پاکستان کا کوئی جمہوری مستقبل نہیں ہے


وقار بن الہٰی اپنی کتاب ”ماں میں تھک گیا ہوں“ میں لکھتے ہیں کہ (ماخوذ) ہم اساتذہ، جنرل ایوب کے مارشل لا کے خلاف راولپنڈی میں اک مسلسل بھوک ہڑتالی احتجاجی کیمپ لگا کر بیٹھے ہوئے تھے اور اس بات کو بہت سے دن ہو چکے تھے۔ تھکن تھی، پیاس تھی، بھوک تھی، مگر اک لگن تھی جو ہمیں اس بات پر مجبور کیے ہوئی تھی کہ مقصد سے پیچھے نہیں ہٹنا اور ڈٹ کر رہنا ہے۔ نجانے کتنے دن بیت گئے تھے کہ اک روز اک صاحب ہمارے بھوک ہڑتالی کیمپ میں بہت جوش سے دوڑے دوڑے آئے، اور بآواز بلند یہ اعلان کیا کہ جنرل ایوب نے اقتدار چھوڑ دیا ہے۔ یہ سنتے ہی ہمیں اپنی جدوجہد اور مقصدیت پر ناز مزید بڑھ گیا اور ہم شدید پرجوش ہو گئے۔ پھر بھوک ہڑتالی گروہ میں سے کسی نے پوچھا کہ صدر ایوب کی جگہ کون آیا ہے، تو جواب ملا جنرل یحیٰ خان نے اقتدار سنبھال لیا ہے۔ یہ سنتے ہی خیال آیا کہ سارے کی ساری تکلیف بےمقصد ہی تھی۔ ہم نے یہ سن کر اپنی اپنی چادریں، بوریاں اور جوتے اٹھائے اور گھروں کو چلتے بنے!

میرے اک بہت پڑھے لکھے سیاسی رہنما دوست ہیں۔ حکومت میں بھی رہے ہیں۔ وہ کہا کرتے تھے کہ پاکستان، خیالات اور فائلوں کا قبرستان ہے۔ میں نے ان کے اس کہے ہوئے میں اک اضافہ، تقریباً چھ سال قبل کیا تھا کہ پاکستان نظریات، آدرشوں، خوابوں، اور مقصدیت کا بھی قبرستان ہے، جہاں مجھ جیسے نچلے درمیانے طبقے سے تعلق رکھنے والوں ہزاروں نہیں، لاکھوں نہیں، بلکہ کروڑوں لوگوں نے پاکستان میں اک اچھے، باعزت اور روشن مستقبل کی خاطر سیاسی اور سماجی جدوجہد کی چکی، گویا جیل کی سزا کی مانند، مسلسل چلائی ہے، اور اس میں خود اپنا، اپنی نسلوں کا بےنفع اور نقصان پر مبنی سودا کیا ہے۔

پاکستان میں نچلے درمیانے طبقے کے آدرشوں کے کھلواڑ کرنے والوں میں پاکستان پیپلز پارٹی اور جماعت اسلامی کا اک خاص مقام ہے، اور اسی خاص مقام کو پاکستانی سیاسی تاریخ میں عوامی نیشنل پارٹی، مہاجر قومی موومنٹ، جئے سندھ تحریک کے علاوہ، بلوچستان سے نسل پرست رہنما، جو افغانستان میں بیٹھ کر روس اور ہندوستان کی مدد سے بلوچستان کی آزادی کی تحاریک بناتے، چلاتے اور اٹھاتے رہے، شامل ہیں۔

مندرجہ بالا سیاسی جماعتوں نے بڑے بڑے رہنما پیدا کیے جن کے مقامی طور پر معاشی اور سیاسی حالات، یا تو جیسے تھے، ویسے رہے، یا مزید بہتر ہوئے۔ ان سیاسی جماعتوں کے ”عظیم“ رہنماؤں کے ہاں چولہے ہمیشہ جلتے رہے۔ مجھ جیسے اپنے چولہوں کو جلانے کے لیے خود جلتے رہے۔

ان تمام سیاسی جماعتوں نے اپنے اپنے مفاد اور اپنی اپنی مرضی کا وقت آنے پر ریاست کی دنبہ کڑاہی میں بخوشی ہاتھ ڈال کر اس پکوان سے لطف اٹھایا اور بعد میں جب اس کڑاہی پر جب ان کی گرفت، اک لقمہ سے کم ہو کر انگلیاں چاٹنے تک رہ گئی، تو انہیں وہ تمام آدرش، خواب اور مقاصد یاد آ گئے جن کے ابالے دے دے کر وہ نچلے درمیانے طبقے کے نوجوانوں کو گرمائے رکھتے ہیں۔

بات مگر اتنی سادہ نہیں۔

سچ تو یہ ہے کہ پاکستان کی اس دنبہ کڑاہی میں سب سے بڑا ہاتھ، پاکستان کے مقتدر اداروں اور ہستیوں کا تھا، ہے، اور رہے گا بھی۔ سیاستدان تو پھر اپنے Elitist ہونے کی تھوڑی بہت قیمت چکاتا ہے۔ یہ قیمت آپ کو ”تین جِیموں، “ یعنی جنرلز، ججز، اور جرنلسٹس، میں سے کوئی بھی ادا کرتا ہوا نظر نہیں آئے گا۔ ان کا حصہ لقموں اور ہاتھوں تک رہا، انگلیوں تک نہ کبھی آیا، نہ کبھی آئے گا۔

پاکستان کی سیاسی تاریخ کے مدوجزر میں جرنلسٹس، جب تک جرنلسٹ تھے، تب تک ان میں مقصدیت زندہ رہی۔ اب تقریباً تمام بقول محترم عرفان صدیقی، سیٹھ۔ میڈیا کی ”ماہانہ تنخواہوں کی رسی سے بندھے“ ہوئے ہیں۔

