میاں صاحب کے سیانے مشیر اور مٹکے میں پھنسی حکومتی گردن


       \"Kashifصدر پاکستان جناب ممنون حسین فرماتے ہیں کہ \”پانامہ پیپرز قدرت کی طرف سے آیا ہے اور کرپٹ لوگوں کے چہرے منحوس ہو جاتے ہیں\” دوسرے الفاظ میں جناب صدر صاحب نے پانامہ پیپرز کو قدرتی آفت قرار دے کر شائد اس کی اہمیت اجاگر کرنے کی کوشش فرمائی ہے۔ کرپٹ لوگوں کے چہرے منحوس کس طرح ہو جاتے ہیں یا کچھ مخصوص چہروں کی جانب ان کا اشارہ ہے اس کا اندازہ لگانا اس لیے اور بھی دشوار ہو جاتا ہے کہ وہ سال بہ سال یوم پاکستان، جشن آزادی وغیرہ کی تقریبات میں بس رسمی سی لب کشائی کرتے ہیں جس کی بنیاد پر ان کی \”گہری\” باتوں کی تفہیم ممکن نہیں۔

پانامہ پیپرز میں پاکستان کے سینکڑوں سیاستدانوں اور سرمایہ داروں کے نام ہیں۔ مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد کی ایک طویل فہرست ہے جو ابھی مکمل نہیں مگر روز اول سے ان پیپرز کی بنیاد پر صرف وزیر اعظم پاکستان سے استعفی کا مطالبہ، جس کی بنیاد ان کے خاندان کے چند افراد کی آف شور کمپنیاں ہیں، کسی اصولی موقف یا جمہوری و سیاسی عمل کا حصہ نہیں بلکہ ان کوششوں کا تسلسل دکھائی دے رہا ہے جو عمران خان صاحب اور طاہرالقادری کے اسلام آباد دھرنے کی شکل میں پہلے بھی کی جا چکی ہیں۔

ان پیپرز کے منظر پر آتے ہی جو رویہ براہ راست پی ٹی آئی اور جماعت اسلامی نے نواز حکومت کے خلاف اختیار کیا اور اپنے احتجاج کے طویل المدتی پروگرام کے شیڈول کا اعلان کیا اس سے زیادہ فکر مندی کے لئے میاں صاحب کے پاس چیف آف آرمی اسٹاف کا یہ مبہم سا پیغام تھا کہ مسائل کو تصادم کی طرف لے جانے کے بجائے ان کا فوری حل تلاش کیا جائے۔ ایسے میں میاں صاحب کے پاس سفر لندن کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا کہ وہاں چارہ گر بھی تھا اور درد آشنا بھی۔

میاں صاحب سفر لندن کے بعد وطن تشریف لائے تو پہلے سے زیادہ با اعتماد تھے گو کہ ان کی پریشانیوں میں مزید اضافہ پیپلز پارٹی کی صورت میں ان کا منتظر تھا اور اصل حزب اختلاف کے فعال ہوتے ہی پی ٹی آئی اور جماعت اسلامی کا احتجاج سمٹ گیا اور ایک متحدہ اپوزیشن کی شکل میں بھی نمایاں آواز پی پی پی کی آواز بن گئی جو میاں صاحب کے لئے بھی ان معنوں میں خوش آئند تھی کے نظام کی بقا اور تسلسل کے لئے دونوں جماعتوں میں ایک طویل عرصے سے ذہنی ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔

