کیا شہباز شریف ہمت ہار بیٹھے ہیں؟


ماضی میں مسلم لیگ نواز کے حوالے سے جب کبھی محمد نواز شریف کی جا نشینی کا سوال اٹھتا تھا تو صرف ایک ہی نام سامنے آتا تھا تو وہ نام ان کے اپنے سگے بھائی شہباز شریف کا نام تھا۔ جب جولائی دو ہزار سترہ میں نواز شریف کو سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ نے وزارت عظمیٰ کے عہدے کے لئے نا اہل قرار دے دیا تو اس وقت نواز شریف نے باقاعدہ اعلان کیا کہ شہباز شریف ہی ان کی جگہ وزیر اعظم ہوں گے، پر ایسا ہو نہ سکا۔ کیوں کہ جوں جوں وقت گزرتا گیا خاندانی اختلا فات سامنے آتے گئے اور دوریاں بڑھتی ہوئی نظر آتی گئیں۔ ایسی دوریاں جو ایک نابینا شخص بھی محسسوس کر سکتا تھا۔ ان دوروں میں اضافہ کرنے میں مریم نواز شریف اور ان کی ٹیم کا بھی بڑا ہاتھ تھا کیوں صاف نظر آرہا تھا کہ وہ پارٹی کی قیادت اور وزارت عظمیٰ کے منصب پر باپ کے بعد اپنے سوا کسی اور کو نہیں دیکھنا چاہتی تھیں۔

سو وقتی خلا پر کرنے کو وزارت عظمیٰ کا قرعہ شاہد خاقان عباسی کے نام نکلا کیوں کہ نواز شریف اور ان کی صاحبزادی مرکزی حکومت پر اپنی گرفت مضبوط رکھنا چاہ رہے تھے اور ایسا ہی ہوا، کیوں کہ شاہد خاقان عباسی نون لیگ کی حکومت کی باقی ماندہ مدت کے لئے وزیر اعظم بن تو گئے پر وہ تمام تر ہدایات کے لئے نواز شریف سے ملنے جاتی امرا لاہور جایا کرتے تھے گو کہ اب نواز شریف پارٹی قیادت کے لئے بھی نا اہل قرار دے جا چکے تھے۔

خاندانی اختلافات اس وقت کھل کر سامنے آگئے جب نواز شریف کی خالی کی گئی قومی اسمبلی کی لاہور کی نشست پرکلثوم نواز کو ضمنی انتخاب میں نون لیگ کا امیدوار مقرر کیا گیا پر کلثوم نواز بیماری کی سبب لندن چلی گئیں اور اپنی انتخابی مہم نہ چلا سکیں۔ ماضی میں لاہور میں جب ایاز صادق کی نشست پر دوبارہ انتخابات ہوئے تو ساری مہم حمزہ شہباز شریف نے چلاکر ایاز صادق کو کامیابی سے ہمکنار کیا۔

پر جب کلثوم نواز کی باری آیی تو حمزہ شہباز انتخابی مہم چلانے کے بجایے بیرون ملک کسی غیر اہم دورے پر چلے گئے۔ اس طرح ساری انتخابی مہم اکیلے مریم نواز شریف نے چلائی اور اپنی ماں کو کامیابی سے ہمکنار کیا۔ یہ اور بات کہ کلثوم نواز بیماری کی سبب قومی اسمبلی کی رکنیت کا حلف نہ اٹھا سکیں۔

شہباز شریف سیاسی طور پر شروع سے ہی اپنے پڑے بھائی کے رحم و کرم پر رہے اور آگے نکلنے کی طرح طرح سے کوششیں کرتے رہے، پر آگے نکل نہ پائے، ہاں جب اور جہاں نواز شریف نے جگہ دی تو وہ وہیں جگہ بنا پا سکے۔

جب انیس سو ستانوے میں نوں لیگ کو بھاری اکثریت ملی بلکہ یوں کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ دلوائی گئی اور نواز شریف دوسری بار ملک کے وزیر اعظم بنے تو پنجاب میں وزیر اعلیٰ کا اہل صرف شہباز شریف کو سمجھا گیا جو ان کے سیاسی سفر کا آغاز بھی تھا، حالانکہ وزارت اعلیٰ کے بہت سے دوسرے امیدوار ہی تھے جن میں سر فہرست چوہدری پرویز الہی تھے۔

بھر جب وہ ستانوے میں پنجاب کے وزیر علی بنے تو انہیں بہت سخت منتظم کہا گیا اور اکثر انھیں سرکاری افسروں پر برستے ہوے پایا گیا، بلکہ دونوں بھائی ایک وزیر اعظم اور دوسرا ملک کا سب سے بڑے صوبے پنجاب کا وزیر اعلیٰ مل کر دورے کیا کرتے تھے اور موقعہ ہی پر افسروں کو ہتھکڑیاں بھی لگوا دیا کرتے تھے۔

