Bullying – ایک معاشرتی جرم


\"intesabکالی، کالی، کالی بچے اس کے پیچھے آوازیں کستے ہوئے بھاگ رہے تھے اور وہ دوڑ کر کمرے میں گھس گئی۔ یہ روز کا معمول تھا، وہ جب بھی اسکول سے گھر آتی اسے ایسی ہی آوازیں سننے کو ملتیں۔ اب تو وہ اپنا اصلی نام بھی بھول چکی تھی۔ کیونکہ گھر میں سب اسے اسی نام سے بلاتے تھے۔ اس کا گہرا سانولا رنگ اس کی زندگی کا سب سے بڑا روگ بن چکا تھا۔ اس کے ابو اپنے دو بھائیوں کی فیملیز کے ساتھ دادا کے مکان میں رہائش پذیر تھے۔ ان کی آمدنی علیحدہ گھر کی اجازت نہ دیتی تھی۔ اس کی ماں اور بہن بھائی تو اسے بارہا یقین دلاتے کہ وہ بھی دوسرے بچوں کی طرح ہے لیکن اس کے چچا زاد اور تایا زاد اس کے اس یقین کو خاک میں ملا دیتے تھے۔ رفتہ رفتہ وہ اپنا زیادہ تر وقت کمرے میں بند رہ کر گزارنے لگی۔ اسے اسکول جانے میں بھی کوئی دلچسپی نہیں رہی تھی۔ اب پڑھائی میں بھی اس کا دل نہ لگتا تھا اس ساری صورتحال نے اس میں خود اعتمادی کو بالکل ختم کر دیا اور اس کے ذہن میں منفی خیالات نے ڈیرا ڈال لیا۔ رنگ تو اس کا جیسا بھی تھا لیکن اب خود اعتمادی کی کمی کی وجہ سے ہکلانے بھی لگی تھی۔ تعلیم سے عدم دلچسپی کی وجہ سے ایک ہی جماعت میں تین بار فیل ہوجانے کے بعد باپ نے بھی اس کی تعلیم کو بس یہیں تک رکھنے کا حکم صادر کر دیا۔

تیرہ، چودہ برس کی عمر بھی بچوں میں ایسی ہوتی ہے جب انہیں کئی طرح کی ذہنی اور جسمانی پیچیدگیوں کا سامنا ہوتا ہے۔ ایسے میں ضرورت ہوتی ہے انہیں سمجھنے کی۔ عام طور پر سمجھدار مائیں اس عمر میں بچوں کے اور بھی قریب ہوجاتی ہیں انہیں زمانے کی اونچ نیچ اور تمام ضروری باتوں سے آگاہ کرتی ہیں۔ لیکن بعض اوقات، معاملات ماؤں کے بس کی بات نہیں ہوتے ایسے میں کسی معالج یا کاؤنسلر سے رجوع کیا جانا چاہئے۔

یہ کوئی واحد واقعہ نہیں ہے جس میں کسی ایک کے ساتھ ایسا ہوا ہو۔ ہمارے معاشرے میں کئی ایسے لوگ ہیں جواپنی زندگی میں کبھی نہ کبھی ایسے حالات کا سامنا کرتے ہیں جب انہیں کچھ لوگوں کی جانب سے مسلسل طنز اور طعنوں کو برداشت کرنا پڑتا ہے۔ کسی جسمانی کمی یا معذوری کی وجہ سے مذاق کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ کئی کیسوں میں تو نوبت خودکشی تک پہنچ جاتی ہے۔ کئی دفعہ بچوں کو اسکولوں میں ساتھی طالبات کی طرف سے  bullyingیعنی طنز اور طعنوں کی تکرار کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یہاں اہم بات یہ ہے کہ اس کا نشانہ عموماً وہ لوگ بنتے ہیں جو کسی معذوری یا کمی کا شکار ہوں یا جو کسی وجہ سے ممتاز ہوں۔ جن میں انفرادیت ہو۔ جو تخلیقی صلاحیتوں کے مالک ہوں یا وہ طالب علم جن سے ان کے اساتذہ اور والدین دونوں ہی خوش ہوں۔ جن کا رویہ دوسروں کے ساتھ اچھا ہو یا پھرجو کسی لحاظ سے کمزور ہوں۔ بس یہی لوگ کچھ ایسے حاسدوں کا نشانہ بن جاتے ہیں جو آتے جاتے اپنے الفاظ سے انہیں زدوکوب کرتے ہیں۔

اس طرح کے واقعات تیرہ سال سے اکیس سال تک کے نوجوانوں میں زیادہ دیکھنے میں آتے ہیں جو مڈل اسکول سے نکل کر ہائی اسکول یا کالجوں کا رخ کرنے کی تیاری کر رہے ہوتے ہیں۔ اس عمر میں بچے خود کو نسبتاً بڑا اور آزاد محسوس کرتے ہیں۔ اور ساتھ ہی ساتھ جسمانی تبدیلیوں کے علاوہ ذہنی تبدیلیوں کے مراحل سے بھی گزر رہے ہوتے ہیں۔ ایسے میں اگر انہیں تعلیمی اداروں میں یا گھریلو ماحول میں  bullyingکا سامنا ہو تو وہ ذہنی دباؤ کا شکار ہو کر پہلے تنہائی اور حتیٰ کے اپنی زندگی کو ختم کرنے کے حتمی فیصلے تک بھی پہنچ جاتے ہیں۔

