اشارہ ابرو کی منتظر باندی، بندی، کنیز اور تابع حزب اختلاف


تحریک انصاف کی نامکمل کامیابی اور عمران خان کے وزیراعظم بننے کی تگ و دو سے اگر ان نعروں اور وعدوں کا پول کھل رہا ہے جو نیا پاکستان کی تعمیر کے لئے لوگوں کو ازبر کروائے گئے تھے تو اپوزیشن جماعتوں کی ناکام اتحاد سازی، تحریک چلانے یا نہ چلانے کے تضاد میں پھنسے سیاسی لیڈر اور دھاندلی کے اعلان کے باوجود جہاں موقع ملے وہاں حکومت بنانے کی کوششوں سے بھی یہی محاورہ یاد آتا ہے کہ ہاتھی کے دانت دکھانے کے اور کھانے کے اور ہوتے ہیں۔ نئے پاکستان کے علمبردار عمران خان اگر اس محاورے کی علامت بنے ہوئے ہیں تو اپوزیشن قائدین اس کی عملی تفسیر محسوس ہوتے ہیں۔ آج اسلام آباد میں اپوزیشن کے گرینڈ الائینس کی طرف سے الیکشن کمیشن کے دفتر کے باہر ہونے والا مظاہرہ اپوزیشن کے قول و فعل میں تضاد کا منہ بولتا ثبوت تھا۔ دونوں بڑی پارٹیوں کے لیڈروں نے اس میں شرکت سے گریز کیا لیکن دعویٰ یہ کیا جاتا ہے کہ دھاندلی کے خلاف جد و جہد سے پیچھے نہیں ہٹیں گے۔

یوں تو اس دو عملی کے لئے یہ دلیل دی جاتی ہے کہ نظام کو جاری رکھنے کے لئے متوازن رویہ اختیار کرنا ضروری ہے۔ اس دلیل کے مطابق اگر احتجاج کا راستہ اختیار کیا جائے تو نظام گرنے کا اندیشہ ہے۔ یعنی فوج جو فی الوقت بالواسطہ سیاسی معاملات طے کرنے یا کروانے کا قومی فریضہ سرانجام دے رہی ہے، وہ براہ راست مداخلت کرتے ہوئے جمہوریت کا بستر گول کرکے مارشل لا بھی نافذ کرسکتی ہے۔ یہی خوف اپوزیشن کو کسی عملی اقدام کرنے سے باز رکھتا ہے۔ اگر غور کیا جائے تو اسی خوف کی وجہ سے ایک کے بعد دوسرا وزیر اعظم داخلی ، خارجی یا مالی معاملات میں فوج کے نامناسب دباؤ کے بعد منتخب پارلیمنٹ کو اعتماد میں لینے ناکام رہاہے۔ حالانکہ عوام اور ان کے نمائیندوں سے چھپ کر مقتدر حلقوں سے مفاہمت کرنے اور ایک پیج پر ہونے کا ڈھونگ رچانے کی کوششیں بار بار ناکام ہو چکی ہیں۔ اس کے باوجود سیاست دان خود پر اعتبار و اعتماد کرنے کی بجائے درپردہ مفاہمت، سرپرستی اور جوڑتوڑ پر ہی یقین رکھتے ہیں۔ اس وقت تحریک انصاف کی کامیابی کو اسٹبلشمنٹ کی کامیابی سے تعبیر کرتے ہوئے دھاندلی اور ناانصافی کا ڈھنڈورا پیٹا جا رہا ہے لیکن یہ واضح ہورہا ہے کہ اس ملک میں سیاسی قائدین احتجاج کرنے یا تحریک چلانے کے لئے بھی اشاروں کے منتظر و خواہشمند رہتے ہیں۔ اگر یہ اشارہ موجود نہ ہو تو کاغذی شیروں کی طرح دھاڑنے اور مقررہ شرائط ماننے کو ہی کافی سمجھا جاتا ہے۔ تاآنکہ انہیں اقتدار میں بندر بانٹ کا اشارہ نہ مل جائے۔ سیاست دانوں کی اسی مفاد پرستی اور عوامی حکمرانی کے بنیادی اصول سے لاتعلقی نے ملک میں غیر جمہوری طاقتوں کو مضبوط کیا ہے اور غیر معمولی حوصلہ عطا کیا ہے ۔ اسی لئے سیاست دان مفاہمت اور جمہوریت کے نام پر نعرے لگانے کے باوجود اقتدار کے لئے ہر قسم کی غیر جمہوری اور غیر آئینی صورت حال کو قبول کرلیتے ہیں۔

