یوم آزادی: فخر کریں اور شرم بھی


ایک دوست نے واٹس ایپ پر یوم آزادی کی پیشگی مبارک باد دی اور ساتھ ہی ایک فوٹو بھی بھیجا۔ اس فوٹو میں کوڑا چننے والا کوئی بارہ سال کا ایک بچہ اپنی بائی سائیکل چلاتا ہوا جا رہا ہے۔ اس کی سائیکل کے کیریئر پر دونوں طرف لٹکا ہوا بچے کے قد سے بھی بڑا کوڑا کرکٹ والا بورا (بیگ) بچے کی زندگی کے حالات کا اعلان کر رہا تھا۔

سائیکل کے ہینڈل پر ایک بڑے سائز کا سبز ہلالی پرچم لہرا رہا تھا۔ اس دوست نے تصویر کے ساتھ یہ لکھا کہ ہمیں اس بچے کے جذبات پر فخر کرنا چاہیے۔ ہم میں سے اکثر، میرے اس دوست کی طرح، ایک خیالی دنیا میں رہتے ہیں۔ ہمیں سائیکل کے ہینڈل پر لہراتا ہوا جھنڈا تو نظر آ جاتا ہے لیکن اس سائیکل کو چلانے پر مجبور گلیوں سے کوڑا چنتا ہوا بچہ نظر نہیں آتا۔ اگر وہ نظر آئے تو پھر ہم اس تصویر کو دیکھ کر فخر کرنے کی بجائے اس پر شرمندہ ہوں گے اور سوچنے پر مجبور بھی۔

اگر ایسا ہو تو پھر جو کچھ ستر سال سے ہو رہا ہے ہم اس کے نتائج پر غور کریں گے۔ سازشی تھیوریز کو ایک طرف رکھیں کیونکہ ان کا تو کچھ ہو نہیں سکتا لیکن اس پر تو دھیان دیں جو ہمارے بس میں ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ اگر ستر سال سے ملک چلانے کا جو طریقہ ہم نے اپنا رکھا ہے اس کا خاطر خواہ فائدہ نہیں ہو رہا تو کچھ اور کرنا چاہیے۔ اپنا طریقہ ہمیں بدلنا چاہیے۔

یہ صاف ظاہر تھا کہ اس بچے کے حقوق پورے نہیں ہو رہے اور یہ کہ اس بچے کے حقوق پورے کرنے والے اپنی ذمہ داری ٹھیک طرح سے نہیں نبھا رہے۔ اس بچے کو سکول میں ہونا چاہیے تھا نہ کہ گھر کو پالنے کی مجبوری میں پھنسا ہوا، کوڑا چننے پر مجبور۔

بدقسمتی کی بات یہ ہے یہ تو ہمیں نظر ہی نہیں آ رہا کہ حکمرانوں نے اس بچے کو کیا دیا ہے۔ بلکہ اس بچے سے کیا چھینا ہے۔ اس بچے سے اس کا معصوم بچپن چھین لیا ہے۔ جس کا مطلب ہے کہ اس کا بے فکری سے کھیلنے کودنے کا حق، اس کا شوق سے سکول جانے اور محفوظ اور با عزت ماحول میں سیکھنے کا حق، اس کا صحت کا حق اور ایک ذمہ دار شہری بننے کا خواب دیکھنے کا حق۔ بچے کے یہ سارے حقوق چھین کر آپ اس کو کون سا مستقبل دے رہے ہیں جس پر آپ فخر کر سکیں۔ بد قسمتی یہ ہے کہ یہ بچہ کوئی اکیلا نہیں ہے۔ اس جیسے کروڑوں بچے ہیں جن کا بچپن اور مستقبل ہمارے حکمرانوں نے چھین لیا ہے۔ جو بچے سکول بھی نہیں جا سکتے وہ مزدوری کرتے ہیں، بھیک مانگتے ہیں، مدرسے جاتے ہیں، کوڑا کرکٹ چنتے ہیں اور پیسے کما کر گھر چلانے میں اپنی والدین، جن میں زیادہ تر صرف مائیں ہیں، کی مدد کرتے ہیں۔ یہ سارے بچے جنسی ہراسانی، جنسی زیادتی اور ہر قسم کے تشدد کا شکار ہوتے ہیں اور نشہ بیچنے والوں اور دوسرے جرائم پیشہ افراد کے نشانے پر ہوتے ہیں۔ ایسے بچوں کے پاس ایک خوشحال، پرسکون اور آزاد زندگی کا چانس نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے۔

یہ بچے ایک اچھی اور خوشحال زندگی کے لطف سے محروم ہیں کیونکہ ہمارے حکمرانوں نے ہماری کروڑوں ماؤں کو دھوکہ دیا اور انہیں ترقی کے عمل سے باہر رکھا اور انہیں ان کے جائز حقوق نہیں دیے۔ عورتوں کو برابری کا انسان ہونے کا حق، تعلیم اور صحت کا حق اور اپنی زندگی کے متعلق خود فیصلے کرنے کا حق نہیں دیا گیا۔ تعلیم، تربیت اور صحت کی سہولیات کی کمی کی وجہ سے عورتیں بچے پیدا کرنے کی مشین بن کے رہ گئی ہیں۔ نتیجہ یہ کہ غربت، بھوک اور بیماری ایک نسل سے اگلی نسل میں شفٹ ہوتی چلی جاتی ہے۔

ہمارے حکمران اس جیسے کروڑوں بچوں اور عورتوں کے مجرم ہیں۔ وہ ڈھٹائی سے وسائل کی کمی کا رونا رو دیتے ہیں۔

وسائل سے کمی کا رونا ایک سفید جھوٹ ہے۔ عورتوں کو بحیثیت انسان ان کا جائز مقام دینے پر کوئی پیسے خرچ نہیں ہوتے بلکہ اس سے ملکی وسائل بچتے ہیں۔ اور ویسے بھی ہمارے پاس حکمرانوں کے ہر جائز و ناجائز اخراجات کے لیے وسائل کی کمی نہیں ہے۔ حکمرانوں کے ناموں کی تختیاں لگانے کے لیے میٹرو جیسے غلط منصوبوں کے لیے اربوں روپے موجود ہیں، پڑوسیوں کے ساتھ دشمنیاں پروان چڑہانے اور نیوکلیئر پاور بننے کے لیے پیسے ہیں اور اپنے بچوں کی تعلیم اور صحت کے لیے پیسے نہیں ہیں۔

اب ایک دفعہ پھر ہم نیا پاکستان غلط طریقے سے بنانے جا رہے ہیں۔ ایک بار پھر وہی الیکٹیبلز نیا پاکستان بنانے کے لیے پی ٹی آئی کے جھنڈے تلے اکٹھے کر دیے گئے ہیں جنہوں نے ڈکٹیٹر جنرل ایوب کے ساتھ مل کر فاطمہ جناح کو ہرایا تھا، ذوالفقار علی بھٹو کے ساتھ مل کر ایک سوشلسٹ پاکستان بنایا تھا، مرد مومن مرد حق جنرل ضیا الحق اور اس کی باقیات کے ساتھ مل کر اسلامی پاکستان بنایا تھا اور ڈکٹیٹر جنرل مشرف کے ساتھ مل کر روشن خیال پاکستان بنایا تھا۔ اتنے سارے دھوکوں کے بعد بھی ہمارے حکمرانوں کی ڈھٹائی کا یہ عالم ہے کہ وہ ہمارے ساتھ پھر وعدے کرتے ہیں۔ اور ہم ہیں کہ ان کے کہنے پر ہر دفعہ پھر ٹرک کی بتی کے پیچھے لگ جاتے ہیں۔

ہمارے حکمرانوں کا یہ اعتماد ہماری جہالت یعنی اس تعلیم کی وجہ سے جس نے ہمیں سوچ سے عاری کر دیا ہے۔ ہم کوڑا چننے والے بچے کی سائیکل کے کیریئر پر لدی محرومیوں پر شرمندہ نہیں ہوتے اور اس کی سائیکل کے ہینڈل پر لگے جھنڈے پر فخر ضرور کرتے ہیں۔

سلیم ملک

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سلیم ملک

سلیم ملک پاکستان میں شخصی آزادی کے راج کا خواب دیکھتا ہے۔ انوکھا لاڈلا کھیلن کو مانگے چاند۔

salim-malik has 355 posts and counting.See all posts by salim-malik