عمران خان کی کمزور حکومت اسٹیبلشمنٹ کے مفاد میں ہے، امریکی تھنک ٹینک


امریکی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ عمران خان نے چھوٹی پارٹیوں اور آزاد ارکان اسمبلی کے ساتھ جو اتحاد بنایا ہے وہ ایک کمزور حکومت ثابت ہوگا اور سینیٹ میں پاکستان تحریک انصاف کی اقلیت فیصلہ سازی کی راہ میں رکاوٹ بنی رہے گی۔ تاہم ایک کمزور حکومت مقتدر قوتوں کے مفاد میں ہے اور پاکستان کے طاقت ور حلقے 2013 جیسے مضبوط وزیر اعظم کے حق میں نہیں ہیں۔

تجزیہ کاروں کا کہنا تھا کہ عمران خان کے آنے سے پاکستان کی خارجہ پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ عمران خان نے جس سیاسی نظام کے خلاف نوجوانوں کو متحرک کر کے باہر نکالا، وہ خود بھی اسی نظام کا حصہ بن گئے ہیں، جس سے نوجوان ان سے دور ہو جائیں گے۔

ان خيالات کا اظہار پاکستانی سیاست پر نظر رکھنے والے ماہرین نے واشنگٹن ڈی سی میں ایک مجلس مذاکرہ میں کیا جس کا عنوان تھا ’ پاکستان: انتخابات کے بعد‘۔

اس مذاکرے کا اہتمام ایک تھینک ٹینک ہڈسن انسٹی ٹیوٹ نے کیا تھا جب کہ مقررین میں جارج ٹاؤن یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والی ایسوسی ایٹ پروفیسر کرسٹین فیئر، فلوریڈا یونیورسٹی کے اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر محمد تقی اور امریکہ کے لئے پاکستان کے سابق سفیر حسین حقانی بھی شامل تھے۔

ہڈسن انسٹی ٹیوٹ میں پاکستان کے انتخابات پر مذاکرات سننے کے لیے لوگوں کی ایک بڑی تعداد موجود تھی۔

کرسٹین فیئر نے پاکستان کو درپیش مسائل کا ذکر کرتے ہوئے آئی ایم ایف کے کردار کا ذکر کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کے ادائیگیوں کے توازن کے حالیہ بحران میں امریکہ آئی ایم ایف پر قرضہ نہ دینے کے لیے دباؤ ڈال تو سکتا ہے مگر پاکستان میں جوہری ہتھیاروں کی موجودگی کے باعث امریکہ یہ سمجھتا ہے کہ پاکستان کا ناکام ریاست بننا بہت خطرناک ہے اس لئے، اس بار بھی ہم امریکہ کی طرف سے اس معاملے میں بہت زیادہ دباؤ نہیں دیکھیں گے۔

پروفیسر کرسٹین فیئر کا کہنا تھا کہ ایک ایسے وقت میں جب دنیا بھر کے نوجوانوں میں سیاسی نظام پر اعتماد میں کمی آ رہی ہے وہاں پاکستانی نوجوانوں کا یہ پہلو بہت خوش آئند ہے کہ پچھلی ایک دہائی سے تحریک انصاف کی وجہ سے نوجوانوں کی ایک بہت بڑی تعداد سیاسی عمل میں شریک ہوئی ہے۔

فیئر کا کہنا تھا کہ عمران خان نے پالیسی سازی کی سیاست کو قومی مکالمے کا حصہ بنایا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ نوجوانوں میں جو یہ غصہ پایا جاتا تھا کہ سیاست دان پالیسیاں نہیں بناتے، مسائل کے حل کی بجائے سرپرستی کی سیاست کرتے ہیں، عمران خان نے اسے کامیابی سے استعمال کیا ہے۔

