بر صغیر کی جمہوریت اور عدلیہ کا سیاست میں عمل دخل


ویسے تو جمہوریت کا اپنا کوئی رنگ نہیں جہاں ہے وہی کا رنگ ڈھنگ اپنا لیتی ہے۔ دنیا کی سب سے پرانی کہلانے والی جمہوریت روایت پسند برطانیہ میں بغیر کسی لکھت پڑھت کے بلا تعطل جاری ہے تو ہمارے ہاں قوانین و دساتیر کے انبار تلے دم گھٹ کر بار بار مرجاتی ہے۔ افریقہ میں جمہوریت جس کے ہاتھ آتی ہے اسی کی باندی بن جاتی ہے تو چین میں مزدوروں اور محنت کشوں کے نام پر ایک خاص اشرافیہ کو ہی سیاست کرنے کا اختیار دیتی ہے۔ وسطی اور جنوبی امریکہ میں بھی لوگ اپنی طرز حکمرانی کو جمہوریت کہتے ہیں تو وسطی ایشائی ریاستوں کے رہنے والے بھی اپنے ممالک کو جمہوری کہنے پر ہی بضد ہیں۔

برصغیر پاک و ہند میں سیاست اور سیاسی روایات ایک دوسرے سے زیادہ مختلف نہیں۔ صرف تھانہ، تحصیل، کچہری ہی ایک جیسے نہیں بلکہ وہاں بیٹھے لوگوں میں بھی زیادہ فرق نہیں۔ قانون کے احترام سے زیادہ خوف کا راج ہے جو تھانے کے محرر کے قلم سے زیادہ پاکستان میں کانسٹبل کے ہاتھ میں اٹھائے چھتر کا ہے۔ ہر تھانے میں چھترول سے لے کر پولیس مقابلوں کے ذریعے جرائم کے خاتمے کی داستانیں ہی سانجھی نہیں بلکہ مجرموں کی پیدائش اور پرورش بھی ایک جیسی ہے۔ تھانے کے اندر جانے کے بعد کسی بھی شہری کے تمام حقوق تھانے کے باہر رہ جاتے ہیں جبکہ اس کی زندگی کا مالک تھانے میں بیٹھا داروغہ ہوتا ہے۔

تحصیل اور پٹوار خانہ کو مالیات یا ریونیو کہا جاتا ہے جہاں بغیر کسی سرکاری دفتر کے صرف اپنا بستہ کاندھے پر لٹکائے پٹواری فرد جاری کرنے اور منسوخ کرنے کے اختیار کے ساتھ افراد کی قسمت کا مالک ہوتاہے۔ لوگ تھانے میں جان کی آمان اور کچہری میں مال کی حفاظت کے لئے ووٹ دینے کو ہی جمہوریت سمجھتے ہیں۔

برصغیر کی خوشحالی، مال ودولت اور اناج کی فروانی نے ہمیشہ باہر کے لوگوں کو یہاں تک پہنچنے کا راستہ دکھایا ہے۔ یورپ سے آریائی نسل کے جتھے اپنے ساتھ ایسے اصول، ضوابط، عقائد اور معبود لائے جن کے تحت کچھ جانور تو مقدس تھے مگر ہاں پہلے سے بسنے والے انسان انتہائی حقیر ٹھہرائے گئے۔ طاقت کے بل بوتے پر حکومت کرنا ہی دستور کہلایا۔ وسط ایشیاءاور مغرب سے آنے والے جتھوں کا مطمع نظر بھی لوٹ مار ہی رہا۔ آنے کے بعد کوئی یہیں بس گیا اور کوئی لوٹ کر چلا گیا۔ جو یہاں رہ گئے وہ یہاں کے مکین کمی، میراثی، شودراور اچھوتوں کی جان و مال کے مالک بن گئے۔

برصغیر میں رواج ہے کہ حکومت اور اختیار حاصل کرنے کے لئے طاقت کو آئین اور دستور سمجھتے ہوئے اپنی برادری اور قبیلوں اور جتھوں کی طاقت کو ہی اپنی شکتی بنائی جائے۔ برادریوں کی طرح مذہب کی تنظیم بھی نفرت اور دشمنی کی بنیاد پر کی جاتی ہے اور سیاسی تنظیم بھی جتھہ داری ہی کی شکل میں نظر آتی ہے جس میں شراکت داری حصہ داری سے مشروط ہے۔ یہاں اقتدار کسی سوچ یا نظریے کے نفاذ کے لئے نہیں بلکہ اپنے اور اپنے گروہ کے مفادات کے حصول کے لئے حاصل کیا جاتا ہے۔

ہمارے ہاں ہجرت کرکے نئے ملک میں اپنے خوابوں کے محل تعمیر کرنے آئے لوگوں کا جتھہ کراچی اور سندھ کے شہر جہاں اس گروہ کے لوگ آباد ہیں سے باہر کا نہیں سوچتا۔ سندھ کے وڈیرے، مڈل کلاسیے اور سفید پوش صوبائی خود مختاری صرف اپنی راج کے لئے مانگتے ہیں تھر کے باسیوں، دریا کے کنارے بسنے والے موہان اور سمندری ساحل کے مچھیرے ابھی کسی گنتی میں نہیں۔

