بیٹا نہ دیجئو


اس کی ساس نے بیڈ پر سے اس کا ہاتھ پکڑ کے اتارا اور جلدی سے رکشہ ڈھونڈ کے لے کے آئی خوشی کے مارے بڑھیا کا جھریوں بھراکریہہ چہرہ چمک رہا تھا۔ عالیہ بھی خوش تھی کہ اس بار لعن طعن اور مار کٹائی کے بغیر سکون سے وقت گزرے گا جو پچھلے چار بیٹیوں کی بار اور پانچویں بیٹی۔ پانچویں بیٹی پہ آکر اس کی سانس اکھڑنے لگتی آنکھیں بھیگ جاتیں اور اتنی خوشی میں بھی غم اس کے چہرے سے عیاں تھا“اری منحوس! تجھے تو خوش ہونا چاہیے تجھ جیسی لڑکیاں پیدا کرنے کی مشین کو اللہ بیٹا دینے جارہا ہے، اری! میں نے تعویذ کرا کرا کے وظیفے پڑھ پڑھ کے یہ دن اپنے بیٹے کو دکھایا ورنہ تو تو اس کو وارث دینے جوگی نہیں تھی“ ساس ہاتھ نچا نچا کے بول رہی تھی بچیاں ماں سے لپٹنے لگیں تو اس نے مار کے پرے بھگا دیا اور سختی سے منع کردیا کہ ان منحوسو کی شکلیں کم دیکھا کرنا میرا پوتا چاند سا ہونا چاہیے اور اس دن تو بڑھیا ناچ ہی اٹھی جب اسے پتہ چلا کہ ایک نہیں دو لڑکے آنے والے ہیں جڑواں لڑکے۔

عالیہ بھی خوش تھی اب تو کہ رب نے اس پہ ہونے والے ظلم کے بدلے اس پر یہ نعمت اتاری ہے پر پتہ نہیں اندر کوئی چیخ نکل جاتی تھی ایسی ہی چیخ جیسی اس وقت نکلتی ہےجب کسی کا گلا دبایا جائے، کسی کی جان نکالی جائے۔ وہ ڈر جاتی۔ اس کا جسم بہت کمزور ہوتا جارہا تھا ابھی پچھلی کمزوریاں دور نہیں ہوئیں تھیں اب یہ جڑواں بچے گو کہ اب ساس اس کی خوراک اور آرام کا خوب خیال رکھتی تھی پر پھر بھی۔ دن بہ دن چیخیں بڑھتی جارہی تھیں اور پتہ نہیں کیا ہورہا تھا اسے آنے والے بچوں میں کوئی دلچسپی نہیں تھی شاید جسمانی کمزوری کا اثر تھا یا کچھ اور بیٹیوں کی دفعہ وہ بہت خوش رہتی تھی مگر اس بار ۔۔۔

اور نادر اتنی بڑی خبر کے بعد بھی ویسا ہی سفاک تھا سچ ہی ہے مرد کی فطرت ہی ایسی ہے اس کی کوئی حالت دو چار دن سے زیادہ نہیں ٹھہرتی یہی حال نادر کا بھی تھا وہی لڑائی، گالم گلوچ یہاں تک کہ مار کٹائی بھی ویسی کی ویسی ہی تھی وہ اندر ہی اندر مرنے لگتی تھی۔ یوں تو نادر پانچ ٹائم کا نمازی تھا۔ شادی سے پہلے دو حج کر رکھے تھے مگر انسانیت نام کی چیز پاس سے نہیں گزری تھی

اس کی طبیعت اس دن بہت خراب تھی وہ نماز پڑھ رہی تھی اس سے نماز پڑھنا مشکل ہورہی تھی۔ نادر بھی نماز پڑھ رہا تھا۔ درد کے مارے وہ کراہنے لگی تو اس نے نادر کو بولا کہ مجھے دوا لادیں اس کی آوازوں سے اس کی نماز خراب ہوگئی۔ سلام پھیر کر اس نے چوٹی سے پکڑ کر دو تین تھپڑ پے در پے لگا دیے اسے کہ جہنمی عورت تمھاری وجہ سے میری نماز خراب ہوگئی ساری۔ وہ جائے نماز پہ بیٹھی ہی رہ گئی آنسوؤں کا گولہ اس کے گلے میں بری طرح اٹک گیا اس کی اپنی نماز ادھوری ہی رہ گئی۔ بچیاں اس کے پاس آکے بیٹھ گئیں۔ وہ دعائیں کرتی تھی کہ اگر سارے مرد نادر جیسے ہی ہوتے ہیں تو یا اللہ مجھے بیٹا نہ دینا مجھے نہیں چاہئیے ایسے ظالم سفاک بیٹے جو عورت کو اس طرح ماریں، ایذا دیں۔

اس کی طبیعت بہت خراب ہورہی تھی بالآخر ہسپتال جانا پڑگیا وہاں جاکر اسے پتہ چلا کہ ایک بچے کی ڈیتھ ہوگئی ہے دوسرے کو بچانے کی کوشش کررہے ہیں اور پھر دوسرا بھی نہیں بچا۔ ڈاکٹروں نے مرنے سے پہلے ایک بچہ اسے دکھا دیا ایک ننھی سی جان اس کے ہاتھوں میں بے جان پڑی تھی اسے لگا کسی نے اس کا دل نکال کے باہر رکھ دیا اس نے ہسپتال میں ہی چیخنا شروع کر دیا اور وہ جو چیخیں اس کے اندر بسیرا کیے بیٹھی تھیں وہ اس سے بھی زیادہ زور سے چیخیں۔ اتنی چیخیں تھیں کہ وہ بیہوش ہوگئی۔

وہ جو دعا کرتی تھی کہ اللہ اگر مرد اتنے سفاک ہوتے ہیں تو مجھے بیٹا نہ دیجئو اب ہر پل روتی تھی۔ کبھی ممتا عورت بن جاتی تو وہ قتل ہونے والی بیٹی سامنے کھڑی ہوجاتی اور پھر جب صرف ماں رہ جاتی تو ہاتھ میں پڑا مردہ بیٹا روپڑتا اور وہ چیخنےلگتی۔ پہلے زمینی خداؤں نے اس کی گود اجاڑی اور اب آسمانی خدا نے زمینی خداؤں سے بدلہ لے لیا مگر اس کی گود، وہ ستر ماؤں جتنی بوڑھی ہونے لگتی۔ وہ زندہ لاش بنی باپ کے گھر آگئی تھی کہ اب اس کے جسم اور روح میں یہ کوکھ اور قبر کا جان لیوا کھیل کھیلنے کی سکت نہیں رہی تھی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2