سیاست میں انسانیت ڈھونڈنے کا ہنر


اکتا جاتے ہیں۔سیاست کے موضوع پر کالم پڑھ پڑھ کر؛ پڑھنے والوں کی ناک میں دم آ جاتا ہے۔ مان لیا، سیاسی موضوعات پر سب اپنے اپنے اسلوب سے لکھتے ہیں۔ کچھ کے اسالیب بہت مقبول ہیں مگر موضوع تو وہی رہتے ہیں۔ وہی عمران خان، وہی زرداری، وہ انگلی لہراتی ہوئی، وہی ہیٹ، وہی شہزادی، وہی اس کا بے وقعت میاں جس نے شناخت سسرال میں گم کردی۔ فنا فی السسرال ہو گیا۔ تاریخ میں نام اور مقام بنا گیا۔ جب بھی دوسرے موضوعات پر کالم لکھا فیڈ بیک، کئی گنا زیادہ آیا۔ بچے، بچوں کی معصومیت، سماجی رشتے جو مدہم ہوتے ہوئے غائب ہو رہے ہیں، دیہی زندگی کے دھندلائے ہوئے مناظر۔ ادب آداب جو افق پار چھپتے جا رہے ہیں۔ پڑھنے والے پڑھتے ہیں اور روتے ہیں۔

بحراوقیانوس کے اس پار سے نامے آتے ہیں کہ صبح سے پڑھ رہا ہوں، رو رہا ہوں، تم نے اپنی نہیں، میری داستان لکھی ہے۔ میرا بچپن بھی یہی تھا تاریخ اور ادب پڑھنے والے تاریخ اور ادب کے پیاسے کہیں۔ ادبی پرچوں کا سنہری دور لد چکا۔ فنون، اوراق، نقوش، شمس الرحمن فاروقی کا شب خون۔ اب وہ ادبی جریدے کہاں! ’’فنون‘‘ نکل رہا ہے مگر

؎ شکستہ پا راہ میں کھڑا ہوں گئے دنوں کو بھلا رہا ہوں

جو قافلہ میرا ہم سفر تھا مثال گرد سفر گیا

وہ پھر بھی قاسمی صاحب کی دختر نیک اختر اور ان کے نواسے کی ہمت ہے کہ کشتی ان بپھرے پانیوں میں کھیتے جا رہے ہیں۔ اوراق کا کوئی بھی وارث نہ ہوا۔ ’’سویرا‘‘ شایع ہوتا ہے مگر مارکیٹ میں آتا ہی نہیں۔ لگتا ہے سو دو سو کی تعداد میں چھپتا ہے۔ مبین مرزا اپنا پرچا ’’مکالمہ‘‘ ہر ماہ باقاعدگی سے چھاپ رہے ہیں۔ ہمت ہے۔ داد کے مستحق ہیں۔ نصیر احمد ناصر تسطیر نکال رہے ہیں۔ ممتاز شیخ ’’لوح‘‘ کی ادارت کرتے ہیں۔ بھارت کے ادبی پرچوں کا عزیزم علی اکبر ناطق کے ذریعے علم رہتا ہے۔ سننے میں آتے ہیں، پڑھنے میں نہیں۔ علی اکبر ناطق کی نظمیں اپنا رنگ لیے ہیں۔ وحید احمد نظم کی اپنی سلطنت رکھتا ہے۔ معین نظامی کی جاگیر الگ ہے۔ یہ وہ جواں مرد ہیں جنھوں نے اردو نظم کو نیا پیرہن عطا کیا اور اس روح کو نئے نئے قالب عطا کئے ہیں۔ مگر ایک نظم گو اور ہے جو گوشہ گیر ہے۔ بنکاری کے گوشواروں واوچروں ڈبل انٹری کی پے چیدگیوں میں کھویا، اعداد و شمار کے پتھر کاندھے پر اٹھا کر دن کو رات کرتا ہے۔ پھر ایسی نظمیں کہتا ہے کہ پڑھنے والے کو حیرت کے دشت میں لے جا کر وہ وہ مناظر دکھاتا ہے کہ جان بدن سے نکلنے لگتی ہے۔

فرح یار نے کیا کیا کمال کی نظمیں کہیں۔ ہم تو بس پیشی بھگتانے آئے ہیں۔ اور ’’چین سے چائے کی پتیاں آ گئیں سہ پہر سج گئی۔‘‘ مگر یہ کچھ تازہ نظمیں پڑھیے یہ پانی کہاں تک چلے بے ربط قصّے میں سندھو نشانی ہے جیون کی گاگر میں تھوڑا سا پانی ہے پانی کہاں تک چلے ہم کالی راتوں کو بس جیسے تیسے بسنتی چنریا سے دل باندھ لیں گے کہ ست جگ میں تم ہی بھلے تم ہی بھلے پر زرا راہ کی بھیڑ میں رفتگاں سے لپٹتی ہوئی شام ہے بھربھری نیند ہے آئنوں کے تلے بھربھری نیند میں ایک مکھ بھاو میں دھیرے دھیرے سلگتا ہوا آسماں نے بجھے نے جلے تم بتاو یہ پانی کہاں تک چلے ٭٭٭٭٭ شہر کی سیڑھیوں پر بدن کے مضافات کو بے قراری کی بیلوں نے گھیرا ہوا تھا جنم پھیر کی خود کلامی کے اندر ہمہ وقت بے چین آنکھوں میں مستی کا سرمہ لگا تو عراقِ عجم کے پلوں سے گزر کر دمشق اور کوفہ کی خونی دلیلوں سبیلوں سے بچتا بچاتا زمانوں کی دوری پہ دریا کے اس پار آباد باغوں بھرے شہر کی سیڑھیوں پر دمکتے ہوئے نقش کو بند کر کے کئی سال سے اب خراسان کے دست کاروں کی شوریٰ میں بیٹھا ہوا ہوں سواروں کے جتھے اترتے گزرتے چلے آ رہے ہیں سواروں کی شکلوں پہ شب کی لکیریں ملامت کی کالی سیہ چادریں اوڑھ کی ان کا ہونا کسی ناگہانی میں بھٹکا ہوا ہے ہوا رک گئی ہے۔

مگر میرا دل جیسے راول کی پنڈی میں اٹکا ہوا ہے وہ راول کی پنڈی جسے خلق نے گرد اور خشک جاڑے سے نکلی ہوئی دھند کے بیچ تھالی میں رکھا کہاں سب کو ملنا تھی پلکوں کی چھایا کہاں سب پہ کھلنا تھا کار تمنا محلوں فصیلوں دکانوں کے پہلو میں بہتے زمانوں کے اندر لرزتی دھڑکتی ہوئی زندگی آخری متن تک خط کشیدہ عبارت میں لکھی ہوئی تھی وہ راول کی پنڈی کہ جس میں زمین کو بدلنے کا سپنا سناتے ہوئے قصہ خواں موسموں کی نہایت سے بچ کر پرانے مکانوں کی جانب پلٹتے رہے اور اب نارسائی کے مجہول کوٹوں میں ان قصہ خوانوں کو نیند آ گئی ہے۔ مرادوں کی بھٹی میں اس سال بھی اپنی مرضی کے چاند اور ستارے نہیں ڈھل سکیں گے خبر، بے خبر بھیڑ کو چیرتی جا رہی ہے سخن خشک سالی کی شاخوں سے لٹکا ہوا ہے مگر میرا دل… ٭٭٭٭٭ چائے خانہ سنت سادھو نہیں کہ گلہ نہ کریں جنگلوں میں رہیں بادلوں پر چلیں زندگی ہم ترے جوڑ جھالے میں گم عام انسان ہیں جو پریشان ہیں زندگی! یوں ہمیں بے دلی سے نہ مل ہم اتر جائیں گے انت کے رو برو گہرے پاتال میں ہم بھٹک جائیں گے، دودھیا راستوں پانیوں سے بھرے بادلوں میں کہیں سرمئی خاک کو بھربھرا چھوڑ دے جو مکاں ہے اسے لا مکاں مت بنا ہم زبانی کا خطِ بے زباں مت بنا تیزی تکرار میں تیرے ہم راز ہیں تیرے عشاق ہیں تیرے جان باز ہیں زندگی یوں ہمیں بے دلی سے نہ مل ٭٭٭٭٭ بے چینی سب سیدھا رکھنے کی خواہش میں کچھ الٹا ہو جائے تو ہم گھبرا کر جیون گدلا کرلیتے ہیں خوف میں لپٹے سناٹوں سے بھر جاتے ہیں زرا زرا زندہ رہتے ہیں کافی سارا مر جاتے ہیں ٭٭٭٭٭ مجھے نیند آنے لگی ہے زندگی! اپنی منقار کو میرے ہونٹوں پہ رکھ میرے سانسوں کے برتن سے ٹپ ٹپ کوئی چیز بہتی چلی جا رہی ہے یہ آنکھوں کا روغن کہ جلتا رہے گا مجھے دودھیا پھڑ پھڑائے پروں پر اٹھا نیلگوں وسعتوں میں میرا نام لکھ میرے خوابوں کی لو تیز کر تیز کر مجھ کو آواز دے زندگی مجھ کو آواز دے فرح یار کی نظموں میں زندگی کے راز کھلتے ہیں۔

احمد ندیم قاسمی نے نظم کہی تھی ’’ریستوران‘‘ اور لکھا تھا

؎ ریستوران میں سجے ہوئے ہیں کیسے کیسے چہرے

فرح یار ایک قدم آگے بڑھا ہے۔ ’’چائے خانہ‘‘ میں زندگی کو سجھاتا ہے کہ ہانپتے ہوئے لوگوں کو، زندگی کے تیز رفتار بازار میں، دو گھڑی سکون بھی درکار ہے۔ سیاست کی گرم بازاری میں ادب اورتاریخ پڑھو کہ سیاست بھی مجھ میں آئے گی اور زندگی بھی۔ زندگی ہی سمجھ میں نہ آئی تو سیاست کس کام کی۔ یہ شاعر، ادیب اور مورخ ہیں جو سیاست میں انسانیت ڈھونڈنے کا ہنر سکھاتے ہیں۔ شاعروں، ادیبوں اور مورخوں پر دھیان دو کہ زندگی محض ووٹوں بیلٹ بکسوں اور اسمبلیوں کا نام نہیں۔

(بشکریہ روزنامہ 92)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).