پنجاب کی ترقی جی ٹی روڑ سے باہر نہیں جاسکی اس لئے بہاولپور، ملتان، لیہ، رحیم یار خان، ڈی جی خان کے رہنے والے اس سے الگ ہونا چاہتے ہیں۔ خیبر پختونخواہ میں قبائل میں منقسم سیاست نظریات کی آڑ میں تقسیم در تقسیم ہے جہاں حکومت کسی کی بھی ہو ترقی پشاور، چار سدہ، مردان اور نو شہرہ سے آگے نہیں جاتی۔ بلوچستان کے حقوق کے علمبرداروں کے اپنے بچے ملک کے اعلیٰ تعلیمی اداروں میں پڑھتے ہیں لیکن ان کے علاقے میں سکول اس لئے نہیں کھلتے کہ تعلیم سے ان میں بے غیرتی آئے گی۔ آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کی بات ہی کیا ہے جہاں جس کو چاہے اقتدار تھما دیا جاتا ہے۔

سیاست کی علاقائی، گروہی اور فرقہ ورانہ تقسیم ساتھ ادارہ جاتی مداخلت بھی ڈھکی چھپی بات نہیں کیونکہ مختلف اداروں مثلاً افسر شاہی، عدلیہ اور عسکری اداروں کا ہمیشہ سیاسی معاملات میں عمل دخل رہا ہے۔ ملک کی تاریخ میں کچھ اداروں کی سیاست میں کبھی پس چلمن اور کبھی روبرو مداخلت ہمیشہ سے اس لئے زیر بحث رہی کہ حصول اقتدار کے لئے عوامی تائید سے زیادہ ان اداروں کی دست شفقت ضروری ہے جنھوں نے سیاست میں عدم مداخلت کی قسم اٹھائی رکھی ہے۔

عدالتی تاریخ میں ایسے کئی نظائر موجود ہیں جس میں سیاسی فیصلے بھی عدالتوں میں ہوئے۔ سیاسی تنازعات کے عدالت تک پہنچنے میں اہل سیاست کی کمزوری ایک طرف مگر عدالتوں کی غیرجانب داری اور سیاست سے مبرا فیصلے دینے کی روایت عدالتوں پر غیر متزلزل اعتماد کی بنیاد ہے۔ 1990ء کی دہائی میں کچھ ایسے فیصلے بھی آئے جن سے عدالتوں کی ساکھ مجروح ہوئی اور ان پر جانب داری اور چمک سے متاثر ہونے جیسے الزامات لگے مگر عدالتوں پر سیاست میں دخل اندازی کا الزام نہیں تھا۔

پرویز مشرف کا چوہدری افتخار کی برطرفی پر اٹھنے والی وکلاء تحریک کی کامیابی نے عدلیہ کی سیاسی حیثیت مستحکم کرلی جس کے بعد عدلیہ نے ایسے فیصلے دیے جس سے ملک کی سیاسی سمت ہی بدل گئی۔ دو منتخب وزرائے اعظم کی برطرفی اور ایک کو جیل میں بند کردینے کے فیصلوں نے عدلیہ کی دھاک عام لوگوں کے دلوں میں بٹھادی۔ اب عام آدمی یہ سمجھتا ہے کہ ملک کا کوئی سیاسی طور پر طاقتور آدمی عدلیہ کی گرفت سے باہر نہیں۔ یہ تاثر اب پختہ ہوتا جارہا ہے کہ سیاست میں عدلیہ کے نکتہ نظر کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔

عدالتوں کے سیاسی اور انتظامی معاملات میں دخل اندازی سے ان کی غیر جانبداری پر سوالات اٹھنے لگے ہیں۔ از خود نوٹس کے اختیار کے ذریعے روزمرہ کے معاملات چلانے اور سیاسی نوعیت کے مقدمات کو ترجیح دینے سے عدالتوں میں اپنی قسمت کے فیصلے کے لئے سالوں سے منتظر لاکھوں متاثرین کے ذہنوں میں عدالت کے آئینی کردار پر جو شکوک پیدا ہوئے ہیں وہ ریاست کے ایک اہم ستون کے لئے نیک شگون نہیں۔

سیاست اپنی جماعت اور گروہ کے ساتھ تائید و رضا اور اپنے قائدین سے مہر و وفا کا ہی نام نہیں بلکہ مخالفین پر الزام و بہتان تراشی اور دشنام اندازی کا ایک ایسا کھیل کا نام ہے جس میں ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالتے ہوئے سب ہی کے ہاتھ میلے ہوتے ہیں اور لباس پر چھینٹے پڑتے ہیں۔ اہل سیاست تو رہتے ہی کیچڑ میں ہیں وہ یہ سب سہہ لیتے ہیں لیکن اجھلی پوشاک میں ملبوس شیشے کے گھروں کے مکین منصفوں کے لئے یہ سب کچھ سہنا آسان نہیں ہوگا۔

علی احمد جان

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

علی احمد جان

علی احمد جان سماجی ترقی اور ماحولیات کے شعبے سے منسلک ہیں۔ گھومنے پھرنے کے شوقین ہیں، کو ہ نوردی سے بھی شغف ہے، لوگوں سے مل کر ہمیشہ خوش ہوتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہر شخص ایک کتاب ہے۔ بلا سوچے لکھتے ہیں کیونکہ جو سوچتے ہیں, وہ لکھ نہیں سکتے۔

ali-ahmad-jan has 278 posts and counting.See all posts by ali-ahmad-jan