے بیانیے کا ہمنوا رکھنے کی اشد ضرورت ہے۔ کیونکہ موجودہ صورتحال میں ایک اصل اور مزاحمتی متحدہ اپوزیشن کے قیام میں خود ان کے اپنے بھائی شہباز شریف اور پیپلز پارٹی کے کرتا دھرتا جناب آصف زرداری سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔ اور مزاحمتی اپوزیشن کے بغیر نواز شریف اور مریم نواز کے بیانیئے کا پنپنا ناممکن دکھائی دیتا ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).