صحافتی مقصدیت کو جنرل ایوب کے المشہور روحانی بابوں قدرت اللہ شہاب اور الطاف گوہر نے تباہ و برباد کر دیا جب انہوں نے میاں افتخارالدین کے پروگریسو پیپرز، جو پاکستان ٹائمز اور امروز جیسے اخبارات شائع کرتے تھے، پر جنرل ایوب کے پریس اینڈ پبلیکیشنز آرڈیننس کے ذریعہ سے جابرانہ قبضہ کیا اور پھر شہاب و گوہر نے مل کر ”فرسٹ لِیف“ یعنی پہلا صفحہ نامی تاقیامت محفوظ رہ جانے والا بدنامی اداریہ بھی تحریر کیا۔ شہاب کے نام پرجزبز ہونے والے، ان پر اک اور روحانی بابے، ممتاز مفتی کا شخصی خاکہ پڑھ لیں، تسلی رہے گی۔

اوپر بیان کی گئی تفصیل کیا مقصد کیا ہے؟ بتاتا ہوں!

میرے وطن میں آجکل، میرے طبقے کے نوجوانوں کے آدرشوں اور جذباتی مقصدیت کی بنیاد پر ”جمہوریت“ کی اک نئی ہوا چل ہوئی ہے۔ پاکستان کے اصلی مائی باپ نے دھکے شاہی سے حال میں ہونے والے الیکشنوں میں اپنی وہ مرضی کی، جس کو میں اور میری نسل نے 1988 سے دیکھا اور بھگتا ہے۔ یہ دھکے شاہی اور اس سے جڑا احساس توہین، مطالعے اور تاریخ کے شعور سے کروڑوں کوسوں دور، پاکستان کی پچھلی دو نسلوں کا مسئلہ ہی نہیں۔ تو لہذا، آنے والا مستقبل چونکہ موجودہ نسلوں کی اینٹوں پر ہی تعمیر کیا جائے گا، تو جمہوری، سیاسی، شہری و سماجی آزادیوں کے آئینی خواب تیل لینے جا سکتے ہیں۔

حلفا کہتا ہوں کہ یہ تمام ردِعمل میں نہیں لکھ رہا دوستو، بلکہ اپنے جیسے گھروں کے بچوں کو بتانے اور سمجھانے کے لیے لکھ رہا ہوں یہ سیاسی و سماجی حقوق کے لیے جدوجہد کی افیون خدارا نہ چبائیے گا، کہ یہ افیون میری اور مجھ سے پہلے والی نسل نے بہت چبائی اور اس کے بدلے میں غربت سے نکلنے کی اک مسلسل کوشش کے علاوہ کچھ ہاتھ نہیں آتا۔

میرے پڑھنے والوں میں سے تمام وہ جو بھلے میری، مجھ سے پہلے یا مجھ سے بعد والی نسل سے ہیں، اور پاکستان کے ساتھ خود کو سیاسی طور پر جڑا ہوا محسوس کرتے ہیں، اور چاہتے ہیں کہ اس ملک میں جمہوریت اپنی اصلیت میں آئے اور قانون کی چھتری تلے ہم سب برابر ہوں، انہیں بتاتا ہوں: یہ۔ ممکن۔ نہیں!

آپ اپنے آپ کو پاکستان کے ساتھ سیاسی طور پر جڑا ہوا اگر محسوس کرتے ہیں، تو آپ کی مرضی ہے۔ جب کہ آپ یہ تعلق بہت آرام سے سیاسی طور سے ہٹا کر، معاشی بھی کر سکتے ہیں، اور یہ بالکل اک نارمل بات ہے کہ آپ، بطور شہری، اپنے تعلق کو اپنے معاشی، معاشرتی اور گروہی مفاد کے ساتھ جوڑ لیں۔ پاکستان 22 کروڑ لوگوں کی اک بڑی مارکیٹ ہے۔ یہاں مٹی سے لے کر سونے تک، چوہے سے لے کر انسان تک، سب بِکتا ہے۔

جی ہاں، سب بِکتا ہے۔ سب!

پاکستان میں سیاسی و جہموری آزادیوں کا جو ڈھکوسلہ بہت کامیابی سے قائم کر دیا گیا ہے، وہ میری باقی ماندہ زندگی، جو کہ تیس چالیس برس مزید ہے، میں تو قائم رہتا ہوا نظر آتا ہے۔ اس کے بعد کیا ہوتا ہے، قبر میں لیٹے مبشر اکرم کو کیا پرواہ ہو گی بھلا؟

اپنے ذاتی معاملات، معیشت کے ساتھ جوڑ دیجیے۔ مجھے اس سبق کی سمجھ تھوڑی دیر سے آئی، اور یہ سمجھ خود ہی دھکے اور دھوکے کھا کھا کر حاصل کی۔ آپ کی مرضی ہے کہ یا تو آپ اپنے حصے کے دھکے اور دھوکے خود کھا لیں، یا پھر کھائے ہوئے سے سیکھ لیں۔

چرچل نے کہا تھا کہ تجربہ ایک ایسی کنگھی ہے، جو انسان کو تب ملتی ہے جب اس کے سر پر بال نہیں ہوتے۔ مرضی بہرحال آپ کی ہے کہ یہ کنگھی کب حاصل کرتے ہیں۔ وگرنہ اصل وہی ہے جو وقار بن الہٰی صاحب نے اپنی آپ بیتی میں تحریر، اور میں نے ابتدا میں ہی بیان کر دی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).