جمہوریت کا احتساب مگر کیوں ۔۔۔۔؟


\"sardarجمہوریت کا احتساب کی کہانی آج کی بات نہیں اس کی شروعات 1949میں خان لیاقت علی خان نے وزیر اعظم کی حیثیت سے ایک قانون (پراڈوا ) کے نظام سے بنایا جس کا مقصد سیاست دانوں کے اختیارات کو احتساب کے نام پر کم کرنا اور پارلیمنٹ کی حیثیت کو کمزور کرنا تھا اس کے بعد ایوب خان نے آمریت کے عہد میں جمہوریت سیاست اور سیاسی عمل کو بدنام کرنے کی ریاستی سطح پر تشہیر کی گئی اور سیاست دانوں پر الزامات کی بوچھاڑ کی گئی اور ان پر بے بنیاد مقدمات قائم کیےگئے اور ایبڈو ELECTIVE BODIES DISCOLILICATION OLDERکے نام سے بنائے گئے اس آمرانہ قانون کی وجہ سے پورے ملک سے سات ہزار سیاستدانوں کو الیکشن کے عمل سے باہر کر دیا آمریت کی چھتری تلے بننے والے اس قانون کی وجہ سے پاکستان کی چوٹی کے سیاستدانوں کو ریاستی نفرت کا سامنا کرنا پڑا اور اس سیاسی قیادت میں شیخ مجیب الرحمٰن، ولی خان، باچا خان، خیر بخش مری، جی ایم سید جیسے قد آور سیاستدانوں کو الزامات کی وجہ سے سیاست سے کنارہ کر دیا گیا جس کے نتیجہ میں پاکستان میں جمہوریت کو شدید نقصان پہنچا اور سیاسی عمل کے راستے میں خاردار تاریں بچھا دی گئیں (اییڈو ) جیسے قانون کی کو ک سے جنم لینے والی نفرت کا ثمر دیکھنے کو ملا کہیں بنگلہ دیش کی صورت میں ایک نیا ملک پاکستان کو دو لخت کر کے بنایا گیا اور اس کا سہرہ اسی شیخ مجیب الرحمٰن کے سر جاتا ہے جسے احتساب کے نام پر قومی سیاست سے بے دخل کر دیا گیا اسے غدار وطن اور وطن دشمن ثابت کرنے کی ہر ممکن کوشش کی گئی جبکہ دوسری طرف خان ولی خان، خیر بخش مری جیسے جمہوریت پسندوں کو اپنی حب الوطنی ثابت کرنے کے لےے ملک کی عدالتوں کے سامنے رسوا ہونا پڑا اور زندگی کا بڑا حصہ مقدمات کے سامنے کرتے گزر گئی ان سب سیاستدانوں کا صرف یہ جرم تھا کہ وہ پاکستان میں جمہوریت کو مضبوط دیکھنا چاہتے تھے اختلافات رائے ووٹ کی آزادی اور جمہوری سوچوں کو پننا دیکھنا چاہتے تھے جو ملک کے لیے سود مند ثابت ہوتا لیکن بد قسمتی سے آمریت کا جادو سر چڑھ کر بولا اور ایوب خان کی غیر آئینی حکومت کو مسیحائی کے روپ میں پیش کیا جانے لگا اور ریاست بندوق کی زبان میں بات کرتی رہی اور عوام زبان بندی پر قائم رہے اس کڑے دور میں جمہوریت کی نظم سنانے کے لےے اور آمریت کے خلاف کلمہ حق کہنے کے لیے فاطمہ جناح نے جرا ¾ت کا مظاہرہ کیا اور دیکھتے ہی دیکھتے ملک کے سبھی کونوں سے جمہوریت پسندوں نے ایوب خان کے خلاف بغاوت کر دی جس میں طلبہ سیاست نے بڑی تحریک چلائی اور ایوب خان کا گھر جانا ٹھہر گیا لیکن ایوب خان کے آمرانہ دور میں جو نفرتیں سیاست دانوں اور جمہوری عمل کے خلاف پید اکی گئی اس کی وجہ سے جمہوریت پر عوام کا یقین مستقل بحال نہ ہو سکا اور ہمیشہ ووٹ کے تقدس کو مشکوک نظروں سے دیکھا جاتا رہا

