لُوٹا ہوا پِزا اور سوئمبر



جو اپنے خریدے گئے پزا کی حفاظت نہ کرسکا، وہ ملک کی حفاظت خاک کرے گا؟ اول تو عمران خان کو ایسی حرکت کرنا نہیں چاہیے تھی۔ خدا کے بندے! تم ایک بڑی پارٹی کے سربراہ ہو۔ تبدیلی کا نعرہ لگا رہے ہو۔ عوام نے تم پر اعتماد کیا ہے۔ ووٹ ڈالے ہیں۔ تم متوقع وزیراعظم ہو۔ دنیا بھر کی نظریں تم پر ہیں۔ ایک ایک نقل و حرکت کا جائزہ لیا جارہا ہے اور حالت تمہاری یہ ہے کہ پزا لینے کے لیے رات گئے خود نکل کھڑے ہوئے۔ وہ بھی تن تنہا۔

پھر اگر عمران خان سے یہ حماقت سرزد ہو ہی گئی تھی تو کم از کم نقاب پوش ڈاکوؤں کو تو شرم آنی چاہیے تھی۔ ایک گھر تو ڈائن بھی چھوڑ دیتی ہے۔ اب یہ تو ممکن نہیں کہ موٹرسائیکلوں پر سوار ڈاکوؤں کے اس گروہ نے عمران خان کو پہچانا نہیں۔ کون سا پاکستانی ہے جس نے عمران خان کی تصویر بارہا نہ دیکھی ہو۔ ان بدبختوں نے ہمارے متوقع وزیراعظم سے پزا چھینا اور فرار ہو گئے۔ عمران خان نے پیسے بھی خرچکیے اور پزا بھی ہاتھ نہ آیا۔ ان ڈاکوؤں کو خود بنفس نفیس ملنا چاہتا تھا کہ شرم دلاؤں مگر درمیان میں اور جھمیلے آن پڑے۔ خبر ملی کہ حمزہ شہبازشریف صاحب کو صوبے کا وزیراعلیٰ نامزد کردیا گیا ہے۔ اپنے نون لیگی دوستوں کو مبارکباد دینے میں مصروف ہوگیا۔ مٹھائیاں اور کیک خریدنے پڑے۔ خدا کا شکر ہے یہ فیصلہ میرٹ اور خالص میرٹ پر ہوا۔

نون لیگی دوستوں نے مٹھائیوں کے ٹوکرے اور کیک بھرے ڈبے وصول کرنے کے بعد تفصیل بتائی کہ مسلم لیگ نون کے اراکین خالص میرٹ سے ایک انچ نیچے اترنے کے لیے تیار نہیں۔ وہ حمزہ شہباز کو وزیراعلیٰ نامزد کرنے کے لیے آمادہ ہی نہ تھے۔ خود شہبازشریف اس نامزدگی کے خلاف تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کے بعد ان کے فرزند کا وزیراعلیٰ ہونا تقویٰ کے خلاف ہے۔ تقویٰ کو وہ بہت پسند کرتے ہیں مگر حادثہ یہ ہوا کہ میرٹ کی کسوٹی پر حمزہ شہباز کے علاوہ کوئی پورا ہی نہیں اتر رہا تھا۔ پنجاب میں بہت سے نون لیگی سیاست دان تھے۔ سفید سروں والے۔ پوری پوری زندگیاں سیاست میں لگا دیں۔ شریف خاندان کے لیے قربانیاں دیں، مدتوں ہاں میں ہاں ملائی۔

اسمبلیوں میں، جلسہ گاہوں میں، ہر جگہ ساتھ دیا۔ خواجہ سعد رفیق، خواجہ آصف، احسن اقبال، خرم دستگیر، رانا ثناء اللہ، سائرہ تارڑ ایک سے ایک بڑھ کر تجربہ کار، منجھا ہوا پڑھا لکھا مگر وزیراعلیٰ کے لیے جو معیار مقرر کیا گیا تھا، اس پر کوئی بھی پورا نہ اتر سکا۔ بالآخر نوجوان حمزہ شہباز آگے بڑھا۔ میرٹ کا لباس اسے پہنایا گیا تو قدرت خدا کی یہ لباس اس کے متناسب بدن پر اس طرح فٹ ہوا گویا درزی نے اس کا ماپ لے کر سیا تھا۔ فراز کا شعر یاد آگیا ؎ سنا ہے اس نے سوئمبر کی رسم تازہ کی فراز تو بھی مقدر کو آزمانے جا جوان رعنا حمزہ شہباز اگر گزرے زمانوں میں ہوتا تو میرٹ پر سوئمبر کا مقابلہ بھی جیت جاتا۔

اس گزرے زمانے میں جب کوئی خوبصورت شہزادی جوان ہوتی تو اس سے شادی رچانے کے آرزو مند امیدوار ایک سے زیادہ ہوتے۔ ان میں نشانہ بازی کا مقابلہ کرایا جاتا مگر یہ مقابلہ عام مقابلہ نہ ہوتا۔ ایک مچھلی اونچی جگہ پر لٹکائی جاتی۔ نیچے پانی رکھا جاتا۔ امیدوار کو کہا جاتا کہ مچھلی کو نشانہ بنانا ہے مگر مچھلی کی طرف دیکھ کر نہیں، بلکہ پانی میں مچھلی کا عکس دیکھ کر یا درخت کے ساتھ آئینہ باندھا جاتا اور امیدواروں کو کہا جاتا کہ ہدف کے آئینے میں دیکھ کر نشانہ باندھیں۔ جو تیرانداز پانی یا آئینے میں عکس دیکھ کر ہدف کو نشانہ بنانے میں کامیاب ہو جاتا وہ سوئمبر جیت جاتا۔ وزیراعلیٰ کی نامزدگی کا فیصلہ خالص اور خالص میرٹ پر کیا گیا۔ جناب حمزہ سوئمبر جیت گئے اور سارے سفید سر، چٹ داڑھیے، عمر رسیدہ، تجربہ کار سیاست دان میرٹ کے اس مقابلے میں ہار گئے۔

