سب فراڈ چل رہا


ملکوں کی معیشت سیاسی استحکام اور اقتصادی پالسیوں کے تسلسل سے مضبوط ہوتی ہے۔ سیاسی بے یقینی، فراڈ الیکشن اور ریاستی اداروں کے یکطرفہ اور غیر آئینی اقدامات سے معاشی تباہی تو ممکن ہے معاشی استحکام کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ معاشرے کا آئینہ سمجھے جانے والے میڈیا کا گلا گھونٹ دیا جائے تو عوام کو مودی کا یار، بد عنوانی اور مذہب کے نام پر جھوٹ بول کر گمراہ کرنا تو ممکن ہے لیکن حب الوطنی کا لباس اوڑھ کر شروع کیے جانے والے جھوٹ کے طوفان کا اولین ہدف ملکی سلامتی اور قومی یکجہتی بنتی ہے۔

عوامی جمہوریہ چین میں شاید ریاست کے غدار بستے ہیں انہوں نے ون بیلٹ اور ون روڈ پالیسی کو عدم تسلسل سے محفوظ رکھنے کے لئے اپنی تاریخ میں پہلی مرتبہ چینی صدر کو وہ اختیارات بھی سونپ دیے جو ماؤ زے تنگ کو بھی حاصل نہیں تھے اور پاکستان میں شاید دنیا کے حب الوطنی کے بہترین پہاڑ پائے جاتے ہیں جنہوں نے لندن فلیٹ کی برسوں پہلے کی سرمایہ کاری کو قیام پاکستان سے اب تک کی سب سے بڑی بدعنوانی سمجھتے ہوئے صرف 22 ماہ کی مختصر مدت میں ملکی معیشت کو اربوں ڈالر کے نقصان سے دوچار کر دیا ہے۔

22 ماہ کے دوران حصص بازار 56 ہزار کے 100 انڈکس سے 41 ہزار پر پہنچ گیا ہے۔ ڈالر کی قیمت 102 روپیہ سے بڑھ کر 126 روپیہ پر پہنچ گئی ہے۔ عالمی ریٹنگ ایجنسیوں موڈیر اور سٹینڈرڈ اینڈ پورز نے پاکستان کی معاشی ریٹنگ کم کر دی ہے۔ بجٹ خسارہ ساڑھے چار فیصد سے بڑھ کر 9 فیصد تک پہنچنے کو ہے۔ چاروں صوبوں کا بجٹ سرپلس خسارہ میں تبدیل ہو گیا ہے۔ عالمی ٹاسک فورس نے پاکستان کو گرے لسٹ میں ڈال دیا ہے اور بلیک لسٹ ہونے سے بچنے کے لئے درکار اقدامات کا جائزہ لینے کے لئے ٹاسک فورس ٹیم آیندہ ماہ پاکستان آ رہی ہے۔ عوامی جمہوریہ چین حقانی نیٹ ورک کو دہشت گرد قرار دے چکا ہے اور پنانا ڈرامے کا کلایمکس یہ ہے کہ سی پیک پر چینی سرمایہ کاری منجمند ہو چکی ہے اور عملی طور پر سی پیک پر کام بند ہو چکا ہے اور کامیابی کی انتہا یہ ہے عام انتخابات میں دشمن قوتوں کو شکست دی جا چکی ہے۔

جب معاشی تباہی پاناما آپریشن کا نتیجہ بن کر سامنے آچکی ہے اور ادائیگیوں کے توازن کی تلوار گرنے کو ہے تو امریکی وزیر خارجہ کی طرف سے دھمکیاں آنے لگی ہیں آئی ایم ایف کے قرضوں کو سی پیک کے چینی قرضوں کی ادائیگی کے لئے استمال کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ بلی تھیلے سے بتدریج باہر آرہی ہے امریکی سینٹ میں ایک بل ٹیبل ہو رہا ہے جس کا ہدف پاکستان کے لئے آئی ایم ایف کا پروگرام ہے۔ پاکستان کو رواں مالی سال کے لئے بیرونی قرضوں اور ان پر سود کی ادائیگی کے لئے 12 ارب ڈالر کے اضافی وسائل درکار ہیں اور اس کے لئے آئی ایم ایف پروگرام ناگزیر ہے اور ہمارے مستقبل کے وزیر خارجہ امریکیوں کو چینی قرضوں کے طعنے دے رہے ہیں کیا یہ اسٹیٹ کرافٹ ہیں؟

جادو گر تو کوئی آئے گا نہیں اور انتہائی اعلی سطع پر بدمعاشی کی انتہا یہ ہے کہ قوم کو دھوکہ دیا جارہا ہے پاک ایران سرحد پر دنیا کے سب سے بڑے پیٹرولیم کے ذخائر عمران خان کی برکت سے دریافت ہوئے ہیں اور پھر ایک منا سا پریس نوٹ جاری کر کے وضاحت کر دی جاتی ہے ”بیان کو سیاق و سباق سے ہٹ کر دیکھا گیا ہے ”

پاکستان کے معاشی بحران کا کوئی حل موجود نہیں۔ سپریم کورٹ کی طرف سے کرپشن سے کمائے بیرونی ملکوں میں موجود اربوں ڈالر واپس لانے کی بڑکوں سے ملک میں ایک ڈالر بھی نہیں آئے گا۔ پیسے صرف معاشی پالسیوں کے تسلسل بے یقینی کے خاتمہ اور قومی یکجہتی سے آئیں گے۔ اپنانا ڈرامے سے پہلے حصص بازار میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری ہو رہی تھی۔ سی پیک کے متوقع مواقعوں سے فائدہ اٹھانے کے لئے بیرونی سرمایہ کاروں کے وفود مسلسل پاکستان آ رہے تھے اور اب سرمایہ کار فرار ہو رہے ہیں۔

بچ نکلنے کا موقع موجود ہے اگر بیرون ملک پاکستانی پیسے بھیجنے لگیں چینی سی پیک کے قابل ادا کم مدتی قرضوں کو ری شیڈول کر دیں اور تمام سیاسی قوتوں سے افہام و تفہیم کے ذریعے نئے وزیراعظم عمران خان کو قومی مینڈیٹ دے دیا جائے اور ملک میں سیاسی بے یقینی کا خاتمہ ہو جائے لیکن یہاں تو نئے وزیراعظم کو حلف سے پہلے ہی نیب میں بلانے کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے اور متعدد مقدمات پائپ لائین میں ہیں سیاسی جماعتیں انتخابات کو قبول کرنے سے انکار کر رہی ہیں ان حالات میں تبدیلی کہاں سے آئے گی اور کون احمق اپنے پیسے پاکستان میں لے کر آئے گا۔

موجودہ صورتحال ابتر تو ہو سکتی ہے بہتری کی کوئی امید نہیں۔ عزت اور ذلت دینے والا اللہ تعالی ہے کی ٹویٹ کرنے والے ڈان لیکس کی طرح اپنی ٹویٹ واپس لیں میاں نواز شریف کے ساتھ معاملات طے کیے جائیں چینیوں کا غصہ اور غلط فہمیاں دور کی جائیں اور قومی یکجہتی سے درپیش چیلنجز کا مقابلہ کیا جائے اس کے علاوہ فی الحال کوئی حل موجود نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).