 اس وقت بھی احتجاج کا مقصد کسی جمہوری روایت کے لئے میدان ہموار کرنے سے زیادہ احتساب کے نام پر جاری انتقام سے بچنا اور کسی نہ کسی طرح اقتدار کے لئے اپنی باری لگوانا ہے۔ یہ واضح ہے کہ ملک کی اکثر سیاسی جماعتیں گو کہ لوگوں سے ووٹ مانگ کر اسمبلیوں تک پہنچنے میں کامیاب ہوتی ہیں لیکن وہ لوگوں کی تائد و حمایت پرز یادہ بھروسہ نہیں کرتیں۔ اقتدار تک کا باقی ماندہ راستہ طے کرنے کے لئے وہ انہی طاقتوں کو سہارا بنانا چاہتی ہیں جنہیں طاقت کے ہما کی صورت میں قبول کرلیا گیا ہے کہ جس کے سر پر اس قوت کا دست شفقت ہوتا ہے، وہی حکمرانی کا خواب پورا کرنے میں کامیاب ہوتا ہے۔ سیاست دانوں کا بنیادی مقصد چونکہ حصول اقتدار ہوتا ہے اس لئے وہ اس قسم کی سودے بازی کرتے ہوئے کوئی شرمندگی بھی محسوس نہیں کرتے۔ مسلم لیگ (ن) کی قیادت کو گزشتہ پانچ برس کے دوران عام طور سے اور ایک برس کے دوران بطور خاص عدالتی اور سیاسی محاذ پر پے درپے ناکامیوں کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ اس کے باوجود پارٹی کے سربراہ شہباز شریف انتخاب سے پہلے اور بعد میں مفاہمت کا علم اٹھائے کوئی ایسا راستہ تلاش کرنے کی کوشش میں سرگرداں ہیں جس میں انہیں اب نہیں تو کچھ عرصہ کے بعد اقتدار کا کوئی حصہ میسر آجائے۔ اقتدار کی اس ہوس میں وہ اپنے بھائی کی پیٹھ میں چھرا بھونکنے کے علاوہ خود اپنی عزت نفس کو بھی داؤ پر لگائے ہوئے ہیں۔ لیکن وابستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ کے مصداق وہ اسٹبلشمنٹ کی چوکھٹ چھوڑنے پر آمادہ نہیں ہیں۔

