جمال نقوی…. ستاروں سے آگے


پونے تین سو صفحے کی ایک کتاب کئی مہینے سے میرے سرہانے رکھی ہے۔ ایک سے زیادہ دفعہ پڑھ چکا ہوں۔ سیری نہیں ہوتی۔ جہاں تہاں سے کھول کر پھر پڑھنے لگتا ہوں۔ یہ کتاب سنجیدہ سیاسی بیانیے اور ذہنی دیانت کا شاندار نمونہ ہے۔ مصنف انگریزی ادبیات کے استاد رہے ہیں اور انہوں نے اس کتاب کو ایک پُرکار عنوان دیا ہے۔ ”Leaving the Left Behind “۔ سیدھی زبان میں ترجمہ ہو گا ”بائیں بازو کو خیر باد“۔ مجھ سے پوچھئے تو میں اسے ”ستاروں سے آگے“ کا عنوان دوں گا۔ سید جمال الدین نقوی 1933 ءمیں الٰہ آباد میں پیدا ہوئے۔ پچاس کی دہائی کے ابتدائی برسوں میں بائیں بازوسے وابستہ ہوئے۔ کمیونسٹ پارٹی پاکستان میں فیصلہ سازی کے اعلیٰ ترین مناصب پر فائز رہے۔ متعدد بار قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں۔ 1979 ءمیں بغاوت اور غداری کے الزام میں گرفتار ہوئے۔ یہ مقدمہ ہماری تاریخ میں ریاستی جبروت اور سیاسی عزیمت کی کشمکش میں سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ اسی مقدمے کے ملزم نذیر عباسی زیر حراست تشدد کی تاب نہ لاتے ہوئے جان ہار گئے تھے۔ اسی مقدمے میں بے نظیر بھٹو شہید اور خان عبدالولی خان نے بنفس نفیس پیش ہو کر ملزموں کی بے گناہی کی شہادت دی تھی۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے جمال نقوی، جام ساقی، سہیل سانگی اور شبیر شر سمیت اس مقدمے کے تمام ملزموں کو ’ضمیر کے قیدی‘ قرار دیا تھا۔ اس عہد بے صدا میںہزاروں اہل ضمیر زندانوں کی زینت تھے، بہت سے اہل صفا جبری جلاوطنی میں دیار وطن کی خیر مانگتے تھے۔ زہد و تقویٰ کے مٹھی بھر پتلوں نے آمریت کے دامن میں پناہ لے رکھی تھی جہاں سے وہ لیلائے وطن سے عشق کے اقبالی مجرموں پر زبان طعن دراز کرتے تھے۔ سنسرشپ کی چھری تلے وہی حرف مطبوعہ تھا جو عوام کے حق حکمرانی پہ دشنام تھا۔ اس عالم میں جمال نقوی نے چھ برس قید کاٹی۔ ’چھٹے اسیر توبدلا ہوا زمانہ تھا‘۔ سرد جنگ میں کھنچے آہنی پردے کے پار تبدیلی کی ہوائیں چل رہی تھیں۔ سوویت یونین اور مشرقی یورپ معیشت اور معاشرت کی جنگ میں پسپا ہو رہے تھے۔ جمال نقوی چندے بائیں بازو کی گروہی کشمکش میں شریک رہے۔ ہم ایسے کندہ ناتراش طالب علم جمال نقوی کو نظریاتی کٹر پن کا استعارہ سمجھتے تھے۔ ہم غلط تھے۔ حقیقی سیاسی کارکن بنیادی سیاسی سوالوں سے چشم پوشی نہیں کر سکتا۔ بیدار ذہن میں سوال کلبلاتے ہیں۔ جمال نقوی بھی اپنے دو ٹوک موقف کے علی الرغم سوالات سے دوچار تھے۔ اس دوران انہیں کمیونسٹ پارٹی سے چار عشروں کی وابستگی کے بعد پہلی بار سوویت یونین جانے کا موقع ملا۔ اشتراکی جنت کی زمین پر جمال نقوی کے سیاسی، معاشی اور تمدنی مشاہدات ایک ایسا خوفناک نظریاتی اور ذہنی تجربہ تھے کہ وہ اپنا دورہ مختصر کر کے دو ہفتے بعد ہی پاکستان پلٹ آئے۔ سوالات اپنی پوری سفاکی کے ساتھ واضح شکل اختیار کر چکے تھے۔ جمال نقوی کی عظمت یہ ہے کہ انہوں نے کسی فرد یا واقعے پر الزام دھرنے کی بجائے اپنے بنیادی سیاسی مفروضات پر از سر نو غور و فکر کیا۔ جو شخص چار عشروں تک پاکستان کے ریاستی جبر اور کٹھن معاشرتی ڈھانچوں سے کسی دیو مالائی ساونت کی طرح لڑا تھا، ضمیر کی کونپل کے سامنے مزاحمت نہ کر سکا۔جمال نقوی نے کمیونزم کو خیرباد کہہ دیا۔

یہ امر تعجب انگیز ہے کہ جمال نقوی ایک صاحب مطالعہ سیاسی مفکر تھے۔ عالمی حالات و واقعات پر گہری نظر رکھتے تھے۔ عملی سیاست میں اعلیٰ ترین سطح پر سرگرم تھے ۔ یہ کس طرح ممکن ہوا کہ اپنے عہد کے اہم ترین سوالات پر جمال نقوی نے یک طرفہ نقطہ نظر کو غیر تنقیدی طور پر قبول کر لیا۔ کیا وہ نہیں جانتے تھے کہ ماسکو ٹرائل میں انصاف کا خون کیا گیا۔ میری میکارتھی ، ایڈمنڈ ولسن اور حنا آرڈنٹ جیسے دانشوروں نے اشتراکی استبداد کے اس نمونے کو دیکھتے ہوئے جوزف سٹالن کی حمایت سے ہاتھ کھینچ لیا تھا۔ 30کی دہائی کے دوران روس میں تطہیر کے قصے عام تھے۔ کیا 1949 ءمیں چھپنے والی وہ چھوٹی سی کتاب The Gods that failed بھی جمال نقوی کی نظر سے نہیں گزری تھی۔ جس میں لوئی فشر ، آندرے ژید ، آرتھر کوئسلر، سٹیفن سپینڈر اور رچرڈ رائٹ جیسے مستند ترقی پسند مفکروں نے سوویت اشتراکیت کا پول کھولا تھا۔ جمال نقوی جیسے صاحب مطالعہ شخص نے ہنگری، پولینڈ اور چیکو سلواکیہ کے واقعات پر غور کیوں نہیں کیا ۔ جمال نقوی نے یہ کیوں نہیں سوچا کہ لوگ اشتراکی نظام کی جنت سے منحرف کیوں ہوتے ہیں۔ دیوار برلن پھلانگتے ہوئے گولیوں کا نشانہ کیوں بنتے ہیں؟ جمال نقوی ادبیات کے استاد تھے۔ انہیں یہ خیال کیوں نہیں آیا کہ گوگول ، ٹالسٹائی، ترگینف اور دستوئیوسکی کی زمین پر ادب کی کھیتی خزاں کی زد میں کیوں آ گئی۔ جمال نقوی نے ڈاکٹر ژواگو نہیں پڑھا تھا؟ کیا خروشیف کی خودنوشت ان کی نظر سے نہیں گزری تھی۔ جمال نقوی نے قابل تحسین جرات سے تسلیم کیا ہے کہ وہ عقیدہ پرستی کی مخالفت کرتے ہوئے ایک اور طرح کی عقیدہ پرستی میں گرفتار ہو گئے تھے۔ آمریت صرف سرحدوں ہی پر آہنی پردہ نہیں کھینچتی، آمریت سے چشم پوشی کی جائے تو آنکھیں بھی آہن پوش ہو جاتی ہیں۔

