بادشاہ سلامت نے الیکشن جیتا


ہمارا مقامی سیاست میں حصہ لینا۔

ان دنوں الیکشن زوروں پر تھا۔ الو شناس معروض ہوا کہ ہم دلی میں اس قدر مقبول ہو چکے ہیں کہ خواہ کسی ٹکٹ پر کھڑے ہوئے جائیں، انشا اللہ کامیاب ہوں گے۔ بادشاہ گروں سے مشورہ لینا بیکار تھا کیونکہ الیکشن کے معاملے میں وہ بالکل یوں ہی تھے۔ ایک ایک ٹکٹ پر لاتعداد امیدواروں کو نامزد کر دیتے تھے۔ یہاں تکہ کہ بعض اوقات امیدواروں کی تعداد رائے دہندگان سے زیادہ ہو جاتی۔ لطف یہ تھا کہ ہمارے مقابلے میں محمد شاہ رنگیلا بھی تھا۔

فرمانبردار خان نے حسب معمول نہایت مایوس کن خبریں سنائیں۔ جب ہم نے اس کو برا بھلا کہا تو وہ بھی مان گیا کہ واقعی ہم شہر میں بے حد ہردلعزیز ہیں اور الیکشن میں ضرور کامیاب ہوں گے۔ یہ شخص آہستہ آہستہ ہمارے مزاج سے واقف ہوتا جا رہا ہے۔

سات امیدواروں سے دو کو زرکثیر تحفتاً دے کر بٹھایا گیا۔ تیسرے کو ڈرا دھمکا کر علیحدہ کیا۔ چوتھے کو سفیر بنا کر باہر بھجوانا پڑا۔ دو کمال درجہ ضدی نکلے۔ ایک کو زد و کوب کرایا تو مانا، دوسرے نے مشکوک حالات میں داعی اجل کو لبیک کہا۔

رائے شماری شروع ہوئی۔ حقہ بردار خان نے شہر بھر کی دعوت کی۔ لوگوں کو تحفے اور زر نقد دیا۔ رائے دینے والوں کو طرح طرح سے خوش کیا۔ اتنی خاطر تواضح کے بعد بھی کوئی بدتمیز نہ مانتا تو اسے ڈنڈے کے زور سے منوایا جاتا کہ ہم سچ مچ ہردلعزیز ہیں۔

ہم جیت تو گئے لیکن اخراجات کی تفصیل دیکھی تو ازحد پشیمان ہوئے۔ افسوس بھی ہوا کہ ناحق ذرا سی خوش وقتی کی خاطر اتنا روپیہ اور وقت برباد کیا۔

معلوم ہوا کہ ہند میں ہر صاحب دولت کی سب سے بڑی خواہش ہوتی ہے کہ الیکشن لڑے۔ سیاسی معاملات میں یہ لوگ بالکل سنجیدہ نہیں ہوتے۔ نتیجے سے زیادہ وقتی ہنگامے کی پرواہ کرتے ہیں اور محظوظ ہوتے ہیں۔
ملک ملک کا رواج ہے صاحب۔
تزک نادری، مزید حماقتیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).