آگے چل کر بھٹو صاحب کی جمہوری حکومت کے خلاف دھاندلی کو جواز بنا کر سیاسی محاذ (PNA)بنایا گیا اور اس کے پس پردہ بھی وہی عنا صر تھے جو جمہوریت اور پارلیمنٹ کی بالا دستی کے مخالف تھے اور بھٹو صاحب کی جمہوری حکومت کو غیر آئینی طریقہ سے ضیاءالحق نے ختم کرکے ملک کو نئے تاریک دور میں داخل کر دیابھٹو جیسے عظیم لیڈر کا عدالتی قتل ضیاءآمریت کی پہلی آمرانہ دلیل ثابت ہوئی ضیاءالحق نے سیاست اور جمہوریت کو عوام دشمنی جیسے نظام سے متعارف کروایا اور ملک میں نفرت بنیاد پرستی اور دہشت گردی کو مضبوط کرنے میں مدد کی گئی اور غیر جماعتی الیکشن کے زریعہ جمہوریت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا یا اور سیاسی جماعتوں کو ناقابل یقین اور قابل نفرت ٹھہرا کر پاکستان میں برادریوں، فرقوں اور علاقوں کے نام پر الیکشن میں عوام کو تقسیم کیا گیا اور نظریاتی سیاست کو جڑ سے اکھاڑنے کی کوشش کی گئی ایک بار پھر آزادی اظہار پر قدعن لگا دی گئی اور جمہوریت کی بحالی اور بنیادی حقوق کے لیے جدو جہد کرنے والے سیاسی کارکن طارق خورشید نے اپنی کتاب سوئے دار میں ان تمام مظالم سے پردہ اٹھانے کی کوشش کی گئی جو ضیاءآمریت میں سیاسی کارکنا ن اور اہل قلم کے ساتھ روا رکھے گئے ستم ظریفی یہ ہے کہ ضیاءالحق کو پاکستان کے نصاب تعلیم میں ایک ہیرو اور مسیحا کی صورت میں پیش کیا جا رہا ہے جبکہ جمہوریت پسند قیادت کی نصاب میں بھی کردار کشی کی گئی اس غیر اخلاقی عمل کو ریاست کی کوتاہی کے علاوہ کیا نام دیا جا سکتا ہے ضیاءآمریت کے خاتمے کے بعد بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف کی حکومتوں کو بھی احتساب اور الزامات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے دونوں کے درمیان شدید اختلافات کی وجہ سے کسی بھی حکومت کو دو سال سے زیادہ موقع نہ دیا گیا اور جمہوریت کے خلاف آوازیں اسی تواتر سے اٹھائی جاتی رہی اور پھر مشرف کے دس سالہ مارشل لاءکی صورت میں ملک پر ایک نیا قہر ٹوٹا اور (LFO)جیسے غیر جمہوری قانون کے زریعہ ملک کا نظام چلایا جاتا رہا اور جنرل مشرف کو ریاست عوامی امنگوں کا ترجمان اور مہربان بنا کر سامنے لائی اس عہد میں ووٹ کی آزادی کو ایک مذاق بنا دیا گیا عدلیہ، پارلیمنٹ، میڈیا سمیت ہر دوسرے ادارے کو آمر اپنی انگلیوں کے اشاروں اور ہونٹ کی جنبش سے چلانے پر مامور رہا پھر جمہوریت پر یقین رکھنے والوں کو پاکستان کے گلی کوچوں میں جمہوریت کی بحالی کے لیے ایک طویل جدو جہد کرنی پڑی اس عہد میں احتساب کے نام پر سیاست دانوں کو بلیک میل کیا جاتا رہا اور سیاسی عمل کو احتساب کے زریعہ کنٹرول کرنے کی کوشش کی جاتی رہی جمہوریت کی بحالی طویل جدو جہد کا ثمر بن کر سامنے آئی مشرف آمریت میں ہی قومی سیاستدان بے نظیر بھٹو کو جمہوریت کی بحالی کی جدو جہد میں دہشت گردی کی نذر ہونا پڑا اور ملک کو ایک بڑے نقصان کا سامنا محترمہ کی موت کی صورت میں سامنے آیا پھر پیپلز پارٹی کی پانچ سالہ حکومت کو بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا اس کے بعد مسلم لیگ (ن) کی حکومت تین سالہ دور میں جمہوریت مخالف عناصر نے سازشوں کا جال بچھا نے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیا کبھی دھرنے کی صورت میں پارلیمنٹ کو بدنام کروایا گیا اور پارلیمنٹ کے کردار کو محدود کرنے کی کوشش کی گئی اور ایمپائر کے کردار کو جمہوریت کے خاتمے کا لائسنس دینے کی کوشش کی گئی جسے پارلیمنٹ اور جاوید ہاشمی نے مل کر ناکام بنا دیا

اب پھر ایک بار جمہوری حکومت کے خلاف ایک منظم سازش کا آغاز کیا جا رہا ہے لیکن اب پا نامہ لیکس کو بنیاد بنا کر منتخب وزیر اعظم کو گھر بھیجنے کے لیے غیر قانونی ہتھکنڈے بنائے جا رہے ہیں آئے روز وزیر اعظم سمیت جمہوری عمل کو بدنام کیا جا رہا ہے اور مخصوص مائنڈ سیٹ جمہوریت کا گالیاں دلوانے کا فریضہ احسن طریقے سے نبھایا جا رہا ہے اور میڈیا کے ایک مخصوص حصے کے ذریعے جمہوریت کو ناکام نظام ظاہر کروانے کی کوشش کی جا رہی ہے سیاستدانوں کی کرپشن کے قصیدے زبان زد عام کروا کر مطلوبہ نتائج حاصل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے اور سیاست دانوں کو ملک کے تمام مسائل کی بنیاد ظاہر کیا جا رہا ہے جبکہ جنرلوں، بیورو کریٹسوں کا علامتی احتساب کروا کر سیاست کے خلاف نئے انداز سے سازش کی جا رہی ہے اور وہ عناصر جو ملک میں فرقہ واریت، لا قانونیت اور انتہا پسندوں کو پھیلتا دیکھنا چاہتے ہیں جو سیاسی آزادیوں اور ووٹ کے تقدس کے خلاف ہیں وہ ایک بار پھر سر جوڑ کر بیٹھ گئے ہیں انہیں ملک میں اختلاف رائے، سوال کی آزادی کا مضبوط ہونا ان سے برداشت نہیں ہوتا اور نہ ہی وہ ریاست کو طاقتور ہونا دیکھنا چاہتے ہیں ایسی عوام دشمن سوچ رکھنے والوں کی آنکھوں میں پارلیمنٹ ہمیشہ چبھتی رہتی ہے کہ کہیں پارلیمنٹ کی مضبوطی کی وجہ سے ملک خوشحال نہ ہو جائے ضرورت اس امر کی ہے کہ احتساب کی بات کرنے والوں کو اب تاریخ کا احتساب کرنا ہو گا ہم احتساب کی بات کرتے ہیں تو ہمیں ایوب خان سے لے کر مشرف دور تک ہونے والے غیر جمہوری دور کا احتساب کرنا ہو گا اس دور میں سیاست دانوں کو بدنام کرنے اور جمہوریت کا گلہ گھونٹنے کے لیے بنائے گئے ان تمام مقدمات کا احتساب کرنا ہو گا جو کبھی پنڈی سازش کیس، لیبیا سازش کیس کی صورت میں تو کبھی حیدرآبد سازش کیس کی صورت میں اس ملک کو جو سیاسی و قومی نقصانات ہوئے ہمیں ان کا بھی احتساب کرنا ہو گا کہ ہم نے اپنے ذاتی عناد کے لیے قوم کے کیسے نایاب ہیرے نفرتوں کی نظر کر کے گنوا دیے جن کا کردار قومی سیاست کا حسن تھا وہ قومی قیادت جو ہم نے ہاتھوں گنوا دی اس جرم کی ذمہ دار ریاست ہے اور ریاست ا کو پنی ان تاریخی غلطیوں کا احساس ہونا چاہیے مشرف دور میں نیب کے نام پر جو کرپشن اور غیر قانونی کام ہوئے ان کا بھی احتساب ہونا چاہیے آج جمہوریت کے خلاف پروپیگنڈے کرنے والوں کو پاکستان کی سیاسی تاریخ کا خوب مطالعہ کر لینا چاہیے لیکن احتساب کا لبادہ اووڑھ کر منتخب وزیر اعظم اور جمہوری عمل کو ختم کرنے کی سازش کبھی کامیاب نہیں ہونی چاہیے اور نہ ہی پاکستان کی سیاسی برادری اسے کامیاب ہونے دے گی اس ملک میں تبدیلی سیاسی نظام اور جمہوریت کے تسلسل سے ہی ممکن ہے میاں نواز شریف سمیت پارلیمنٹ کے اندر اور باہر بھی سیاستدانوں کا احتساب ضرور ہونا چاہیے لیکن عدلیہ کے جج صاحبان اور جنریلوں کو بھی احتساب کے عمل سے برابر گزارنا چاہیے اور ریاست کا قانون سب کے لیے منصفانہ ہونا چاہیے اور جمہوریت کو بدنام کرنے اور سیاسی نظام کے خلاف آوازیں اٹھانے کا سلسلہ بند ہونا چاہیے اگر اس ملک میں ہم سیاسی نظام دپھیلتا یکھنا چاہتے ہیں جس کے زریعہ عوام کے مسائل کا حل موجود ہے نہ کہ آمریت جیسی عوام دشمن دور میں یہ ممکن ہو سکتا ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).