عمران خان اور قائد اعظم کی11اگست کی تقریر


ایسی کونسی قیامت آجاتی، اگر عمران خان 11اگست کو بھی ایک تقریر کرلیتے۔ یہ وہ تاریخ ہے جب قائد اعظم نے کہا تھا کہ ’’پاکستان میں نہ کوئی مسلم ہے، نہ ہندو نہ سکھ نہ پارسی یا عیسائی،مذہبی حوالے سے نہیں بلکہ سیاسی حوالے سے، سب پاکستانی ہیں‘‘ ۔

یہی نقطہ نظر سامنے رکھ کر عمران کو تقریر اس لئے کرنی چاہئے کہ اول تو ان کے بارے میں ، ابھی بھی کچھ لوگوں میں بعض شکوک و شبہات ہیں۔ انہوں نے ابھی تک طالبان کے خلاف کوئی بات نہیں کی ہے۔ افغان صدر کا مبارکباد کا فون بھی آچکا ہے اور عمران خان کہہ بھی چکے ہیں کہ بطور وزیر اعظم، پہلا دورہ ، افغانستان کا کرینگے۔

وہ بھی اور پاکستان کے تمام لوگ جانتے ہیںکہ فی الوقت آدھے سے زیادہ افغانستان پر طالبان اور داعش کا قبضہ ہے۔اب جبکہ امریکہ بھی طالبان سے مذاکرات کرنے پر آمادہ ہے تو اسکا اور کشمیر کا حل، مذاکرات کے ذریعے ہی ممکن ہوگا ۔ اگر ویت نام سے باہر نکلنے پر امریکہ مجبور ہوگیا تھا۔

دانشمندی کا تقاضا ہے کہ افغانیوں کو اپنے مسائل سے خودنمٹنے دے اور امریکہ اپنے مسائل کی جانب توجہ دے جو کہ کوئی کم نہیں ہیں۔11اگست کی تقریر میں قائد اعظم نے یہ بھی کہا تھا کہ پاکستان میں رشوت اور بدعنوانی جیسی حرکتیں برداشت نہیں ہوں گی۔

پاکستان بنتے ہی مقامی اور پہلے پہنچنے والے مہاجرین نے جیسے بندر بانٹ کرکے، مغربی پاکستان میں ہر اعلیٰ بزنس اور کوٹھی پر قبضے کیے تھے۔ گھروں کے تالے توڑ کر مورتیوں میں رکھے ہیرے جواہرات چرائے تھے۔ اس پر طرہ یہ کہ برف کے کارخانوں سے لےکر باقی سارے بزنس پر بھی لوگ مالِ غنیمت سمجھ کر قابض ہوئے تھے۔ اصل میں یہ محکمہ آباد کاری، جوستر برس کے بعد ابھی تک موجود ہے اور اسکے پی پی پی اور ن لیگ کے سربراہان مقدمات کا سامنا کررہے ہیں۔

دراصل پاکستان میں رشوت اور بدعنوانی کی جڑ وہاں سے شروع ہوئی۔ اندرون ِ مغربی پاکستان زمینوں پر قبضے، سینما ہائوسز اور فلم ا سٹوڈیوز کی الاٹمنٹ میں بھی تیرا میرا کا چکر چلتا رہا۔

ہرچند لیاقت علی خان جب قتل ہوئے تو انکی جیب میں چند روپے تھے مگر انکے امریکہ کے دورے پر جانے سے قبل جس طرح بیگم دولتانہ کی نگرانی میں بیگم لیاقت علی خان کے غرارے تیار کیے گئے، جبکہ حکومتِ پاکستان کے پاس سرکاری ملازمین کو تنخواہیں دینے کیلئے بھی پیسے نہیں تھے مگر ایسا تو ہر حکومت چاہے مارشل لا کی ہو کہ جمہوریت کے نام پر، سوائے بھٹو صاحب کے جنہوں نے پاکستان کے لوگوں کو ایک لباس دیا۔

