بوڑھا باپ، چھوٹا بچہ، گدھے کی سواری اور تحریک انصاف


پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان صاحب ابھی حکومت سازی کی جوڑ توڑ کی تیاریوں میں لگے ہی ہیں کہ ابھی سے میڈیا نے ڈھول تاشے بجانا شرو ع کر دیے ہیں۔ خیبر پختونخوا حکومت کے وزیر اعلیٰ کے لیے نامزد محمود خان کے نام پر بھی خان صاحب کے فیصلے پر درجنوں کے حساب سے تجزیے اور تبصرے کیے جا چکے ہیں۔ کسی کو محمود خان کی نامزدگی میں مراد سعید کی فتح نظر آ رہی ہے تو کوئی پرویز خٹک کی آخری وصیت کی بات کر رہا ہے کہ اگر میں وزیر اعلیٰ نہیں تو پھر عاطف خان بھی نہیں۔

کسی نے تو اندر ہی کی خبر نکال لی کہ اس سب کے پیچھے جہانگیر ترین کا ہاتھ ہے وہ خیبر پختونخوا کے کمزور وزیر اعلیٰ کو بلیو ٹوتھ کی مدد سے کنٹرول کرے گا اس لیے محمود خان صاحب کا انتخاب کیا گیا ہے۔ اس صورتحال کو دیکھ کر لگ رہا ہے کہ بیچارے محمود خان کے بھی بس تھوڑے ہی دن ہیں۔

پاکستان تحریک انصاف میں میڈیا اور تجزیہ نگاروں نے اتنے سازشی نظریے اور دھڑے بنا دیے ہیں کہ لگتا ہے کہ یہ سارے ایک دوسرے کے خلاف ہیں۔ پاکستان تحریک انصاف نے ماضی اور حال قریب میں تقریباً ہر سیاسی شخصیت کو کرپشن کے القابات سے نوازا ہے اور ایک ایسے نئے پاکستان کی بنیاد رکھنے کی بات کی ہے جہاں پر صرف اور صرف شفافیت اور قابلیت پر ہی کام ہوگا۔ پاکستان تحریک انصاف اپنے فیصلوں پر یو ٹرن لینے کی عادی ہے اور خاص طور پر میڈیا کی تنقید پر تو فیصلے برقی رفتار سے تبدیل کیے جاتے رہے ہیں۔ پاکستان تحریک انصاف کے پاس زیادہ تر پاکستان کے وہ سیاسی کھلاڑی ہیں جو ماضی اور حال قریب میں مختلف سیاسی حکومتوں اور سیاسی جماعتوں کا حصہ رہے ہیں جو نئے پاکستان بنانے کے لیے کپتان کے ساتھ تو ہیں مگر وہ پیار پرانے پاکستان سے ہی کرتے ہیں۔

اس پس منظر اور پیش منظر کو دیکھ کر یہ تجزیہ کیا جا سکتا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کی وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو میڈیا سمیت سیاسی جماعتوں کی شدید تنقید کا سامنا ہوگا اور ایسا نہ ہو کہ خان صاحب فرشتے ڈھونڈتے ڈھونڈتے آسیب سے نہ ٹکرا جائیں۔ خان صاحب کی موجودہ صورتحال کو دیکھ کر بچپن میں سنی ایک کہانی یاد آتی ہے کہ جس میں ایک بوڑھا باپ اور اس کا بچہ گدھا خرید کر اپنے گھر جا رہے تھے تو راہ چلتے کچھ لوگوں نے انہیں دیکھ کر کہا یہ دونوں کتنے کم عقل ہیں کہ گدھے پر سواری کیے بغیر پیدل جا رہے ہیں یہ سن کر وہ دونوں باپ بیٹا گدھے پر سوار ہو گئے پھر کچھ اور لوگ ملے جو دیکھ کر کہنے لگے یہ لوگ کتنے ظالم ہیں بیچارے گدھے پر دونوں سوار ہیں یہ سن کر باپ گدھے سے اتر گیا۔ پھر کسی نے راستے میں آواز لگائی دیکھو کیا زمانہ آ گیا ہے بوڑھا باپ پیدل اور بچہ گدھے پر سوار ہے۔ پھر بچے نے بوڑھے باپ کو بیٹھا دیا تو لوگوں نے کہا باپ گدھے پر سوار ہے اور معصوم بچہ پیدل چل رہا ہے آخرکار لوگوں کی باتوں سے تنگ آکر باپ بیٹا گدھے کو باندھ کر اپنے کندھوں پر بیٹھا کر گھر تک لے گئے۔

اب یہی حال خان صاحب فیصلوں کے ساتھ نظر آ رہی ہے۔ میڈیا پر خان صاحب کے ماضی کے اعلانات اور بیانات بار بار سنوائے جا رہے ہیں اور موازنہ کیا جا رہا ہے کہ خان صاحب نے کل کیا کہا تھا اور آج کیا کر رہے ہیں۔ عمران خان تبدیلی لانے لے لیے کوئی منفرد قدم اٹھاتے ہیں تب بھی انہیں تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے اگر وہ پرانے نظریات کے ساتھ چلتے ہیں تب بھی انگلی ان پر اٹھتی دکھائی دیتی ہے جو یقیناً ان کے لیے ایک نازک صورتحال ہے مگر ابھی تو پارٹی شروع ہوئی ہے۔ پنجاب کے ممکنہ نوجوان وزیر اعلیٰ کے کچھ ناموں کو بھی میڈیا نے اشتہاری قرار دے دیا ہے ابھی بھی میڈیا پر چہ مگوئیاں جاری ہیں کہ پنجاب کا ممکنہ نوجوان وزیر اعلیٰ 30 سال کا ہوگا یا 60 کا۔ ایسا نہ ہو کہ ڈرامہ سیریل اندھیرا اجالا کے کردار کرم داد کی طرح دس جماعت پاس ہو اور ڈائریکٹ حوالدار ہو۔

پاکستان تحریک انصاف کو ایک طرف حکومت سازی اور وزیر اعظم کی حلف برداری کے حوالے بہت سی دشواریوں کا سامنا ہے تو دوسری طرف لوگ مستقبل کے وزیر اعظم کی رہائش گاہ کے لیے پریشان نظر آتے ہیں کہ جو بھی اس پرانے وزیر اعظم ہاؤس میں رہائش پزیر ہوا وہ اپنی مدت پوری نہیں کر پایا کیونکہ وہاں آسیب کا سایہ ہے اور اس لیے خان صاحب پنجاب ہاؤس میں چوہدری نثار علی خان کے خواب گاہ میں رہائش اختیار کریں گے تاکہ آسیب کے سائے سے بچ سکیں مگر کہنے والے تو کہتے ہیں کہ کچھ بھی کر لو آسیب کا سایہ تو وزیر اعظم کے ساتھ ہوتا ہی ہے چاہے آپ بنی گالا میں رہو، پنجاب ہاؤس یا کہیں اور۔ حکومت سنبھالنے سے سے پہلے ہی پاکستان تحریک انصاف بہت سے دھڑوں اور سازشوں کی نذر ہو چکی ہیں حلف برداری سے لے کر حکومت چلانے تک پاکستان تحریک انصاف کا حال بھی کہیں گدھے والی کہانی کے بوڑھے باپ اور بچے جیسے نا ہوجائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).