گزشتہ دس سال کو دوران شہباز شریف مسلسل پنجاب کے وزیر اعلیٰ رہے اور ان کا تمام تر فوکس صوبے کے تین شہروں لاہور، پنڈی اسلام آباد اور ملتان میں میٹرو بس، لاہور میں اورنج ٹرین اور پور صوبے میں پاور پلانٹس لگانے میں گزرا اور اسے پنجاب سپیڈ کا نام دیا گیا۔ پر دس سالوں میں سوشل سیکٹر یعنی، صحت تعلیم، پینے کا صاف پانی، ماحول کی بہتری اور دوسرے شعبوں پر کوئی توجہ نہ دے سکے۔ پاور پلانٹ میں کرپشن کی تحقیقات شروع ہو چکی ہیں۔

نیب کورٹ نے جب ایون فیلڈ لندن کے فلیٹوں پر نواز شریف اور ان کی بیٹی مریم کو قید کی سزا سنائی تو نوں لیگ کے پاس پارٹی قیادت کلی طور پر شہباز شریف کو دینے کے علاوہ کوئی چارہ نہ تھا کیوں کہ شریف خاندان یہ عہدہ خاندان کے علاوہ کسی اور کو سونپ دینے کا سوچ ہی نہیں سکتا۔ شریف خاندان کا یہ المیہ رہا ہے کہ ایک آدھ کے علاوہ ان کی کچن کیبنٹ بھی یا تو خاندان کے افراد پر مشتمل ہوتی ہے یا پھر سینٹرل پنجاب کے کشمیری اس میں اہمیت رکھتے ہیں۔

خیر دو ہزار اٹھارہ کا الیکشن شہباز شریف کو اپنی سیاسی بصیرت کا سکہ منوانے کے لئے بہت اہم تھا، پر وہ ایسا کر نہ سکے۔ سب سے پہلے جب نواز شریف اور مریم نواز نیب کیس میں گرفتاری دینے لندن سے لاہور پہنچے تو شہاز شریف نے اینٹ سے اینٹ بجا دینے اور لاہور کو بند کر دینے کے دعوے تو بہت کیے پر وہ پچاس ساٹھ ہزار سے زیادہ لوگ وہ بھی لاہور میں مال روڈ کے ارد گرد گھماتے رہے۔ حالانکہ میں دعوے سے کہہ سکتا ہوں کہ لاہور کا ہوائی اڈہ جہاں ہے وہاں تک ایک بڑی ریلی کا پہنچنا کوئی بڑی بات نہیں، یہ خواجہ سعد رفیق کا حلقہ اور ان کے ہاوسنگ پراجیکٹ کے پاس ہے جس کی تحقیقات نیب کر رہا ہے۔

اس پہلے بھی ان کے بارے میں خبریں آتی رہیں کہ وہ اور چوہدری نثار مل کر رات کے اندھیروں میں پنڈی والوں سے ملتے رہے ہیں۔ بلکہ نواز شریف ے پیپلز پارٹی سے مفاہمت کی پالیسی کے خلاف چلتے ہوے جلسوں میں نواز شریف کی تقریروں کے دوران لوگوں کو بڑے بھائی کے منع کرنے کے باوجو زرداری کے خلاف نعرہ بازی پر اکساتے پاے گئے۔ پھر انتخابی مہم کو بھی بھرپور طرح چلانے میں وہ ناکام رہے، کیوں کہ جس طرح نواز شریف عوامی انداز میں جلسوں سے خطاب کر رہے تھے اور عمران خان کی کی مقولیت میں بھی فرق نظر آرہا تھا وہ اس کو برقرار رکھنے میں بری طرح ناکام ر ہے۔

انتخابات کے بعد جب تمام جماعتوں نے اسمبلیوں میں کے بائیکاٹ کا فیصلہ کیا تو شہباز شریف نے ایک دن بعد بائیکاٹ نہ کرنے کا فیصلہ کیا، اسی طرح بدھ کے روز جب سیاسی جماعتوں نے الیکشن کمیشن کے سامنے انتخابات میں دھاندلی کے خلاف مظاھرہ کیا تو شہباز شریف موسم کا بہانہ بنا کر مظاہرے میں شرکت سے گریز کیا۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ وہ یا تو ٹکراؤ سے گریز کر رہے ہیں یا پھر ہمت ہار چکے ہیں۔ اگر شہباز شریف اسی ڈگر پر چلتے رہے تو وہ دن دور نہیں جب مسلم لیگ ن کا حشر ایم کیو ایم یا پیپلزپارٹی والا ہو گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).