عمران خان کے ساتھ پھر ہاتھ ہو گیا


\"Bilalوزیر اعظم پاکستان بننا تجربہ کاری کی بات ہے یا نصیبوں کے کھیل؟ اور کیا عمران خان کبھی اس منصب پر فائز ہو سکیں گے؟ ان سوالوں کے جواب تو نہیں دیئے جا سکتے لیکن یہ بات تو تسلیم کر لینی چاہیے کہ عمران خان ساری عمر جس بھی کھیل میں شامل ہوئے اس میں کپتانی ہی کی ہے۔ مگر اس المیہ سے بھی انکار ممکن نہیں کہ سیاست کے کھیل میں خان صاحب نے جو بھی باؤنسر مارا ہے اس پر بال سٹیڈیم سے باہر ہی گئی ہے۔ سوشل میڈیا پر ایک پوسٹ دیکھنے کا اتفاق ہوا جس میں نواز شریف کی شادی کا منظر ہے سٹیج پر ایک گھومنے والا پنکھا پڑا ہے جبکہ دوسری طرف عمران خان کو کسی کمرے میں شاہانہ لباس اور مخملی چپل پہنے دکھایا گیا ہے اور تحریر ہے ’’جب نواز شریف کی شادی میں گھومنے والا پنکھا ہوا کرتا تھا تو عمران خان بادشاہوں کی زندگی گزار رہا تھا۔ ۔ ۔ ایسا ہوتا ہے لیڈر فلاں فلاں۔ ۔ ۔ ‘‘ اور ہم سوچ رہے ہیں کہ اسی جگہ کی باقی تصاویر بھی تو انٹرنیٹ پر موجود ہیں جن میں خان صاحب کے بغل میں ایک گوری ماہ جبیں موجود تھی وہ تصاویر بھی اپ لوڈ ہو جاتیں تو خان صاحب کی کنیزوں کا بھی کچھ بھلا ہو جاتا۔

حقیقت یہ ہے کہ جس دور میں نواز شریف شادی کر رہے تھے سیاست میں قدم جما رہے تھے اس دور میں عمران خان دنیا کے نمایاں پلے بوائے ہوا کرتے تھے اور ان کا مقصد حیات کھیل اور زندگی ہر دو میدانوں میں سنچریاں بنانا ہوا کرتا تھا۔ ایسے موقع پر اکثر ذاتی زندگی کا فل سٹاپ لگانے کی کوشش کی جاتی ہیں لیکن یاد رکھا جائے کہ لیڈر عوام کو جواب دہ ہوتے ہیں۔ آف شور کمپنیوں کا شور بلند ہونا شروع ہوا تو ’’نیازی سروسز لمیٹڈ‘‘ منظر عام پر آ گئی۔ یہاں بھی یہ ثابت ہو گیا کہ عمران خان سیاست میں آنے سے پہلے واقعی نمبر ون تھے۔ خواجہ آصف کی اکثر باتوں سے اتفاق ممکن نہیں ہوتا مگر یہ بات تو سولہ آنے درست ہے کہ 1983 میں جب کسی کو آف شور کے ہجے نہیں آتے تھے تب عمران خان کی اپنی ذاتی آف شور کمپنی موجود تھی۔ اب عمران خان کی سادگی دیکھئے انہوں نے آف شور کمپنی کی صحت سے انکار نہیں کیا مگر اس کا سارا الزام اپنے اکاؤنٹنٹ کے سر ڈال دیا۔ انہوں نے ٹیکس چوری سے بھی انکار نہیں کیا مگر وہ ٹیکس انہوں نے پاکستان کی محبت میں چوری کیا کیونکہ یہ ٹیکس وہ برطانیہ کا چوری کر رہے تھے۔ وہی برطانیہ جس نے 100 سال تک ہم پر حکومت کی تھی اب اگر آپ ان کا ٹیکس چوری نہیں کریں تو بدلہ کون لے گا۔ ؟
یہ پانامہ، آف شور، ریڈکو اور سرے محل سب کے سب وقتی ابال ہوتے ہیں مگر ہماری طبع نازک کو اگر کچھ گراں گزرا تو وہ تھا عمران خان کی آف شور کمپنی کا نام ’’نیازی سروسز لمیٹڈ‘‘۔ بھلا یہ کیا نام ہوا؟ پہلی بار سننے میں تو بسوں کے پیچھے لکھے ہوئے ’’نیازی طیارہ‘‘ کی یاد آ جاتی ہے۔ خان صاحب کو شاید اندازہ نہیں تھا کہ ڈھونڈنے والے ان کی آف شور کمپنی اور اس کے ٹیکس ریٹرن تک ڈھونڈ لیں گے ورنہ وہ بھی کوئی تخلیقی یا کانوں کو اچھا لگنے والا نام ہی رکھ لیتے۔ اس سے اچھا نام تو بظاہر کاروباری اور صرف کاروباری نظر آنے والی شریف فیملی نے اپنی آف شور کمپنیوں کے لیے چنے۔ مثلاً نیسکول لمیٹڈ، نیلسن انٹرپرائزز لمیٹڈ اور ہنگون پراپرٹی ہولڈنگ لمیٹڈ۔ شریف فیملی کی آف شور کمپنیوں کو تو پاناما پیپرز نے آشکار کیا۔ جبکہ عمران خان کے ساتھ تو ’’آپ اپنے دام میں صیاد آ گیا‘‘ جیسا معاملہ ہو گیا۔ ہمیں پاناما والوں سے کوئی شکایت نہیں کہ 2.6 ٹیرا بائیٹ کے ڈیٹا میں سے وہ زرداری فیملی کی کوئی آف شور کمپنی کیوں نہ رکھ سکے کیونکہ یہ معاملہ شاید اعلیٰ دماغوں نے کسی اگلے پڑاؤ کے لئے سوچ رکھا ہو گا۔ مگر اس بات کا صد فیصد یقین ہے کہ زرداری خاندان کی آف شور کمپنیاں جہاں بھی ہوں گی ان کے نام بھی بہت تخلیقی ہوں گے، آزمائش شرط ہے۔

