عمران خان سے کم سے کم توقعات


اگرچہ ہماری قوم کی سیاسی یادداشت اتنی اچھی نہیں ہے مگر پھر بھی قوم کو اتنا تو یاد رہ ہی جاتا ہے کہ کس سیاستدان کی کون سی اچھی بات اور اچھی تقریر سے متاثر ہو کو وہ اس کو ووٹ دینے نکلی تھی۔ اس یادداشت کا عملی ثبوت اکثر یہ قوم پانچ سال کے بعد الیکشن کے موقع پر دیتی رہی ہے۔ اگرچہ پھر بھی سیاستدان بڑے چالاک ہوتے ہیں وہ کہیں نہ کہیں اس کی یادداشت کو چکر دے ہی جاتے ہیں۔ دوسرا یہ کہ پانچ سال ایک بڑا عرصہ ہوتا ہے کچھ وعدے بھول جاتے ہیں کچھ توقعات میں کمی آ جاتی ہیں، کہیں قوم مسائل کی عادی ہو جاتی ہے اور کہیں دوسرے متبادل تلاش کر لئے جاتے ہیں۔ اکثر قومی معاملات میں لاتعلقی کا رویہ اپنا لیا جاتا ہے کہ اگر قرضہ بڑھ گیا ہے تو کون سا ہم نے اپنی جیب سے دینا ہے اور اگر نظریاتی اعتبار سے ہم نے دینا بھی ہے تو کون سا کوئی ملک ہمارے دروازے پر آ کر طلب کرے گا وغیرہ وغیرہ۔

وفاق میں پی ٹی آئی کی حکومت پہلی بار بننے جا رہی ہے تو عمران خان صاحب جو اس کے بنے بنائے وزیر اعظم ہوں گے کو اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ ہم اُن کی ترجیہات کا جائزہ ان کے اپنے بار بار دہرائے جانے والے بیانات کی روشنی میں لیں یا صبر کریں، اُن کی حکومت بن لینے دیں، کابینہ مکمل ہو لینے دیں، نئی حکومت کو دستیاب وسائل اور بے پناہ مسائل کی شکل دیکھنے دیں، اُن وسائل اور مسائل پر ایک سٹریٹیجی بنا لینے دیں اور پھر قوم کو آگاہ کر لینے دیں کہ عزیز پاکستانیو، میں آپ کو پورے حالات سے باخبر ہونے کے بعد پوری ذمہ داری سے بتا رہا ہوں کہ وہ آپ کا پیسہ لوٹ کر فرار ہو چکے ہیں، خزانہ خالی ہے، قرضوں کے انبار ہیں، بڑی بڑی بین الاقوامی ادائیگیاں سر پر کھڑی ہیں، مذید قرض لینا بھی ایک کارِ محال ہے کیونکہ سخت شرائط پر ہی مل سکتا ہے اور اُن سے بھی کَڑی شرائط پر کہ جن پر پہلے حکمران آپ کو گروی رکھ کر گئے ہیں، پچھلی حکومتوں کی لاپرواہی سے عالمی برادری میں پاکستان کی ساکھ پہلے ہی بری طرح متاثر ہو چکی ہے جس کو بحال کرنا چند برسوں کا کام نہیں، دشمن طاقتیں پاکستان کی طاق میں بیٹھی ہیں اور اس کو کمزور دیکھنا چاہتی ہیں، اندرونی طور پر مذید مہنگائی کا ایک طوفان آنے والا ہے، گزشتہ حکومت کے بجلی کے منصوبے محض ایک فراڈ تھے اور میں آپ کو دھوکے میں نہیں رکھنا چاہتا کہ آنے والی سردیوں میں بجلی کی لوڈشیڈنگ نہیں ہوگی نہ ہی یہ وعدہ کرنے کی پوزیشن میں ہوں کہ سردیوں میں گیس بلا تعطیل دستیاب ہو گی۔

مزید یہ کہ اندرونی محاز پر آپ کی یہ حکومت کرپشن کے خلاف جنگ کرنے کا ارادہ رکھتی ہے مگر یہ اتنا آسان نہیں ہے کیونکہ کرپٹ سیاستدان، بیوروکریٹ اور اہل کار ہر نئی آنے والی حکومت کا حصہ بن جاتے ہیں اور اب کی بار ہماری ہزار کوششوں کے باوجود وہ ہمارا راستہ روکنے اور کرپشن کی پاسداری کے لئے تیار نظر آتے ہیں، ہم اِن پر قابو تو پالیں گے لیکن فی الحال ہم آپ کو یہ بتانا ضروری سمجھتے ہیں کہ کرپشن میں خاطر خواہ کمی لانے کے لئے ہمیں طویل عرصہ درکار ہو گا۔ سماجی میدان میں ہم قوم کو کچھ فوری ریلیف دینے کا مصمم ارادہ رکھتے ہیں اوراس کے لئے پہلے دن ہی سے ایک کمیٹی بنا دی گئی ہے مگر اس کے لئے جن اصلاحات کی ضرورت ہے وہ اصلاحات پارلیمان میں قانون سازی کی محتاج ہیں اور آپ کو خبر ہے کہ پارلیمان میں ہمیں دوتہائی تو کجا سادہ اکثریت بھی حاصل نہیں ہے اور حزبِ اختلاف ان اصلاحات کے نفاذ میں رکاوٹ بن کر کھڑی ہو گئی ہے لہٰذا پولیس، تعلیمی اور عدالتی نظام میں فوری اصلاحات لانا بھی ممکن نہیں ہے جس کی ذمہ داری ہم پر نہیں بلکہ دوسری پارٹیوں پر عائد ہوتی ہے۔

میرے پاکستانیو، میں نے چونکہ آپ سے وعدہ کیا تھا کہ میں جھوٹ نہیں بولوں گا اس لئے میں نے صحیح صورت حال آپ کے سامنے کھول کے بیان کر دی ہے۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ آپ کے کپتان نے ہمت ہار دی ہے مسائل اور سازشوں کے سامنے ہتھیار ڈال دیے ہیں اور اپنے پاکستانیوں کو حالات کا مقابلہ کرنے لئے تنہا چھوڑ دیا ہے۔ ہر گز نہیں۔ آپ کو خبر ہے کہ کپتان مشکلات کے سامنے ہتھیار نہیں ڈالتا، شکست قبول کرنا کپتان کی سرشت میں ہی نہیں ہے۔ آپ کو معلوم ہے کہ ورلڈ کپ کے موقع پر بھی سب یہی کہتے تھے کہ پاکستانی ٹیم فائنل میں نہیں پہنچ سکتی مگر میں نے ہمت نہیں ہاری اور ورلڈ کپ جیت کر دکھایا۔ آپ کو یاد ہے کہ جب میں نے تن تنہا کینسر ہسپتال بنانے کا فیصلہ کیا تھا تو لوگ کہتے تھے کہ اتنا پیسہ کہاں سے آئے گا مگر مجھے اپنی قوم پر یقین تھا کیونکہ ہم دنیا میں سب سے ذیادہ خیرات دینے والی قوم ہیں۔ اگر ہمیں یقین ہو کہ ہماری دی جانے والی رقم صحیح ہاتھوں میں جا رہی ہے تو ہم بہت بڑے بڑے پراجیکٹس کے لئے رقم دینے کے لئے تیار ہو جاتے ہیں۔

مجھ معلوم ہے کہ خزانہ خالی ہے مگر مجھے یقین ہے کہ اب جب کہ لٹیروں اور چوروں سے چھٹکارا مل گیا ہے تو پاکستانی قوم پورا ٹیکس ادا کرے گی اور ہم ایک سال میں پہلے سے گئی گنا ریوینیو اکٹھا کر لیں گے تا کہ ہمارا انحصار بیرون قرضے پر کم سے کم ہو جائے۔ میں اپنے اوورسیز پاکستانیوں سے کہوں گا کہ وہ نئے پاکستان کی عملی جدوجہدمیں شریک ہوں، وہ دل کھول کر اپنے وطن کی تعمیر میں حصہ لیں اور بینکوں میں بڑی بڑی رقمیں بھیجیں۔ آپ کی رقم محفوظ رہے گی اور آپ کی رقم سے ہم بڑے بڑے پراجیکٹ لگائیں گے اور روزگار کے مواقع پیدا کریں گے۔ مجھے افسوس ہے کہ پاکستان کے کئی ہزار ارب ڈالر جو یورپ کے بینکوں میں پڑے ہیں، انہیں واپس لانے کے لئے ہمیں کوئی فوری کامیابی نہیں مل سکتی کیونکہ اس میں کچھ قانونی رکاوٹیں ہیں مگر ہم اس کے لئے کوشش کرتے رہیں گے۔ وغیرہ وغیرہ۔

یہ وہ مسائل ہیں جن سے کسی بھی آنے والی نئی حکومت کو واسطہ پڑنا ہے اور توقع ہے کہ عمران خان کو بھی جلد کم و بیش ان ہی معاملات پر قوم کو آگاہ کرنا پڑے گا۔ تو کیا ہم نئی آنے والی حکومت کو بالکل ہی بے بس سمجھیں؟ تو ان حسین خوابوں کا کیا ہو گا جو ہم نے دیکھے تھے؟ کیا عمران خان واقعی حالات سے سمجھوتہ کر لیں گے اور ماضی کے حکمرانوں کی طرح الفاظ کے ہیر پھیر سے گُذارہ چلائیں گے؟

کسی بھی حکمران کی طرح عمران خان کو بھی کوئی فرق نہیں پڑتا کہ ہم اس بات کا جائزہ لیں کہ وہ کون سے وعدے پورے کر سکتے ہیں اور ان کی حکومت کی کارکردگی کیسی رہے گے کیونکہ اُن کے وعدوں، پالیسیوں اور کارکردگی کا دفاع کرنے والے بہت ہیں اور پھر یہ مسلمہ بات کہ ماضی کے حکمران کرپٹ تھے اور انہوں نے ملک کو تباہی کے کنارے پہنچا دیا تھا۔ مگر پھر بھی کچھ کام تو کرنے والے کر ہی جاتے ہیں۔ کوئی بھی نیا حکمران اپنے اندازِ حکمرانی میں تو تبدیلی لا ہی سکتا ہے، میرٹ کا نفاذ تو کر ہی سکتا ہے، اخراجات میں تو کمی لا ہی سکتا ہے، اہل کاروں کو عوام کی خدمت کا پابند تو کر ہی سکتا ہے، جن سکولوں کی عمارتیں اور ٹیچرز موجود ہیں وہاں کے نتائج اور کوالٹی پرائیویٹ سکولوں سے کم کیوں ہو، جب ہسپتالوں میں عملہ اور دوائیاں موجود ہیں تو صحت کی سہولیات پر کیوں سمجھوتا ہو، سرکاری اہلکاروں کا رویہ عام لوگوں سے حاکمانہ کیوں ہو، ذرائع ابلاغ جان بوجھ کر کیوں سنسنی پھیلائیں، سرکاری گاڑیاں سرکاری خرچ پر کیوں دندناتی پھریں، سرکاری ٹھیکوں میں کمیشن کیوں دیا جائے اور سرکاری دفتروں میں ہر کام کا ریٹ کیوں جاری رہے۔

جو کم سے کم توقع عمران خان سے رکھی جا سکتی ہے وہ یہی باتیں ہیں کیونکہ میرٹ پر عملدرآمد کے لئے اور قانون کی حکمرانی کے لئے کسی حکومت کو نہ تو قانون سازی کی ضرورت ہوتی ہے نہ فنڈز کی۔ اور یہی وہ باتیں ہیں جن سے عمران خان کی بائیس سالہ جدوجہد مزین ہے اور عمران خان کی ہر تقریر شروع ہی انہی باتوں سے ہوتی ہے۔ یہ کم سے کم توقعات ہیں جو کم سے کم عرصے میں پوری ہونی چاہئیں۔ یہ کارکردگی کا سادہ ترین جائزہ ہے۔ یہی نئے پاکستان کا زائچہ ہو سکتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).