شہبازشریف کو یہ خبر ملی تو پہلے روئے، پھر ہنسے، خبر لانے والے ایلچی نے پوچھا اے سابق خادم اعلیٰ، اے تعدد ازدواج کے بین الاقوامی شہرت یافتہ ہیرو، اے لمبے بوٹوں اور ہیٹ کی شہرت رکھنے والے مرد عظیم، اس فقیر کو جلد بتا کہ تو پہلے رویا کیوں، پھر ہنسا کیوں، سابق خادم اعلیٰ نے چھپن کمپنیوں پر شفقت بھرا ہاتھ پھیرا، پھر احد چیمہ اور فواد حسن فواد کی یاد میں ایک لمبی آہ کھینچ کر کہا کہ اے نامعقول ناہنجار ایلچی، رویا میں اس لیے کہ تین دہائیوں کی محنت شاقہ کے باوجود پارٹی میں کوئی ایک رکن بھی اس قابل نہ نکلا کہ وزارت اعلیٰ کی پوسٹ کے لیے میرٹ پر کامیاب ہوتا، ساری محنت بے کار نکلی۔ یہ کہہ کر شہبازشریف دوبارہ زار و قطار رونے لگے۔ اس پر ایلچی نے کہا کہ اے انگلی لہرانے والے اور بار بار چیک اپ کے لیے لندن جانے والے عظیم رہنما، اب یہ بتا کہ تو ہنسا کیوں، یہ سن کر شہبازشریف نے ہیٹ اتارا، لمبے بوٹوں سے پاؤں باہر نکالے، انگلی لہرائی، زرداری کو سڑکوں پر گھسیٹنے کا نعرہ لگایا اور وہ چھری دکھائی جس سے پیٹ پھاڑ کر اندر سے ساری دولت نکالنا تھی اور کہا کہ ہنسا میں اس لیے کہ الحمدللہ، آخر فرزند گرامی ہی اس سوئمبر میں کامیاب ہوا۔

عمران خان سے پزا چھیننے والے ڈاکوؤں سے ملاقات کرنے گھر سے نکلنے ہی والا تھا کہ ایک اور خبر موصول ہوئی۔ ایم ایم اے نے ڈپٹی سپیکر کی کرسی پر بیٹھنے کے لیے مولانا فضل الرحمن کے فرزند ارجمند مولانا اسعد محمود کو نامزد کیا۔ قاصد نے بتایا کہ اس انتخاب کے لیے بھی سوئمبر کا مقابلہ ہوا۔ میاں انس نورانی، مولانا ساجد نقوی، لیاقت بلوچ سب بڑے بڑے جغادری ہار گئے۔ بڑی کوشش کی گئی کہ ان میں سے کوئی میرٹ پر پورا اتر جائے۔

اجلاس کی صدارت مولانا فضل الرحمن کر رہے تھے۔ وہ نہیں چاہتے تھے کہ ایم ایم اے والے ان کے فرزند گرامی کو اس منصب کے لیے نامزد کریں۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ تقویٰ کے بھی خلاف ہے اور جمہوری اصولوں سے بھی متحارب ہے۔ تقویٰ آپ کوبہت بہت پسند ہے مگر افسوس! میرٹ کے امتحان میں سب فیل ہو گئے۔ مولانا سراج الحق سے بھی بہت امیدیں وابستہ تھیں مگر سوئمبر میں وہ بھی کھیت رہے۔ آئینے میں ہدف کو تاکا، نشانہ باندھا مگر افسوس! ٹیڑھی ٹوپی نیچے گر گئی، نشانہ الگ چوک گیا۔ ٹیڑھی ٹوپی انہیں عزیز بہت ہے۔ ٹیڑھی ٹوپی پہننے والے کو کج کلاہ کہتے ہیں۔ عجز وانکسار کے باوجود (جو ان کا مشہور ہے) کج کلاہی کو بہت پسند فرماتے ہیں۔ مولانا اسعد محمود نے یہ مقابلہ خالص میرٹ پر جیت لیا۔

مولانا فضل الرحمن کو خبر پہنچی تو پہلے ہنسے پھر دوبارہ ہنسے۔ رونا انہوں نے سیاست میں سیکھا ہی نہیں۔ خبر لانے والے ایلچی نے استفسار کیا کہ اے سیاست کے بحر ظلمات میں کامیاب غوطہ لگانے والے ماہر، آپ ہنسے کیوں اور دوبارہ کیوں ہنسے۔ فرمایا اس لیے ہنسا کہ میرٹ کے امتحان میں سب ناکام ہو گئے۔ دوبارہ اس لیے ہنسا کہ صرف فرزند گرامی یہ مقابلہ جیت سکا۔ فراغت ہوئی تو پھر ڈاکوؤں سے بات کرنے کا سوچا مگر معلوم ہوا کہ خبر ہی غلط تھی۔ یہ کوئی اور عمران خان تھا جو فیصل آباد میں پزا لے کر گھر جا رہا تھا کہ اقبال سٹیڈیم کے داخلی گیٹ کے سامنے موٹرسائیکل سوار نقاب پوش ڈاکوؤں نے پزا لوٹ لیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).