پرویز مشرف کے خلاف عدلیہ بحالی تحریک کے تناظر میں ہونے والے این آر او اور جمہوریت کی بحالی کے لئے اقدامات سے لے کر 2013 کے انتخابات کے بعد سے دھاندلی، پاناما پیپرز انکشافات پر عوامی احتجاج کا سلسلہ اور پھر عدالتوں کے ذریعے نواز شریف اور مسلم لیگ (ن) کا راستہ مسدود کرنے کے اقدامات تک سے یہ واضح ہوتا ہے کہ اس ملک میں درپردہ قوتیں صرف اقتدار کی بندر بانٹ ہی کی نگرانی نہیں کرتیں بلکہ اپوزیشن کا لائحہ عمل بھی وہیں سے طے ہوتا ہے۔ جو طاقتیں عمران خان کو اقتدار کے آدھے راستے تک لائی ہیں تاکہ باقی آدھا راستہ طے کرتے کرتے وہ اس قدر ہانپنے لگیں کہ عوامی بہبود کے خواب دیکھنے اور ان کی تکمیل کے لئے کام کرنے کی بجائے وہ مستقل بنیادوں پر حکومت بچانے کی کوشش میں لگے رہیں۔ وہی طاقتیں اپوزیشن کو اس وقت کے لئے تیار کررہی ہیں جب عمران خان سے کوئی ایسی غلطی سرزد ہوگی جو قومی مفاد اور ملکی سالمیت کے مقدس چوخانہ میں فٹ نہ ہوسکے تو اپوزیشن ان کا گلا پکڑنے اور نامکمل ایجنڈے کی تکمیل کے لئے سامنے آسکے۔ جب تک عمران خان اصل طاقتوں کے لئے خطرہ نہیں ہیں اس وقت تک اپوزیشن بھی احتجاج کی ویسی ہی کوششیں کرتی رہے گی تاکہ تماشہ لگا رہے ، جس طرح عمران خان سب سے بڑی پارٹی ہونے کے باوجود اکثریت حاصل کرنے کی بھاگ دوڑ میں لگے ہوئے ہیں۔ جب صبر کا پیالہ بھرنے لگے گا تو اپوزیشن بھی شیر ہوجائے گی، احتجاج بھی بھرپور ہوسکے گا ، جلسے بھی تاریخی ہونے لگیں گے اور پارٹی لیڈروں کو  کسی احتجاج میں نہ پہنچنے کے لئے عذر تراشنے کی ضرورت بھی محسوس نہیں ہوگی۔

کردار دونوں طرف سیاست دان ہی ادا کرتے ہیں۔ دونوں صورتوں میں استعمال عوام اور ان کے معصوم اور سادہ جذبات ہی ہوتے ہیں لیکن یہ کھیل رچانے والی طاقت ایک ہی ہے۔ یہ قوت چہرے بدل بدل کر اتنی بار رونمائی دے چکی ہے کہ اب کسی کو اسے پہنچاننے میں مشکل پیش نہیں آتی۔ لیکن کوئی سیاست دان یا پارٹی اس جمہوریت کش کھیل کا شیطانی چکر توڑنے کا حوصلہ نہیں کرتی۔ کیوں کہ ان کی منزل پاکستان کے حالات تبدیل کرنا یا عوام کی بہبود کے لئے کوشش کرنا نہیں ہوتا بلکہ اقتدار تک پہنچنا ہوتا ہے۔ نعروں کی سیاست صرف حکومت حاصل کرنے کے لئے ہی نہیں کی جاتی بلکہ اقتدار میں رہتے ہوئے بھی نعروں سے ہی کام چلایا جاتا ہے کیوں کہ کرنے کا کام کہیں اور سرانجام پاتا ہے۔ جو اختیار عوام اپنے ووٹ کے ذریعے اسمبلیوں کے ارکان کو عطا کرتے ہیں، اسے کبھی الیکٹ ایبلز، کبھی آزاد انتخاب اور کبھی مصالحت ونظام کی حفاظت کے نام پر فراموش کردیا جاتا ہے۔ فیصلے کرنے والے فورمز تک پہنچنے والے ارکان چھوٹے بڑے مفاد کی تکمیل میں مشغول رہتے ہیں ۔ ان کی قیادت اس بات پر راضی رہتی ہے کہ وہ حکمران ہیں ۔ اختیار مانگنے کی صورت میں انہیں ان کی اوقات دکھانے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی جاتی۔  جمہوریت کا مرثیہ پڑھتے ہوئے یہ تو کہا جاتا ہے کہ آج تک کسی وزیر اعظم کو عہدے کی مدت پوری کرنے کا موقع نہیں دیا گیا لیکن اس حقیقت کا دوسرا حصہ بیان کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی جاتی کہ کسی بھی وزیر اعظم نے اقتدار میں رہتے ہوئے یا علیحدہ ہونے کے بعد ان مشکلات سے نہ پارلیمنٹ کو آگاہ کیا اور نہ ہی عوام میں آکر سچ بتانے کا حوصلہ کیا۔ جو باتیں اشاروں کنایوں میں کی جاتی ہیں ، ان سے حالات کی تبدیلی کا گمان کرنا خود کو دھوکہ دینے کے مترادف ہے۔

