ڈاکٹر روتھ فاؤ۔۔۔ جسے نہ جزا کی پرواہ ، نہ جنت کا لالچ


ڈاکٹر مطاہر ضیاء نے تیس برس قبل روتھ کے سفر میں خود کو شریک کیا اور آج تک یہی ہیں عاجزی و انکساری ان کی شخصیت کا خاصہ ہے۔ شاید یہ انھوں نے روتھ سے سیکھا ہو کیونکہ ان کا تو یہی ماننا ہے کہ روتھ اس ادارے کی جو ان کے گھ ر جیسا ہے ایک ماں اور سربراہ کی طرح تھیں وہ جسمانی طور پر تو اب موجود نہیں لیکن روحانی طور پر آج بھی ہم سب کے ساتھ ہیں اور اس سربراہ کی برکتیں ہی ہیں جو بات اب تک بنی ہوئی ہے۔

ڈاکٹر روتھ نے اپنا وطن چھوڑا۔ اپنا خاندان دوست احباب چھوڑ کر وہ ایک ایسے ملک آبسیں جہاں تقسیم کے بعد سے غربت، افلاس اور بیماری اپنے قدم جمائے ہوئے تھی۔ لیکن ان کا عزم اور حوصلہ شاید ان پہاڑوں کی طرح مضبوط اور ناقابل شکست تھا جہاں پہنچنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں شاید تب ہی وہ شمال میں کھڑے ا ونچے اونچے پہاڑوں کے قریب تو ان کے دامن میں بسنے والوں کے پاس دعا میں مانگنے والی غیبی مدد اور رحمت کی صورت پہنچ جاتی تھیں۔ لوگ ا س بحث میں لگے رہے کہ جنت کا حقدار کون ہے؟ تو کوئی منبر پر بتاتا رہا کہ بہشت میں جانے کے لئے ایمان کے کس درجے پر جانے کی ضرورت ہے تو دوسری جانب ایک عورت ان لوگوں میں جنھیں موذی مرض کی بناءپر اپنے بھی چھوڑ جاتے تھے، جن کی زندگی جیتے جی جہنم بن چکی تھیں ان کی زندگی میں شفاء بھرتی، چہرے پر مسکان لاتی، جینے کا حوصلہ دیتی اور ان کی زندگی جنت بناکر آگے بڑھ جاتی۔ اسے جزا کا لالچ نہ تھا وہ سب سے زیادہ امیر ہوتے ہوئے بھی غریب پرور درویش صفت عورت رہی۔

اس کے نام پر جہاں کئی دل موم پڑتے احترام میں سر جھکتے اس کے جانے کے بعد بھی یہ سلسلہ رکا نہیں۔ 10 اگست 2017 کے روز لوگوں پر آشکار ہوا کہ اس زمین پر کوئی گمنام سپاہی تھا ایسا مسیحا تھا جس نے اپنی زندگی کی پانچ دہائیاں لوگوں کی زندگیاں جنت بنانے میں گزار دیں تو اس روز ہی بہت سے دلوں نے فیصلہ کیا کہ جنت کمانے کا تو بعد میں سوچیں گے پہلے کسی کی جہنم نما زیست کو تو آسان کریں۔ فنڈز پہلے سے بھی زیادہ بڑھنے لگے۔

اسپتال کے احاطے میں لگی بڑی سی تصویر میں مسکراتی روتھ آج بھی آنے والے مریضوں کا استقبال کرتی ہے اور ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے کہتی ہو کہ فکر نہ کرنا تم ٹھیک ہوجاؤ گے بس مایوس نہ ہونا حوصلہ نہ ہارنا۔ بس فرق صرف اتنا آیا ہے کہ اب اسپتال آنے والوں کو روتھ تو ہر جگہ دکھائی دیتی ہے لیکن وہ لمس اور جادو کی جپھی نہیں مل پاتی جس سے ان کی آدھی بیماری اسی وقت ختم ہوجاتی تھی۔

سدرہ ڈار

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

سدرہ ڈار

سدرہ ڈارنجی نیوز چینل میں بطور رپورٹر کام کر رہی ہیں، بلاگر اور کالم نگار ہیں ۔ ماحولیات، سماجی اور خواتین کے مسائل انکی رپورٹنگ کے اہم موضوعات ہیں۔ سیاسیات کی طالبہ ہیں جبکہ صحافت کے شعبے سے 2010 سے وابستہ ہیں۔ انھیں ٹوئیٹڑ پر فولو کریں @SidrahDar

sidra-dar has 82 posts and counting.See all posts by sidra-dar