اس بات میں تو کلام نہیں کہ عمران خان تبدیلی کے خوگر ہیں مگر رفتہ رفتہ یہ یقین ہونے لگا ہے کہ پاکستانی عوام اجتماعی طور پر مملکت خداد کے حالات بہتر کرنا ہی نہیں چاہتے یا پھر اپنی کم علمی کے باعث عمران خان کے جذبات ہی نہیں سمجھ پا رہے۔ کسی بھی معاملے کو دیکھنے کے دو طریقے ہوتے ہیں، ایک منفی اور ایک مثبت۔ اگر آپ معاملے کو عمران خان کی نظر سے نہ دیکھیں تو وہ منفی ہوتا ہے اور اگر ان کی رائے سے اتفاق کریں تو یہ انداز فکر مثبت کہلاتا ہے۔ عمران خان کا سیاست میں آنے سے پہلے کوئی ثانی نہ تھا۔ وہ نواز شریف کو کرکٹ کھیلتے دیکھ کر ہنسا کرتے تھے، بادشاہوں کی زندگی گزارتے تھے مگر سیاست میں ان کے ساتھ کچھ اچھی نہیں ہو رہی۔ اس کی بہت سی وجوہات ہو سکتی ہیں مگر شاید کرکٹ اور ذاتی زندگی میں خان صاحب کی جشن منانے کی عادت ان کو نقصان پہنچا رہی ہے۔ دھرنوں میں امپائر کی انگلی اٹھ رہی تھی اور کنٹینروں پر خطاب ہو رہے تھے۔ جشن کا سماں تھا آتش جوان تھا لیکن خان صاحب نے ممکنہ وزارت عظمیٰ کی خوشی میں لگے ہاتھوں سوچا کہ خاتون اول کا انتخاب بھی کر ہی لیا جائے اور اسی خاتون اول کے انتخاب نے ان کی شہرت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا۔ شریف حکومت نے آہستہ آہستہ عمران خان کو ایسے دیوار کے ساتھ لگایا کہ خان صاحب تو چند ماہ تک بنی گالہ میں مقید ہو کر رہ گئے۔

اب آف شور کمپنیوں کا طوفان اٹھا تو خان صاحب کو تو اس حقیقت سے لازما آشنا ہونا چاہیے تھا کہ وہ بھی ایک آف شور کمپنی کے مالک ہیں جو 2015ء تک سلطنت برطانیہ کا ٹیکس چوری کرنے کے لیے قائم رکھی گئی تھی۔ سب شور مچاتے مگر عمران خان کو خاموش رہنا چاہیے تھا اس طرح ان کی حکومتی حلقوں میں قدر بھی ہوتی اور انہیں مستقبل میں مزید کوئی موقع مل جاتا اور وہ کہہ سکتے کہ دیکھیں میں آف شور کے معاملہ میں نہیں بولا۔ مگر خان صاحب تو ایسے کفن پھاڑ کر بنی گالا سے نکلے کہ شریف حکومت کو دفنا کر ہی دم لیں گے اور پھر ان کی اپنی آف شور کمپنی کا سراغ لگ گیا۔ وائے قسمت۔ ۔ ۔ جب عدلیہ بحالی کے لیے لانگ مارچ ہو رہا تھا تو نواز شریف نے انہیں چکر دیا اور اب خورشید شاہ ان سے ہاتھ کر گئے۔ تب وہ بھاگم بھاگ راوالپنڈی پہنچے۔ ان کا خیال تھا کی نوازشریف کو گرفتار کر لیا جائے گا اور وہ راوالپنڈی پہنچنے والے لانگ مارچ کی قیادت کریں گے مگر افسوس ان غنچوں پہ جو بن کھلے مرجھا گئے۔ معلوم ہوا کہ لانگ مارچ گوجرانوالہ سے آگے ہی نہیں بڑھا اور میلہ لوٹنے کے لیے بیتاب عمران خان خود لُٹ گئے۔ اب بھی نہ جانے کتنی بار مشق کی تھی قومی اسمبلی میں خطاب کرنے کی مگر خورشید شاہ نے موقع ہی نہ دیا۔ عمران خان تو ششدر تھے ،وہ تو شاہ محمود قریشی نے ٹہوکا دیا کہ خان صاحب اٹھیں بائیکاٹ کرنا ہے ،بروقت نہ نکلے تو پارلیمنٹ کے باہر بھی تقریر کا موقع نہیں ملے گا۔

اب چاہے خان صاحب 7 کی بجائے 700 سوال پوچھیں مگر آف شور کے غبارے سے ان کی سیاسی ناتجربہ کاری نے ایک بار پھر ہوا نکال دی ہے۔ جو فضا آف شور اور کرپشن کے خلاف قائم ہوئی تھی ’’نیازی سروسز لمیٹڈ‘‘ نے اس کو مکدر کر دیا ہے۔ فضا دھندلی ہو چکی ہے۔ مگر ایک بات واضح ہے کہ جتنے مرضی بائیکاٹ ہو جائیں، جتنے مرضی سوال ہو جائیں جمہوریت کا کِلا ایک بار پھر مضبوطی سے ٹُھک چکا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).