Bullying کی اصطلاح شاید کچھ لوگوں کے لئے نئی ہو۔ لیکن جن لوگوں کو اس کا سامنا کرنا پڑتا ہے وہ اس کرب اور تکلیف سے گزرتے گزرتے زندگی ہار بیٹھتے ہیں۔ Bullying کا مفہوم ہے کسی شخص کے پیچھے پڑ جانا۔ طنز اور طعنوں سے اس کا جینا دشوار کر دینا اور اس وقت تک جب تک وہ انتہائی اقدام تک نہ پہنچ جائے اس کا پیچھا نہ چھوڑنا۔ اس کے نتائج عموماً خود کشی کی صورت میں سامنے آتے ہیں۔ اس میں حملہ کرنے والا کوئی ایک شخص بھی ہو سکتا ہے اور کچھ لوگوں پر مشتمل گروہ بھی جو کسی فردکی کسی بھی بات کو نشانہ بنا سکتا ہے۔ جیسے منصب، صنف، رنگ، نسل، زبان، عقیدے، یا لباس اور ظاہری وضع قطع وغیرہ۔ اس کا نشانہ زیادہ تر اسکولوں میں طالبِ علم بنتے ہیں یا بسا اوقات دفاتر میں بھی کچھ لوگوں کو اس کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ جبکہ ہمارے معاشرے میں گھروں اور خاندانوں میں بھی لوگ اس سے محفوظ نہیں۔

ایسے لوگ جو کسی کو اس کی کمزوری یا کسی خصوصیت کی وجہ سے مذاق کا نشانہ بناتے ہیں دراصل خود ذہنی امراض کا شکار ہوتے ہیں جنہیں کسی معالج سے علاج کی ضرورت ہوتی ہے۔ لیکن ہمارے معاشرے میں ایسے لوگ کھلے عام دندناتے اور دوسروں کے خواب اپنے پیروں تلے روندتے نظر آتے ہیں۔ جنہیں اس بات کی پرواہ نہیں ہوتی کہ وہ کسی کے دل کو ٹھیس پہنچا کر اس کی شخصیت ہی خراب کرنے پر تل گئے ہیں۔ بہت سے خاندانوں میں بچوں کو چھوٹے قد، گہری رنگت، موٹاپے یا دبلے پن کو بار بار نشانہ بنا کر ان کی خود اعتمادی کو سرے سے ختم ہی کر دیا جاتا ہے۔ ہمارے معاشرے میں خوبصورتی کا ایک پیمانہ مقرر ہے جس پر پورا نہ اترنا بھی ایک جرم سمجھا جاتا ہے۔

ترقی یافتہ ممالک میں  bullyingسے نمٹنے کے لئے باقاعدہ قانون موجود ہے۔ اس قانون میں واضح ہے کہ کسی بھی اسکول میں کسی طالب علم کے ساتھ امتیازی سلوک روا نہ رکھا جائے۔ اگر کوئی طالبِ علم، والدین یا اساتذہ کسی کو اس قسم کی کارروائی میں ملوث دیکھیں تو فوراً بورڈ کو مطلع کریں۔ نشانہ بننے والے اور ملوث ہونے والے طالبِ علم کا نام صیغہ راز میں رکھا جاتا ہے۔ حملہ آور اور شکار ہونے والے دونوں افراد کے لئے نفسیاتی ماہر کی خدمات بھی فراہم کی جاتی ہیں جبکہ ملوث ہونے والے طالبِ علم کے خلاف تفتیشی کارروائی کی جاتی ہے اور اس کے خلاف ثبوت حاصل ہونے پر اسے اسکول سے معطل کرنے کے علاوہ مستقل برخاست بھی کیا جاسکتا ہے۔

ساتھ ہی اس بارے میں بھی کام ہو رہا ہے کہ والدین اور طالب علموں خاص کر ٹین ایجرز کو اس بارے میں تعلیم دی جائے کہ کسی کو لفظوں کے نشتر سے نقصان پہنچانے سے گریز کیا جائے۔ سب کا احترام کیا جائے اور اسکولوں کالجوں کا ماحول بہتر بنایا جائے۔ والدین اپنے بچوں سے تمام معاملات پر بات چیت کریں تاکہ اس قسم کی صورتحال پرنوجوان اپنے والدین کو آگاہ کر سکیں نہ کہ وہ تنہائی کا شکار ہو جائیں۔ تاہم پاکستان میں ابھی تک اس مسئلے کو سمجھا ہی نہیں گیا اس لئے قانون تو دور کی بات اس مسئلے سے متعلق شعور بیدار کرنے کے لئے بھی کوئی کوشش نہیں کی جاتی پھر چاہے کتنے ہی بچوں کا اعتماد اور مستقبل داؤ پر لگا ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).