بھکاری بنتا پاکستان


شعبان چوہدری

\"Shaban\"قرضے لینا اب ایک طرح سے ہماری حکومت کی بیماری بن گئی ہے۔ ایسی بیماری جس کا کوئی علاج نہیں۔ ہوا کچھ یوں کہ بہت سے حکمران اس مستفید ہوئے اور غریب روٹی سے محتاج۔ حالیہ دنوں میں وزیراعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف صاحب نے سکھر میں اک جلسہ عام سے خطاب فرمایا جس کی کل لاگت تقریباً دو کروڑ تھی اور یوں دو گھنٹوں میں دوکروڑ روپے خرچ ہوئے یا یوں کہئے کہ ضائع کئے گئے۔ بظاہر تو ان جلسوں سے کوئی بہتری ہوتی ہوئی نظر نہیں آرہی، کہاں ترقی ہورہی ہے کس جگہ ہورہی ہے کس میدان میں ہورہی ہے اس کا کسی کو علم نہیں اور ہوگا بھی کیسے؟

ایک جلسے پہ دوکروڑ کی آنیوالی لاگت سے آپ اس بات کا بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ باقی ہونیوالے جلسوں پہ اخراجات کا خرچ کتنا ہوگا۔ سوئٹرز لینڈ سے پاکستان کی لوٹی ہوئی دولت واپس لائیں گے، قومی دولت لوٹنے والوں کو سڑکوں پہ گھسٹیں گے، لوڈشیڈنگ ختم کریں گے، غریبوں کو اُن کا حق ملے گا نیز روٹی،کپڑا اور مکان وغیرہ جیسے وہ کھوکھلے وعدے تھے اگر کسی کو یاد ہو جو میاں صاحبان نے اور باقی لیڈروں نے بھی معصوم عوام سے کئے تھے.

ہماری حکومت کی نااہلی دیکھ لیں کہ مانسہرہ میں گیس کے منصوبے کا افتتاح چوتھی بار ہو رہا ہے. تعجب کی بات یہ ہے کہ ہر بار اس منصوبے کا افتتاح وزیر اعظم صاحب نے خود اپنے دست مبارک سے کیا مگر یہ پایہ تکمیل کو نہ پہنچا، کیوں نہیں پہنچا اس کا پتہ نہیں۔

ہر جلسے میں ایک نئے منصوبے کی بنیاد رکھی جاتی ہے مگر پایہ تکمیل تک پہنچايا نہیں جاتا، آخر کیوں؟

جہاں معدے کے علاج کے لیے بھی لندن جانا پڑتا ہے اور ظاہر ہے کہ علاج کا خرچ بھی عوام کی جیب سے ہی ادا ہوتا ہے. ایسے میں اوروں کے سامنے ہاتھ پھیلانا ہمارے حکمرانوں کی مجبوری ہے. بیچارے ملکی ترقی کے لیے اتنے دردمند ہیں کہ آج تک اپنے علاج کے لیے اک ہسپتال بھی نہیں بنا سکے.

ہر سال واپڈا، سٹیل ملز، ریلوے اور دیگر اداروں سے حکومت کو اربوں روپے کا نقصان پہنچ رہا ہے. اگر یہی ادارے بہترین کارکردگی اور قائدانہ صلاحتیوں سے کام کریں تو اتنا ہی بجٹ ہر سال حکومت کو ادا کر سکتے ہیں۔

جب ہم آئی،ایم،ایف یا ورلڈ بینک سے قرضے لیں تو وہ ہماری پوری معشیت کو اپنی گرفت میں لے لیتے ہیں اور پُرانی حکومت کے جاتے ہی نئی حکومت وہ تسلسل برقرار نہیں رکھ پاتی اور یوں ہمیں دوبارہ ہاتھ پھیلانے پڑ جاتے ہیں

چاہ بہار سے افغانستان اور وسط ایشیائی خطے تک موٹروے اور ریلوے نظام کیلئے انڈیا کروڑوں ڈالر ایران کو فراہم کررہا ہے تاکہ خطے میں اپنے اثررسوخ بڑھا سکے. یہ ہے اک غریب ملک کا حال اور ادھر ہمارے حکمران جلسوں میں اپنی آف شور کمپنیاں اور آف شور اکاوُنٹس کو کلئیر کروانے کے لیے عوام کو پانامہ لیکس کے حوالے سے صفائی دینے میں مشغول ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).