ترقی پسند تحریک اور قیام پاکستان


آل انڈیا اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے مسلمان ترقی پسند طلبا بھی بڑی تعداد میں مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن میں شامل ہوئے، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (جو ایک وقت میں اے آئی ایس ایف کا قلعہ تصور ہوتی تھی) مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے ترقی پسند کارکنوں کی سرگرمیوں کا مرکز بن گئی جن کو کئی ترقی پسند اساتذہ کی حمایت حاصل تھی۔

مسلم لیگ کی سیاست پر ترقی پسندوں کے اثرات

ترقی پسند سیاسی کارکنوں کی شمولیت اور ان کی کوششوں کے نتیجے میں مسلم لیگ کا پیغام ملک کے کونے کونے میں عام مسلمانوں میں مقبولیت حاصل کرنے لگا۔ اس کی ایک بڑی مثال ہمیں پنجاب میں نظر آتی ہے جہاں ترقی پسند کارکنوں نے مسلم لیگ کی مقبولیت اور سن پینتالیس کے انتخابات میں اس کی کام یابی میں ایک قائدانہ کردار ادا کیا۔ ایک ترقی پسند رہنما دانیال لطیفی ہی نے پنجاب مسلم لیگ کا انتخابی منشور لکھا، جو پنجاب کے عام مسلمانوں میں مسلم لیگ کی مقبولیت کا محرک ثابت ہوا۔ اس منشور میں مسلم لیگ نے یہ وعدہ کیا کہ اقتدار حاصل کرنے کی صورت میں بڑی بڑی صنعتیں اور بنک قومیا لیے جائیں گے، نجی صنعتوں کو ایک حکومتی پلان کے ذریعے عامتہ الناس کی فلاح کا پابند بنایا جائے گا، ہر شہری کو روزگار کی ضمانت ہوگی، محنت کشوں کی کم سے کم اجرت طے کی جائے گی اور مہنگائی الاؤنس دیا جائے گا، مزدوروں کو یونین سازی اور ہڑتال کا حق دیا جائے گا، بے زمین کسانوں، کاشت کاروں اور چھوٹے زمیں داروں کی فلاح کے لیے زرعی ترقی کا ایک منصوبہ بنایا جائے گا، کسانوں کے قرضوں کے مسائل حل کیے جائیں گے، سرکاری زمینیں بے زمین کسانوں میں تقسیم کی جائیں گی اور زرعی مالیانہ کا منصفانہ اطلاق زمینداری کے حجم کے حساب سے ہوگا۔

منشور کے ساتھ ساتھ ترقی پسند کارکنان نے مسلم لیگ کی انتخابی مہم کو عام لوگوں تک لے جانے میں سرگرمی سے حصہ لیا، فیروز الدین منصور مسلم لیگ کے انتخابی پمفلٹوں کی تیاری کی ذمے داری اٹھائے ہوئے تھے، مسلم لیگ کے رہنماؤں کی انتخابی تقریریں لکھنے کا فریضہ بھی ترقی پسند کارکنان انجام دے رہے تھے اور سب سے بڑھ کر قریہ قریہ، قصبہ قصبہ مسلم لیگ کا پیغام عام لوگوں تک پہنچانے کا بِیڑا بھی انھی کارکنوں نے اٹھایا ہوا تھا۔ ان کارکنوں کی قیادت میں پنجاب کے محنت کشوں اور کسانوں سے رابطے کی ایک زبردست مہم پورے صوبے میں چلائی گئی جس کے نتیجے میں مسلم لیگ کے جلسوں میں مسلمان محنت کش اور غریب کسان ہزاروں کی تعداد میں شریک ہونے لگے۔

ان جلسوں میں نہ صرف یونینسٹ پارٹی کی حکومت کے سیاہ کارناموں اور اس کی غیر ملکی آقاؤں سے وفاداری کو نشانہ بنایا جاتا، بلکہ مسلم لیگ کے منشور کی عوام دوست پروگرام کی تشہیر کی جاتی جس کو جلسے کے شرکاء پرجوش انداز میں داد دیتے۔ اس پرزور انتخابی مہم کے دوران لاکھوں کسانوں اور محنت کشوں تک مسلم لیگ کا پیغام پہنچایا گیا۔ کھیوڑہ کی نمک کانوں کے مزدوروں کے ایک بڑے جلسے میں مسلم لیگ کا منشور پڑھ کر سنایا گیا جس کی مزدوروں نے پرجوش تائید کی۔ اسی طرح ستمبر ۱۹۴۵ء کی پنجاب کسان کانفرنس کے انعقاد میں جس میں ڈیڑھ لاکھ کسان شریک ہوئے، مسلم لیگ کے ترقی پسند کارکنوں نے اپنے رہنما چودھری رحمت اللہ کی قیادت میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ مسلم لیگ کے کارکن بھی بڑی تعداد میں اس کانفرنس میں شریک ہوئے اور ممتاز دولتانہ نے زرعی شعبے کے بارے میں مسلم لیگ کے منشور میں انقلابی نکات کی وضاحت کی۔