حیرت انگیز طور پر سیاست دان اقتدار کے کھیل میں الزامات کا سارا بوجھ خود اپنے کندھوں پر اٹھانے کے باوجود اس کا حصہ بنے رہنے پر مصر دکھائی دیتے ہیں۔ سیاست دانوں کی خاموشی کی ایک وجہ ان کی وہ کمزوریاں ہیں جن کا دستاویزی ثبوت کسی نہ کسی فائل کی صورت میں کسی محفوظ الماری میں بند پڑا رہتا ہے۔ دوسری وجہ وقت آنے پر باری ملنے کی امید ہوتی ہے۔ ایسے میں فیصلہ ساز قوتوں کو اب یہ چھپانے کی ضرورت بھی نہیں ہے کہ فیصلے کہاں اور کیوں ہوتے ہیں۔ نہایت ہوشیاری سے رائے عامہ کو اس ڈھب پر تیار کرلیا گیا ہے کہ وہ اس تصویر کو گھوڑا سمجھنے میں قباحت محسوس نہیں کرتی جسے کچھ مدت پہلے گدھا کہا جاتا تھا۔ اس مزاج کا شاندار مظاہرہ آج سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے لاہور کے حلقہ این اے 131 میں دوبارہ گنتی کے لئے لاہور ہائی کورٹ کا فیصلہ تبدیل کرتے ہوئے کیا ہے۔ جب انہیں باور کروایا گیا کہ کوئی بھی حلقہ کھولنے کا وعدہ تو عمران خان اپنی کامیابی کی تقریر میں کرچکے ہیں تو چیف جسٹس ثاقب نثار نے اس بیان کو سیاسی قرار دیتے ہوئے قانون کے لئے غیر اہم قرار دیا۔ یہی سپریم کورٹ پارلیمنٹ میں کی گئی تقریروں کو بھی استثنیٰ دینے سے انکار کرتے ہوئے متعدد سماعتوں میں ان کا تیاپانچہ کرچکی ہے۔

اب ملکی معاملات طے کرنے والی اسٹبلشمنٹ جس میں فوج اور عدالتیں برابر کی سانجھے دار ہیں، اپنے ارادوں کو خفیہ رکھنے کا تکلف بھی برتنے کی ضرورت نہیں سمجھتیں۔ میڈیا کا گلا گھونٹا جارہا ہے لیکن چیف جسٹس کا سوموٹو اختیار حرکت میں نہیں آتا۔ البتہ بنیادی آزادیوں کی حفاظت کے دعوے آئین سے ماورا فیصلوں کی صورت میں سامنے آتے ہیں۔ لیکن جب جمہوریت تماشہ بنتی ہے اور آزادی اظہار ایک غیر ضروری اصطلاح بن کر رہ جاتی ہے تو عدالتوں کو آئینی ذمہ داریاں بھول جاتی ہیں۔ فوج کے سربراہ مرضی کے فیصلے کرتے ہیں اور انہیں کسی قسم کی جوابدہی کا خوف بھی نہیں ہے کیوں کہ ملک میں فوجی حکومت آجانے کے خوف میں مبتلا سیاست دان اختیارات کے تجاوز پر آواز اٹھانے پر آمادہ نہیں ہیں۔ البتہ جب اپوزیشن کو احتجاج کا اشارہ موصول ہوگا تو کینیڈا کے مبلغ بھی عازم لاہور ہوں گے اور دھرنا کا نیا ایڈیشن عوام کی ضیافت طبع کے لئے پیش کیا جائے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2767 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali