چاند کی چوری


اقوام متحدہ کے ہنگامی اجلاس میں دنیا کے ترقی یافتہ ملکوں پر سنگین تنقید کی جارہی تھی۔ بڑی طاقتوں کے سربراہوں نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا۔ دنیا کی بڑی خلائی رسدگاہوں کے سربراہ بھی مستعفی ہوگئے تھے۔ جاپان کے رسدگاہ کے سربراہ نے خودکشی کرلی تھی۔ کسی کی سمجھ میں نہیں آیا تھا کہ چاند کو کیسے اغوا کرلیا گیا تھا۔ چاند پر لگے ہوئے کیمروں اوردوسرے آلات سے زمین والوں کو چاندکے طویل سفر کا پتہ تو چل گیا تھا لیکن زمینی سائنس دانوں کے بس میں نہیں تھا کہ چاند کی واپسی کے لیے کوئی اقدامات کرتے۔ زمین والوں کو پہلی مرتبہ اپنی بے کسی اور بے مائیگی کا احسا س ہوا تھا۔

اقوام متحدہ کی سائنسی کمیٹی نے دنیا بھر کی قوموں کے لیے تجاویزات مرتب کردی تھیں کیونکہ چاند کی چوری کے بعد دن اور رات گھٹ کر بارہ گھنٹے کے ہوگئے تھے۔ موسم بدل گئے تھے، سمندر کی لہریں ساکت ہوگئی تھیں، آنے والے سالوں کے لیے سائنس دانوں نے رہنما اصول بنائے تھے تاکہ فصلیں اتنی تعداد میں اُگائی جاسکیں کہ زمین پر بھوک سے لوگ مرنا نہ شروع ہوجائیں۔
ساری دنیا میں چھوٹے موٹے زلزلے آئے تھے، بارشیں بڑھ گئی تھیں۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

اجلاس میں دنیا بھر کے فوجی معاہدوں کے سربراہان اور سائنس دانوں نے بھی شرکت کی تھی اورچاند کی واپسی کے لیے منصوبہ پیش کیا تھا جو کروڑ ہا کروڑ خرچ کرنے کے بعد کئی سالوں میں قابل عمل ہوتا۔ اس منصوبے پر سب کی رضامندی حاصل نہیں ہوسکی تھی۔ دنیا والوں کی دنیا بدل کر رہ گئی تھی۔ زیادہ تر لوگ سمجھ ہی نہیں سکے تھے کہ ان کے ساتھ کیا ہوگیا ہے اوران کے ساتھ کیا ہونے والا ہے۔ ایک عجیب قسم کی افراتفری اور غیریقینی صورت حال پیدا ہوگئی تھی۔

اقوام متحدہ نے چاند کی چوری کے بعد سے ہونے والے حادثات، زلزلہ اور سیلاب کے لیے خصوصی فنڈ قائم کردیا تھا جس میں بہت سارے ممالک حصہ لے رہے تھے۔ اقوام متحدہ اوربڑی طاقتوں کی باربار یقین دہانی کے باوجود زمین کی بڑی آبادی غیر یقینی صورت حال کا شکار ہوگئی تھی۔

جنگلوں اورچڑیا گھروں میں موجود جانور بھی حالات کا اندازہ نہیں لگاسکے تھے۔ شروع کے دنوں میں ان میں ایک بے چینی سی پیدا ہوئی مگر تھوڑے عرصے میں وہ ماضی کے معمولات کو بھول کر بغیر چاند کے رہنا سیکھ گئے۔ جن جانوروں نے بغیر چاند کے دنیا کی قبولیت میں دیر لگائی ان کا شمار ذہین جانوروں میں ہوتا تھا۔ وقت کے ساتھ ساتھ زمینی لوگ بغیر چاند مغرور سمندر کے رہنا سیکھ گئے تھے۔ دنیا کے موسموں میں تبدیلیاں آگئی تھیں اور دور بہت دور نیمز کے رہنے والوں کو پتہ بھی نہیں تھا کہ انسانوں پر کیا گزری ہے۔

دنیا کے کئی ممالک میں چاند سے بچھڑنے پر مختلف سماجی ردعمل ہوئے تھے، ترقی یافتہ ملکوں میں چاند سے متعلق کہانیاں، ڈرامے لکھے جارہے تھے اورشاعری کے ذریعے اپنے جذبات و احساسات کا اظہار کیا جارہا تھا۔ فنکاروں نے چاند کی چوری سے متعلق گانے اور رقص بنائے تھے جو مختلف تھیٹروں میں مستقل چل رہے تھے۔

ترقی پذیر ممالک میں چاند سے متعلق چند نئے مذاہب کا آغاز ہوگیا تھا۔ چندر مکھاری نام کے مذہب کے ماننے والوں کی تعداد تیزی سے بڑھی تھی، ان کا ایمان تھا کہ ایک دن چاند واپس آجائے گا اور چاند کی واپسی کے ساتھ ہی دنیا میں ظلم اور غربت کا خاتمہ ہوجائے گا اورہر طرف انصاف کا بول بالا ہوگا۔ چندر مکھاری لوگوں نے ایک نیا کیلنڈر بنایا جس کا آغاز چاند کے چوری والے دن سے ہوتا تھا۔
ظلم، غربت اور نا انصافی یورپین عوام کا مسئلہ نہیں تھا لہٰذا چندر مکھاری مذہب کو یورپ میں مقبولیت نہیں حاصل ہوسکی۔ یورپ کے شاعروں، لکھاریوں نے چاند کے اغوا سے متعلق زبردست تحریریں لکھی تھیں۔ امریکا میں کئی فلمیں بنائی گئی تھیں اور سائنس دان مستقبل کا اندازہ لگانے میں لگے ہوئے تھے۔

زمین کے ساتھ اتنا بڑا حادثہ ہوگیا تھا جس کی مثال نہیں تھی۔ چاند کی چوری کوئی معمولی بات نہیں تھی۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ زمین پر ہنگامی حالات کا اعلان کردیا جاتا، تمام حکومتیں ایک دوسرے سے مکمل تعاون کرکے زمین پر ہر قسم کی مخلوقات، جاندار اوربے جان کی حفاظت کے لیے متحد ہوجاتیں مگرایسا ہونہیں سکا تھا۔

دنیا کے کچھ فلسفی پیرس میں جمع ہوئے تھے اور زمین سے متعلق ایک اعلامیہ جاری کیا گیا تھا جس میں تمام حکومتوں سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ زمین اورزمین پر رہنے والے تمام چرند پرند، نباتات اور بے جان چیزوں کی حفاظت کو یقینی بنائیں اور چاند کے بغیر دنیا میں رہنے کے لیے مناسب حالات کی تشکیل کریں۔ دنیا کے وسائل کو چاند کی واپسی کے لیے خرچ کرنے کے بجائے ان وسائل کو زمین پرخرچ کیا جائے تاکہ غربت اورجہالت کے خاتمے کے ساتھ دنیا میں جنگوں کا بھی خاتمہ ہو۔

زمین پر رہنے والوں نے اس اعلامیہ کا خیرمقدم کیا مگر حکومتوں نے اعلامیہ پر عمل کرنے کے لیے کوئی خاص اقدامات نہیں کیے تھے۔
چاند کی چوری کے باوجود زمین پرکسی بھی قسم کی تبدیلی ہوتی نظر نہیں آرہی تھی۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

مزید پڑھنے کے لئے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں

ڈاکٹر شیر شاہ سید
Latest posts by ڈاکٹر شیر شاہ سید (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3