سندھ میں بھی ترقی پسندمسلم لیگی کارکنوں نے جی ایم سید کی قیادت میں سندھ کے بے زمین غریب ہاریوں کے مطالبات کی مکمل حمایت کا اعلان کیا جو سندھ ہاری کمیٹی نے پیش کیے تھے۔ ان ترقی پسند مسلم لیگی کارکنوں کی کوششوں نے حکومت کو مجبور کیا کہ وہ ہاریوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے سفارشات پیش کرنے کے لیے ایک خصوصی کمیٹی قائم کرے۔ ترقی پسند کارکنوں کی کوششوں ہی سے مسلم لیگ سندھ میں بھی ایک عوامی جماعت کا روپ دھارنے میں کام یاب ہوئی۔

ترقی پسند سیاسی کارکنوں کی ساتھ ساتھ مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے نوجوان کارکنوں کی ان تھک محنت کے نتیجے میں مسلم لیگ کا سیاسی پیغام پورے ملک کے عام مسلمانوں میں مقبول ہوا۔ آل انڈیا اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے مسلم ارکان کی ایک بڑی تعداد بھی مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن میں شامل ہو چکی تھی۔ مسلم لیگ جو ۱۹۳۷ء کے انتخابات سے قبل نوابوں، جاگیرداروں، تعلقہ داروں اور سرمایہ داروں کی جماعت سمجھی جاتی تھی، ۱۹۴۵ء کے انتخابات تک پورے ملک کے مسلمانوں کی ایک عوامی جماعت بن گئی۔ ترقی پسند کارکنان اور نوجوان طالب علموں کی کوششوں سے عام مسلمان مزدور، کسان اور معاشی طور پر محروم طبقات میں یہ یقین پیدا ہوا کہ پاکستان کا قیام ان محروم لوگوں کی زندگیوں میں وہ تبدیلیاں لے کر آئے گا جس کے باعث وہ بھی ایک باعزت زندگی گزارنے کے قابل ہوں گے اور انھیں نوابوں، جاگیرداروں، زمیں داروں ، سرمایہ داروں اور سود خور ساہو کاروں کے ظلم و زیادتی سے نجات ملے گی۔ وہ روز روز مر کر جینے کے گھن چکر سے باہر نکل سکیں گے۔

ترقی پسند سیاسی کارکنوں کے پیدا کیے ہوئے اسی یقین کے نتیجے میں مسلمان عوام نے والہانہ انداز میں 1946ء کے انتخابات میں مسلم لیگی امیدواروں اور تحریک پاکستان کا ساتھ دیا اور مسلم لیگ کو صحیح معنوں میں مسلمان عوام کی نمایندہ جماعت ہونے کا اعزاز حاصل ہوا۔ انتخابات میں تقریباً تمام مسلمان نشستوں پر مسلم لیگی امیدوار منتخب ہوئے۔ اسے یہ شان دار انتخابی کام یابی نہ صرف اقلیتی صوبوں میں بلکہ مسلم اکثریتی صوبوں میں بھی حاصل ہوئی۔ اسی کام یابی نے قیام پاکستان کی راہ میں حائل تمام رکاوٹوں کو دور کیا۔

یہ بھی ہماری تاریخ کا ایک بڑا المیہ ہے کہ ترقی پسند سیاسی کارکنوں کے اس تاریخی کردار کے نتییجے میں مسلم لیگ کو حاصل ہونے والی کام یابی کے بعد جب انگریزوں کے کاسہ لیس جاگیرداروں اور زمینداروں نے دیکھا کہ پاکستان کا قیام ناگزیر ہے تو انھوں نے تیزی سے پینترا بدل کر مسلم لیگ میں شامل ہونا شروع کیا۔ وہ مذہبی جماعتیں بھی جو آخر وقت تک مطالبۂ پاکستان کی مخالفت میں پیش پیش تھیں، انھوں نے پاکستان بنتے ہی حب الوطنی کا چولہ اوڑھ کر وطن عزیز کے استحصالی طبقات سے گٹھ جوڑ کرلیا تاکہ ظلم و استحصال کے اس نظام کو دوام بخشا جائے اور عوام کی اکثریت کو آزادی کی ان نعمتوں سے محروم کیا جائے جن کے خواب انھوں نے اپنی آنکھوں میں بسائے تھے۔

مذہبی جماعتوں ، جاگیرداروں، سرمایہ داروں، فوجی جرنیلوں اور نوکر شاہی نے مل کر نہ صرف عوام دشمن نظام کا تحفظ کیا بلکہ وطن عزیز کو صحیح معنوں میں ایک عوام کی نمایندہ مملکت کی جدوجہد کرنے والی ترقی پسند قوتوں کو پوری طاقت سے کچلنے کی مہم چلائی اور ان کو غداری اور ملک دشمنی کے جھوٹے الزامات کا نشانہ بنایا۔ بقول شاعر

نیرنگی سیاست دوراں تو دیکھیے

منزل انہیں ملی جو شریک سفر نہ تھے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2