کرتہ شلوار جو آج مزدور سے لیکر وزیر اعظم تک شان کے ساتھ پہنتے ہیں۔ مجھے تو خیر اس نوابی شیروانی پہ بھی اعتراض ہے جو ہمارے صدر اور وزیر اعظم پہنتے ہیں۔ میں سری لنکا میں تھی، ان کے صدر نے ہمیں کھانے کی دعوت دی۔ سب لوگ کیلے کے پتوں پر کھانا رکھے ہاتھ سے کھارہے تھے۔اب ہر چند ہاتھ سے کھانے کے موضوع کو سائنسدانوں نے بھی اہمیت دی ہے کہ ہاتھ دھوکر جب آپ ہاتھ سے کھانا کھاتے ہیں تو آپ کے ہاتھوں کے انزائم خوراک کو ہضم کرنے میں مدد کرتے ہیں۔

کرپشن ختم کرنے کی ہر سیاست دان، ہر مولوی اور ہر بزنس مین بات کرتا ہے۔ مجھے بتائیں آخر چھ سال کی بچی کا نکاح 60سال کے بوڑھے سے پڑھانے والا کیا کرپشن نہیں کررہا۔ کیا چاولوں میں ٹوٹا ملاکر ایکسپورٹ کرنے والے کو اپنی بے ایمانی کا علم نہیں، کیا مرچوں میں برادہ اور چائے کی پتی میں کالے چنے کے چھلکے ملانے والوں کو فیکٹری پر ماشاء اللہ لکھ دینے سے سارے گناہوں سے معافی مل جاتی ہے اور تو اورحکومت بنانے اور توڑنے میںیہ جو اسمگلر اور بے شمار نام کے پولیس اورسیکورٹی ادارے خود ہی یہ کام نہیں کرتے۔

حکومت میں آنے کے بعد نواز شریف کے تقریر نویس مشیر جیسے لچھے دار فقرے لکھ کر سربراہوں کو پڑھنے کو دیدیتے ہیں، ان کی ریہرسل بھی کرواتے ہیں۔ اخبار والے اپنے اثر و رسوخ اور مراسم کے مطابق ایک طرف فائدہ اٹھاتے ہیں اور دوسرے اُسی قیمت کی سرخی، اخبار میں لگاتے ہیں۔

کرپشن کا دائرہ اتنا وسیع ہے کہ ممبر پارلیمنٹ فون کرکے حاضری لگانے کی سفارش کرتے ہیں کہ انکا روز ملنے والا مشاہرہ سلامت رہے۔ حج پہ لیجانے والے ایک کمرے میں دس دس بندے بھیڑوں کی طرح رکھ دیتے ہیں اور تو اور حج پر پہنچنے اور واپسی پر جو مقامی اپنی جیب گرم کرتے ہیں۔ یہ تو وہ سب باتیں جن سے آپ واقف ہیں۔ لاکھوں روپے دیکر باہر جانے کے جنون میں کتنے’’جوان‘‘ اس بے دردی سے لےجائے جاتے ہیں کہ بیشتر کنٹینر میں دم گھنٹے سے مر جاتے ہیں۔

عمران خان !کس کس کو ٹھیک کرو گے سی ڈی اے کا چپراسی فائل صاحب کے پاس لےجانے کے پانچ سو روپے مانگتا ہے۔ ہر روز روٹی کا وزن کم اور قیمت بڑھتی جارہی ہے، منشیات کی افغانستان میں فصل کی فصل اگتی ہے۔ پاکستان میں بے شمار منشیات استعمال کی جاتی ہیں۔

تکلیف ہوتی ہے یہ سن کر کہ حج پہ جانے والے اب آئسڈ منشیات لےجاتے ہوئے روزانہ پکڑے جاتے ہیں اور بتائوں یہ جتنی پرفیوم کی دکانیں پھیلی ہیں ان دکانوں میں مال کون سپلائی کرتا رہا ہے، ہمارے ہوائی جہازوں کے ملازم خواتین اور حضرات ۔گزشتہ سال سے پابندی لگنے کے باوجود سلسلہ جاری ہے ۔ عمران خان! قائد اعظم کی 11؍ اگست کی تقریر کا ایک ایک حرف دکھ سے بھرا ہوا ہے۔ اس کو حرزِ جاں بنائو۔ ساری قوم تمہارے ساتھ کھڑی ہوگی۔ خدا تمہارا محافظ ہوگا۔

بشکریہ جنگ


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).