صدر پاکستان کو مار پڑی ہے


قصہ کہنے والے بتاتے ہیں کہ راج برطانیہ کے زمانے میں ایک بڑا جاگیردار اپنے حلقے کے گرداور سے بہت تنگ آیا اور اس نے بدلہ لینے کی ٹھانی۔ گرداور اپنا سرکاری دورہ کرنے اس علاقے میں گیا تو جاگیردار نے اپنے کارندوں کے ذریعے باہر درخت سے بندھی اس کی گھوڑی چوری کروا دی۔ جاگیردار کا خیال تھا کہ اب ضلعے کا بادشاہ یعنی انگریز ڈپٹی کمشنر اس گرداور کو نوکری سے برخواست کر دے گا کہ وہ سرکاری مال چوری کروا بیٹھا ہے۔

گرداور نے رپورٹ درج کروائی۔ حسب توقع معاملہ فوراً ڈپٹی کمشنر تک جا پہنچا۔ ڈپٹی کمشنر نے پورا ضلع ہلا ڈالا کہ یہ ایک معمولی سرکاری اہلکار کی نہیں بلکہ ملکہ برطانیہ کی گھوڑی چوری ہوئی ہے اور تاج برطانیہ کا رعایا پر رعب اور وقار قائم رکھنا ہے تو مجرم کو ہر قیمت پر پکڑا جائے۔ انگریز اپنے نچلے گریڈ کے سرکاری اہلکاروں کو بھی اپنے تاج کا نمائندہ سمجھتا تھا اور یہ برداشت نہیں کرتا تھا کہ تاج برطانیہ کی توہین ہو۔ روایت ہے کہ مجرم پکڑا گیا اور اس کے بعد دور دور تک ملکہ برطانیہ کی املاک چوری کرنے کی جرات کسی نے نہیں کی۔

انگریز کے دور میں مشہور تھا کہ ایک نہتا سپاہی پورے گاؤں کو رسی سے باندھ کر تھانے لے جا سکتا تھا۔ کسی میں جرات نہیں ہوتی تھی کہ اس سے غنڈہ گردی کرے کیونکہ ایسا کرنے کی صورت میں ریاست کی جانب سے اپنے نمائندے کی تذلیل پر جو رد عمل آتا وہ گاؤں کے لئے ناقابل برداشت ہوتا۔

ملکہ کی اس گھوڑی سے زیادہ مشہور قصہ پشاور کے ایک امیر ٹھیکیدار اور ایک معمولی تھانیدار کا ہے۔ روایت ہے کہ پشاور کے تھانہ ہشت نگری کی حدود میں ایک متمول فوجی ٹھیکیدار کے بیٹے نے ایک شخص کو قتل کر دیا۔ ٹھیکیدار نے تھانیدار کو رشوت دے کر چالان نرم کروانے کی کوشش کی مگر تھانیدار نے رشوت لینے سے انکار کیا اور کہا کہ قانون کے مطابق فیصلہ ہو گا۔ مجرم کو سزائے موت ہو گئی۔ عدالتوں سے اس کی توثیق ہو گئی۔ ٹھیکیدار نے جنگی فنڈ میں لاکھوں روپے چندہ دیا ہوا تھا۔ اس نے انگریز حکام سے معافی کی اپیل کی جو مسترد ہو گئی۔ کسی خیرخواہ نے اسے مشورہ دیا کہ لندن میں شاہ برطانیہ کی تاجپوشی کے جشن میں شرکت کرے اور وہاں تاج برطانیہ کے لئے اپنی خدمات بتا کر بیٹے کے لئے معافی حاصل کر لے۔ شاہ برطانیہ تاج برطانیہ کے لئے ٹھیکیدار کی خدمات اور سفارشی خطوط دیکھے تو اس نے معافی نامے پر دستخط کر دیے اور مجرم پھانسی کے تختے سے بچ نکلا۔