وزیر اعظم صاحب کے چیف جسٹس سپریم کورٹ کو لکھے گئے خط کے جواب میں جس میں انہیں کہا گیا تھا کہ وہ ایک عدالتی کمیشن تشکیل دیں جو پانامہ پیپرز کے حوالے سے ممکنہ اور مبینہ کرپشن کی تحقیقات کرائے، جناب جسٹس انور ظہیر جمالی نے یہ کہہ کر معذرت کرلی کے تحقیقاتی کمیشن 1956 ایکٹ کے تحت بننے والا عدالتی کمیشن اتنا با اختیار نہیں ہوگا کہ اس ہائی پروفائل کیس کی تحقیق کر سکے لہٰذا رسوائی ایسے کمیشن کے حصے میں آئے گی اس لیے مناسب ہوگا کہ پہلے موثر قانون سازی کر لی جائے، ایک قانون بنا لیا جائے جو پر قسم کی کرپشن کا موثر طور پر احاطہ کر سکے۔ دوسری طرف اپوزیشن نے سات سوال تیار کیے اور وزیر اعظم سے مطالبہ کیا کے وہ پارلیمنٹ میں آ کر ان سوالات کے جواب دیں۔ وزیر اعظم اسمبلی میں تو آگئے مگر انھوں نے ایک تقریر کے ذریعے یہ واضع پیغام دے دیا کہ لفظ احتساب کو صرف ان کی ذات تک محدود کرنا بددیانتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے اپنے خاندان کی دولت کی تاریخ دہرائی اور ٹیکس ریٹرن وغیرہ کی دستاویزات اسپیکر کے حوالے کر دیں۔ اپوزیشن کی جانب سے پہلے خورشید شاہ کو بولنے کا موقع دیا گیا جنہوں نے میاں صاحب کے خطاب کو آڑے ہاتھوں لیا اور کہا کہ ہم نے سات سوالوں کے جواب مانگے تھے وزیر اعظم صاحب نے 70 مزید سوال کھڑے کر دئے ہیں۔ ہم اجلاس کا بائیکاٹ کرتے ہیں۔ اسپیکر عمران خان کا نام پکارتے رہ گئے مگر باوجود حیرانی اور پریشانی کے خان صاحب کو خورشید شاہ کی پیروی میں اجلاس کا بائیکاٹ کرنا پڑا۔

نتائج نکالنے والے بہت پہلے سے یہ نتیجہ نکال چکے ہیں کہ پیپلز پارٹی کی جانب سے حکومت کی مخالفت اور احجاج کا واحد مقصد نواز حکومت کو دیگر حقیقی احتجاجوں سے کسی حد تک تحفظ فراہم کرنا ہے مگر اس کے لئے خود میاں صاحب کو بھی نہایت سنجیدگی کے ساتھ کچھ بنیادی اقدامات ہنگامی طور پر اٹھانا ہوں گے۔ محض دوستوں کی \” معاونت \” انھیں زیادہ دیر چائے کی پیالی میں اٹھنے والے اس سونامی کی تباہ کاریوں سے نہیں بچا سکے گی جبکہ ان کی اپنی صفوں میں بھی ابتری کی سی کیفیت کسی سے پوشیدہ نہیں۔

اب ذرا ایک لطیفہ بھی ملاحظہ فرمائیں:

گاوں دیہاتوں میں آج بھی اگر کسی کو کوئی مسلہ در پیش ہو تو گاوں کے کسی بڑے بوڑھے کو بلوایا جاتا ہے جو دیسی زبان میں \”سیانا \” کہلاتا ہے۔ ایسے ہی ایک گاوں میں ایک صاحب ایک مسئلے میں پھنس گئے ۔ہوا کچھ یوں کہ ان کے بکرے نے مٹکے میں پانی پینے کے لئے سر ڈالا اور سینگ پھنسا بیٹھا۔ بڑی کوشش کے بعد بھی جب بکرے کو اس قید سے آزادی نہیں دلوائی جا سکی تو کسی نے مشورہ دیا کے سیانے کو بلا لاؤ۔ لہٰذا سیانے کو بلایا گیا۔ اس نے کہا یہ بھی کوئی مسئلہ ہے، چھری منگواؤ اور اس بکرے کو ذبح کرو۔ مشورہ کیونکہ سیانے کا تھا لہذا فوری طور پر عمل کیا گیا مگر بکرے کا سر پھر بھی مٹکے سے نہیں نکل سکا بکرے کے مالک نے بیچارگی سے سیانے کی جانب دیکھا تو سیانے نے ایک قہقہہ لگایا اور بولا یہ بھی کوئی مسئلہ ہے اب مٹکا توڑ دو۔

ہمارے ارباب اختیار جب تک اس قسم کے \”سیانوں\” سے مشاورت کرتے رہیں گے ہماری قومی سیاست اور عوام کے روز و شب میں کوئی خاطر خواہ تبدیلی متوقع نہیں بالخصوص میاں صاحب کو تو چاروں جانب سے ایسے ہی سیانوں نے گھیر رکھا ہے جو پہلے ذبح کرواتے ہیں پھر مٹکا تڑواتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).