تاریخ سب کی اوقات بتا دیتی ہے


کہتے ہیں ظرف سے بڑھ کر کسی کو نوازا جائے تو وہ پیمانے کی مانمد چھلک جاتا ہے اور پھر جو کچھ اس کے اندر موجود ہوتا ہے وہ چھلک کر باہر آ جاتا ہے۔ حضرت علی کا قول ہے کہ ”طاقت ملنے پر انسان بدلتے نہیں ہیں بلکہ بے نقاب ہو جاتے ہیں“۔ ہمارے معاشرے کا بھی مجموعی طور پر یہی حال ہے۔ کسی بھی فرد کے پاس ذرا سا اختیار یا طاقت آ جائے تو وہ آپے سے باہر ہو جاتا ہے اور اس اختیار کو استعمال کرنے کی دھن میں اپنے محدود ظرف اور شخصی احساس کمتری کے مختلف پہلووں کو عیاں کر دیتا ہے۔ سرکاری چپڑاسی اور کلرک سے لے کر نوکر شاہی اور منتخب عوامی نمائندوں سے لے کر غیر منتخب با اثر قوتیں اور گروہ جو وطن عزیز کے کے ان داتا کہلاتے ہیں سب میں اختیار اور طاقت کے بل پر اپنے سے کمزور کی تضحیک کرنے کا شوق ایک علت کی مانند موجود ہے۔

ابھی محترم ثاقب نثار صاحب کی قوت کا مظائرہ دیکھنے سے فرصت نہیں ملی تھی کہ چیف الیکشن کمشنر صاحب نے اپنی قوت کا مظائرہ کرتے ہوئے سابق سپیکر ایاز صادق سے ان کی اوقات پوچھ لی۔ پہلے سپریم کورٹ کے معزز چیف جسٹس سعد رفیق کو چنے والا بول کر اپنی دانست میں طاقت کا مظاہرہ کرتے رہے اور اب سردار رضا صاحب کو ایاز صادق کی اوقات یاد آ گئی۔ کچھ اسی قسم کے جملے لاہور جمخانہ اور مختلف گالف کلبوں میں بلڈی سویلین کے منتخب کردہ باقی ماندہ نمائندوں کے متعلق بھی تواتر سے سننے کو ملتے ہیں۔ جب عوامی نمائندے ایک دوسرے کے خلاف اس قسم کے ناشائستہ اور غیر اخلاقی جملے استعمال کرتے ہیں تو عوام کے رد عمل کے ساتھ ساتھ انہیں ایک دوسرے کے رد عمل اور سخت جوابات کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔

لیکن معزز جج صاحبان، اور دیگر ریاستی ادارے توہین اور حب الوطنی کی ڈھال کے پیچھے چھپ کر نہ صرف عوامی نمائندوں اور عوامی اجتماعی شعور کی تذلیل کرتے ہیں بلکہ انگریز دور کے بنائے گئے غلامانہ قوانین کی آڑ لے کر عوام سے زبردستی کی عزت اور محبت بھی طلب کرتے نظر آتے ہیں۔ حالانکہ فظری طور پر محبت اور عزت و احترام کے رشتے قوانین، رعب یا توہین و غداری کی ڈھالوں کے محتاج نہیں ہوا کرتے ہیں۔ محبت اور احترام وہ ہوتا ہے جو بنا کسی خوف اور ڈر کے غیر مشروط طور پر کسی سے کیا جائے۔ لیکن ہمارے ہاں محبت اور احترام کی منطق ہی نرالی ہے۔

یہاں قاضی عدل کے نظام کو درست بنانے کی تگ و دو چھوڑ کر ڈیم بنانے اور ذاتی رنجشوں کی تسکین میں مصروف ہے اور الیکشن کمیشن انتخابات میں قبل از وقت اور ووٹوں کی گنتی کے دوران دھاندلی کے سوالات کے جوابات دینے کے بجائے دوسروں سے ان کی اوقات پوچھنے میں مشغول ہے۔ محافظ پہرہ دینے کے فرائض کے بجائے خود ساختہ راہبری اور امیر کارواں رہنے کے خبط میں مبتلا ہیں جبکہ دانشور اپنے بچوں کا دودھ ڈھونڈنے کی کوششوں میں مگن عوامی نمائندوں پر جگت بازی کر کے دل ناشاد کو شاد رکھنے کی حیلہ جوئیوں میں کھو چکے ہیں۔ ایسے میں قحط حرف حق کا عالم ہے اور وہ بے ہنگم سا شور ہے جسے سامعین کی سماعتوں پر مسلط کر کے ایک بے سرے راگ کو الاپتے ہوئے انہیں زبردستی سر دھننے اور واہ واہ کرنے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔ اب جو کم بخت سروں اور راگوں سے آشنائی رکھتے ہیں وہ اس بے ہنگم درباری راگ کو آخر کس طرح سے سننے کی ہمت جٹا پائیں اور کیسے اس پر سر دھننے کا حوصلہ لے کر آئیں۔

زمین پر رینگتے کیڑے حشرات الارض کہلاتے ہیں اگر انہیں بھی زبردستی مسلنے کی کوشش کی جائے تو وہ اپنی سی سعی کرتے ہوئے مسلے جانے سے انکار کرتے ہیں ہم تو پھر انسان ہیں۔ قدرت نے انسان کو سوچنے سمجھنے اور دیکھنے کی صلاحیتیں اس لئے نہیں بخشی تھیں کہ وہ ان کو تیاگ کر محض جبرا مسلط کردہ روایات نظریات اور بیانیوں پر سر تسلیم خم کرتے ہوئے خوراک کے حصول اور افزائش نسل کو ہی زندگی کا کل مقصد حیات گردانتے ہوئے سر جھکا کر زومبیز کی مانند زندگی گزارے۔ جن افراد نے یہ فطری حسیات تیاگ کر ناک کی سیدھ میں چلنے کا فیصلہ کیا ہے انہیں ان کا راستہ مبارک اور اس راستے کے معماروں اور راہبروں کو فتح کی نوید کہ ایک کثیر تعداد اس راستے پر نجوشی ہانکے جانے کے لئے تیار ہے۔ لیکن جو افراد اس راہ پر ہانکے جانے کے لئے تیار نہیں اور جو قدرت کی بخشی سوچ و سمجھ اور منطق کی قوت کو استعمال کر کے اپنا راستہ خود بنانا جانتے ہیں ان کو دبانے کی کوششیں وقت کے زیاں کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں ہے۔

صاجب ہم نے ایوب کے دور میں بزرگوں کو حق گوئی کے جرم میں کال کوٹھڑیوں کی صعوبتیں برداشت کرتے بھی دیکھا ہے اور ضیا الحق کے دور میں کوڑے کھاتے اپنے بزرگوں کو کلمہ حق کہتے بھی سنا ہے مشرف دور میں اپنے کئی ساتھیوں کو چمڑی ادھڑواتے بھی دیکھ رکھا ہے۔ لیکن نہ تو وہ سیاہ ترین ادوار کلمہ حق کہنے والوں کے لب سی پائے اور نہ ہی ان تاریک ادوار کے مظالم سینوں میں جلتی جناح کے پاکستان کی فلاحی ریاست کے تصور کی شمعیں معدوم کرنے پائے۔ اگر اوقات کی ہی بات ہے تو تاریخ کے ایک کنارے پر وہ کم ذات شودر اور بے اختیار لوگ کھڑے ہیں جو ایوب خان کے دور سے لے کر آج تک کسی ریاستی یا غیر ریاستی طاقت کی پشت پناہی کے بنا اس وطن کے آئین پر شپ خون مارنے والوں، اسے شدت پسندی کے اندھیروں کے حوالے کرنے والوں اور دو ٹکڑوں میں بانٹنے والوں سے ہمیشہ تکرار کرتے آئے ہیں۔ جناح کے پاکستان کا مقدمہ لڑتے آئے ہیں اور بدلے میں غداری، کفر توہین کے قتووں سے لے کر عقوبت خانوں کی تاریکیوں کو جھیلتے آئے ہیں۔ یہ ہے اوقات ان شودروں کی اور ان کے منتخب عوامی نمائندوں کی۔ دوسری جانب وہ گروہ ہے جو تاریخ کے ہر موڑ پر آئین شکنی کے جواز ڈھونڈتا آیا ہے جس نے مذہب کو طاقت کے حصول کے لئے استعمال کیا ہے جس نے ہر آئین شکن کو قانونی جواز فراہم کیے ہیں اور جو ہر دور میں راگ درباری الاپتا ہوا آیا ہے۔ اگر قصیدہ خوانی، درباری راگ الاپنے اور وطن عزیز میں ہر دیدہ اور نادیدہ آئین شکنی کی اطاعت اور فرمانبرداری سے کسی کو اپنے عزت ماآب ہونے کا احساس ہوتا ہے تو اسے یہ عزت و منصب مبارک ہو۔

البتہ اوقات کے فیصلے تاریخ صادر کیا کرتی ہے اور تاریخ حسین اور اس کے ساتھ کھڑے کلمہ حق کہنے والوں کو آج بھی حق اور سچ پر ڈٹ جانے والوں میں شمار کرتی ہے۔ تاریخ منصور حلاج اور سقراط کو بھی خراج تحسین پیش کرتی ہے اور فاطمہ جناح سے لے کر بھٹو تک کو بھی فاتح قرار دیتی ہے۔ البتہ تاریخ یزید، کوفیوں کو یا منصور حلاج پر توہین کے فتوے اور اسے دار پر چڑھانے والوں، سقراط کو زہر کا پیالہ دینے والوں، فاطمہ جناح کو ہروانے والوں یا بھٹو کو عدالتی قتل کرنے اور کروانے والوں کو ان کی اوقات بھرپور طریقے سے یاد کرواتی رہتی ہے۔ تاریخ کا سبق پڑھ لیجیے آپ کو اپنے سمیت سب کی اوقات کا اندازہ ہو جائے گا۔ آخر کو آج کے واقعات کل تاریخ کا حصہ ہوں گے اور تاریخ پھر سے سب کو ان کی اوقات یاد ضرور کروائے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).