اشتراکیت کا تجربہ انسانی تاریخ کا ایک عظیم الشان باب ہے اور اس کا لینن، سٹالن یا ماﺅزے تنگ کی کسی مفروضہ عظمت سے تعلق نہیں۔ کارل مارکس نے تاریخ ، معیشت اور فلسفے کی مادی تشکیل کرتے ہوئے انسانیت کے بنیادی خوابوں کو خدوخال عطا کیے تھے اور وہ خواب کیا تھے۔سب انسانوں کو خوشی نصیب ہو، محرومیوں سے نجات ملے، انسانی ضروریات کی آسودگی ممکن بنائی جائے۔ بستیوں میں امن کی ٹھنڈی ہوا کا گزر ہو۔ انسانی آزادیوں کو نئے آفاق کی وسعت ملے۔ زمین پر انصاف کا دور دورہ ہو۔ زمین پر ان خوابوں کی تعبیر کے لیے کچھ مادی بندوبست کی ضرورت پڑتی ہے۔ اس بندوبست کے مختصر ترین نکات تین ہیں۔ علم ، پیداوار اور قانون کی بالاستی۔ آمریت ان تینوں نکات سے انکار کا نام ہے۔ آمریت ہی پیوستہ مفاد ہے۔ پیوستہ مفاد علم کے امکان سے خوفزدہ ہوتا ہے۔ پیوستہ مفاد پیداوار کی بجائے استحصال پر انحصار کرتا ہے۔ آمریت قانون کی بالادستی کا نہیں، مطلق العنان اختیار کا نام ہے۔ اشتراکی آمریت اور انسانیت کے خوابوں میں جدلیاتی تضاد پایا جاتا ہے۔ جمال نقوی صحیح نتائج پر پہنچے۔

شنید ہے کہ پاکستان میں بائیں بازو کے کچھ حلقے جمال نقوی کی اس تصنیف پر جزبز ہو رہے ہیں۔ پاکستان میں بائیں بازو کی جدوجہد کے کیف و کم کو جمال نقوی سے بہتر کون جان سکتا ہے۔ تاہم پاکستان میں بائیں بازو کی سیاست کے پیچ و خم سے آشنائی کا دعویٰ کیے بغیر بھی یہ سوال اٹھایا جا سکتا ہے کہ پاکستان میں بایاں بازو تاریخ کا رخ سمجھنے میں بار بار ناکام کیوں ہوا؟ ترقی پسندوں کے لیے مستحسن نہیں کہ اپنی ہر ناکامی کو کسی مفروضہ سازش یا مخالفت کا جواز دے کر بری الذمہ ہو جائیں۔ ماضی تو تاریخ کا حصہ بن چکا، آج کے تضاد کو دیکھئے۔ گزشتہ کئی برس سے پاکستانی ریاست مذہبی عسکریت پسندی کے خلاف فیصلہ کن کارروائی کر رہی ہے۔ سکہ بند بائیں بازو کی طرف سے اس آپریشن کی حمایت کا کوئی اشارہ نہیں ملا۔ یہ کیسی روشن خیالی ہے ؟یہ تو انہدام کی خواہش ہے۔ کیا پاکستان کے روشن خیال یہ بھی نہیں سمجھتے کہ مذہبی عسکریت پسندی کے ہوتے ہوئے پاکستان کے عوام کے لیے آزادی اور خوشحالی کا خواب نہیں دیکھا جا سکتا۔ جمال نقوی نے کتاب میں عالمانہ انکسار سے کام لیتے ہوئے اپنی زندگی کو ناکام قرار دیا ہے۔ مجھے اس سے اختلاف ہے۔ ان کی زندگی رائیگاں نہیں گئی۔ زندگی کا اس سے بہتر استعمال کیا ہو سکتا ہے کہ اسے انسانوں کے لیے زیادہ خوشی اور زیادہ انصاف کے حصول کی جدوجہد میں صرف کیا جائے۔ ڈاکٹر اقبال احمد کے انتقال پر ایڈورڈ سعید نے کہا تھا ایک صحیح ترقی پسند کے لیے بنیادی سوال یہی ہے کہ آزادی کے امکان کو مجروح کئے بغیر زیادہ سے زیادہ انصاف کو کس طرح ممکن بنایا جائے۔جمال نقوی نے اپنی فعال زندگی انصاف کے لیے لڑتے ہوئے بسر کی اور حیات مستعار کی شفق میں یہ کتاب لکھ کر انسانی آزادی کا نغمہ تصنیف کیا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).