مگر انہوں نے اس خدشے کا بھی اظہار کیا کہ جس طریقے سے عمران خان نے مقتدر قوتوں کے ساتھ مل کر اقتدار حاصل کیا ہے اس سے انہوں نے خود کو بھی نظام کا حصہ بنا لیا ہے جس کے خلاف نوجوان طبقے نے ان کا ساتھ دیا ہے۔

فیئر کا کہنا تھا اب اسی وجہ سے بہت سے نوجوان عمران خان سے دور ہوتے نظر آ رہے ہیں۔

گفتگو میں شریک محمد تقی نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ 1970 میں عوامی مینڈیٹ انتخابات کے بعد چرایا گیا تھا جب کہ اس بار مینڈیٹ انتخابات سے پہلے ہی چرا لیا گیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ اس طرح کی سیاسی انجنیرنگ ایوب خان کے زمانے سے کرتی آ رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ الیکشن سے پہلے نوازشریف کی نااہلی اور پھر جیل، الیکٹیبلز کو ایک پارٹی میں شامل ہونے کے لیے مبینہ دباؤ، میڈیا پر پابندیاں اور شدت پسند گروہوں کو انتخابات میں حصہ لینے کی چھوٹ جیسے عوامل انتخابات سے پہلے دھاندلی کا حصہ تھے۔

انہوں نے کہا کہ ایسا نہیں ہے کہ میڈیا اور احتساب کے ادارے اس مقصد کے لئے پہلی دفعہ استعمال ہوئے ہیں۔ ایوب نے ایبڈو کیا اور پروگریسو پیپرز پر پابندی لگا دی۔ یہی کچھ یحیی، ضیا الحق اور مشرف نے کیا اور وہی کھیل اب کھیلا جا رہا ہے۔

حسین حقانی کا کہنا تھا کہ ماضی میں بھی کرپشن کے الزامات کو استعمال کر کے مرضی کا سیاسی نظام لایا گیا۔ آصف زرداری کو 11 برس جیل میں ڈالا گیا مگر ان پر کبھی الزامات ثابت نہ ہوئے۔ میڈیا کو حریف سیاست دانوں کے خلاف استعمال کیا گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ نوازشریف کو نااہل پہلے کیا گیا اور ان کا ٹرائل بعد میں ہوا۔

ان کا کہنا تھا کہ اگرچہ مذہبی انتہا پسند جماعتیں پارلیمنٹ کا حصہ نہیں بن سکی ہیں مگر اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ وہ پہلے کی طرح سڑکوں کی سیاست کرتی رہیں گی۔

عمران خان کی حکومت کے مستقبل پر بات کرتے ہوئے محمد تقی کا کہنا تھا کہ کمزور سیاسی اتحاد پر مشتمل حکومت کے ہوتے ہوئے عمران خان کے لئے آگے چل کر بہت مسائل ہوں گے۔ متنازع الیکشن نتائج عمران خان کے لئے مسلسل درد سر بنے رہیں گے جب کہ اپوزیشن کا اتحاد بھی بہت مضبوط ہے اور ن لیگ اور پیپلز پارٹی حلیف بن چکے ہیں۔ سینیٹ میں عمران خان کی پارٹی اقلیت میں ہے۔ یہ اتحاد آگے جا کر ان کے لئے بہت مشکلات کھڑی کر سکتا ہے۔

پروفیسر کرسٹین فیئر کا کہنا تھا کہ عمران خان کی کمزور حکومت اور سینیٹ میں اس کی اقلیت مقتدر قوتوں کے مفاد میں ہے۔ پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کو 2013 کی طرح کا مضبوط وزیراعظم منظور نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ موجودہ سیاسی سیٹ اپ میں پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کے پاس عمران خان کے علاوہ کوئی آپشن نہیں تھا۔

وہ مستقبل میں بھی پاکستانی خارجہ پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں دیکھتیں ۔ ان کا کہنا تھا کہ خارجہ پالیسی کا اختیار صرف پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کے پاس ہے اور عمران خان اس میں خاطر خواہ تبدیلی نہیں لا پائیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).