بعد میں ایک دن تھانیدار اپنے علاقے میں گشت پر تھا تو ٹھیکیدار نے اسے دیکھتے ہوئے زمین پر تھوکا اور کہا کہ تمہیں تمہارے قانون کی اوقات دکھا دی، اب تمہاری پیٹی بھی اترواؤں گا جس پر تم اتراتے پھرتے ہو۔ تھانیدار اسی شام گورنر سرحد کے دربار میں پہنچا اور اسے سیلوٹ کر کے اپنا استعفی اس کے حوالے کیا اور اپنی بیلٹ اتار کر اس کے سامنے میز پر رکھ دی کہ اگر ریاست کی وردی کی یہ اوقات ہے تو مجھے اس طرح گلیوں کوچوں میں ذلیل ہونے کا کیا فائدہ۔

گورنر نے وائسرائے سے رابطہ کر کے معافی کی منسوخی کی درخواست کی۔ وائسرائے نے مجبوری ظاہر کی کہ بادشاہ کی دی ہوئی معافی کو کیسے منسوخ کرنے کے لئے کہا جا سکتا ہے، بادشاہ بھی بھلا کبھی اپنی بات سے پھرا کرتے ہیں؟ گورنر نے جب معاملہ واضح کیا کہ یہ ریاست کی تحقیر کا معاملہ ہے تو وائسرائے نے بادشاہ سے رابطہ کیا اور بادشاہ نے ریاست کے وقار کی خاطر اپنا وقار ایک طرف رکھتے ہوئے معافی نامہ واپس لیتے ہوئے سزائے موت پر فوری عمل درآمد کا حکم دیا۔

تاج برطانیہ اپنے اہلکاروں کے پیچھے ایسے ہی کھڑا ہوتا تھا اور یہی اس کے بہترین نظام کی وجہ تھی کہ چند ہزار انگریز بھی کروڑوں ہندوستانیوں پر حکومت کرنے میں کامیاب رہے۔ ریاست کی رٹ قائم کرنے کے لئے ریاستی نمائندوں کے پیچھے ریاست کا کھڑا ہونا لازم ہے۔

اب ہمارے ہاں الٹی گنگا بہنے لگی ہے۔ خاص طور پر وکلا تحریک کے بعد سے تو کچہری میں سرکاری وردی پہنے ڈیوٹی دیتے پولیس والے وکلا سے مار کھاتے دکھائی دینے لگے تھے۔ پھر عمران خان کے دھرنے میں عام اہلکار تو ایک طرف عصمت اللہ جونیجو جیسا نیک نام ایس ایس پی بھی ہجوم کے تشدد کا نشانہ بنا۔ اب خبر آئی ہے کہ صحافی بھی پولیس والوں کو ان کے اپنے دفتر میں گھس کر دھونے کے اس کارِ خیر میں شریک ہو چکے ہیں۔

پولیس والوں کو رشوت سے روکنا اور اپنے فرائض تندہی سے سرانجام دینے پر مجبور کرنا ریاست کے لئے اہم ہے۔ لیکن اس سے بھی زیادہ اہم یہ ہے کہ کوئی سرکاری اہلکار اپنی ڈیوٹی کر رہا ہو تو کوئی شخص یا گروہ اس سے غنڈہ گردی کرنے کی جرات نہ کرے۔ ایک نہتا سپاہی پورے گاؤں کو رسی سے باندھ کر تھانے لے جانا چاہے تو گاؤں والوں کو پتہ ہو کہ اس سے مار پیٹ کرنے کا نتیجہ برا نکلے گا اور ریاست پوری قوت سے اپنے اس نمائندے کے پیچھے کھڑی دکھائی دے گی۔

کیا نئے پاکستان میں سرکاری اہلکاروں کو ریاست کا نمائندہ سمجھ کر ان کا ساتھ دیا جائے گا یا پھر وہ اپنی ڈیوٹی کرنے کی بجائے آرام کیا کریں؟ کیا سرکاری ڈیوٹی دیتے ہوئے پولیس والے کو مار پڑے تو اسے ویسے ہی صدر پاکستان کو مار پڑنے کے مترادف قرار دیا جائے گا جیسے گرداور کی گھوڑی چوری ہونے پر یہ سمجھا گیا تھا کہ ملکہ برطانیہ کی گھوڑی چوری ہوئی ہے؟

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar