کیا واقعی الیکٹیبلز کامیابی کی ضمانت ہیں؟


پرنٹ، سوشل میڈیا اور الیکٹرونک میڈیا پر ہم ہر روز سنتے ہیں کہ تحریک انصاف کو پیسے والوں نے ہائی جیک کر لیا ہے لیکن حالیہ الیکشن کے نتائج اس کی نفی کر رہے ہیں۔ دو دن سے جیو نیوز پر ایک خبر نشر ہو رہی ہے جس میں بتایا جا رہا ہے کہ ”تبدیلی آ گئی ہے“۔ حلقہ این اے 41 باجوڑ سے تحریک انصاف کے ٹکٹ پر ایک چائے والا گل ظفر خان ا ایم این اے بن گیا ہے۔ یہی نہیں خیبر پختون خوا کے ضلع کرک سے بھی انصاف اسٹوڈنٹس فیڈریشن کا ممبر تحریک انصاف کے ٹکٹ پر ایم این اے بن گیا ہے۔ جس کے بارے معلوم ہوا ہے کہ اس کی پی ایچ ڈی کی فیس اس کے کلاس فیلوز نے اکٹھی کر کے جمع کروائی۔ جب اسے عمران خان نے ٹکٹ دیا تو کمپین کے لیے وسائل نہیں تھے، دوستوں نے پھر مدد کی اور موٹر سائیکل خرید کر دی۔

شوکت یوسف زئی پچھلی صوبائی حکومت میں وزیر رہے اس بار انھیں بھی کمپین کے لیے چندہ اکٹھا کرنا پڑا۔ اس بات کا انکشاف انھوں نے کل اپنے بیان میں کیا، جب الیکشن کمیشن نے پی کے 23 شانگلہ کا الیکشن اس بنیاد پر کینسل قرار دے دیا کہ حلقہ میں خواتین کا ٹرن آؤٹ دس فی صد سے کم رہا۔ یہی نہیں پی پی کے گڑھ سمجھے جانے والے لیاری سے بلاول بھٹو کو شکست دینے والا شکور شاد بھی عامتہ الناس سے ہیں۔ کسی سردار، وڈیرے یا بزنس مین کا بیٹا نہیں۔ این اے190 ڈی جی خان سے لغاریوں اور کھوسوں کو شکست کسی دوسرے وڈیرے یا پرانے سیاست دان نے نہیں دی، بلکہ تحریک انصاف کی ایک نوجوان لڑکی زر تاج گل نے دی ہے۔

زر تاج گل کے ٹکٹ کی پیچھے ڈی جی خان کے وڈیرے لگے رہے کہ کسی طرح اس سے یہ ٹکٹ چھین لیا جائے لیکن خان صاحب نے کہا کہ یہ ٹکٹ زر تاج کا حق ہے، اسی کو ملے گا۔ حتی کہ این اے 192 سے تحریک انصاف کا امیدوار سردار ذوالفقار کھوسہ اپنے بیٹے دوست محمد کھوسہ سابق وزیر اعلی پنجاب (جو کہ آزاد لڑ رہا تھا) کی کمپین میں بھی شامل ہوتا رہا۔ یہی وجہ تھی کہ ڈی جی خان نے اس منافقت پر اس کے مقابلے میں آزاد امیدوار امجد کھوسہ کو کامیاب کروا دیا اور وہ تحریک انصاف میں شامل ہو گیا۔ اس کے علاوہ کوٹ ادو سے نوجوان شبیر قریشی دس سال سے پارٹی کے لئے محنت کر رہا تھا لیکن ٹکٹ غلام مصطفی کھر کو دے دی گئی اور وہ معاشی حالات کا بہانہ بنا کر گھر بیٹھ گیا۔ اس کے دوستوں نے بھی گھر بیٹھنے نہ دیا اور اس کو آزاد الیکشن لڑوا کر غلام مصطفی کھر جیسے ہیوی ویٹ کو شکست دی۔

اوپر دی گئی تمام مثالیں تحریک انصاف کے نوجوان ورکرز کی ہیں، جو پارٹی کے ساتھ مخلص تھے کچھ کو پارٹی نے ٹکٹ دیا، وہ جیت گئے اور چند ایک نے پارٹی کے غلط فیصلے کو ماننے کی بجائے حق کی جنگ لڑی اور جیت گئے۔ ان کے علاوہ بھی تحریک انصاف کے نوجوان لیڈر کامیاب ہوئے ہیں۔ انصاف اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے سابق صدر فرخ حبیب نے فیصل آباد کے مضبوط گھرانے چودھری شیر علی کے صاحب زادے عابد شیر علی کو شکست سے دو چار کیا۔ چودھری نثار کو ایم پی اے کی سیٹ پر ہرانے والا واثق قیوم عباسی بھی نوجوان تھا، سرگودھا سے عنصر مجید نیازی اور ان کے علاوہ بھی بڑی تعداد میں مثالیں موجود ہیں۔

دوسری طرف جہانگیر ترین اور شاہ محمود قریشی کے نام نہاد ”الیکٹیبلز“ بری طرح شکست سے دو چار ہوئے۔ ان میں سر فہرست ندیم افضل چن، نذر محمد گوندل، فردوس عاشق اعوان؛ گوجرانوالہ سے مسلم لیگ نون سے تحریک انصاف میں آنے والے دو ایم این اے رانا نذیر اور میاں طارق محمود بھی شامل ہیں۔ ڈی جی خان سے سردار ذوالفقار کھوسہ، کوٹ ادو سے غلام مصطفی کھر، خانیوال سے رضا حیات ہراج، احمد یار ہراج، سرگودھا سے اسامہ غیاث میلہ، ڈاکٹر نادیہ عزیز، عامر سلطان چیمہ، قاسم سیالوی۔ فیصل آباد سے ڈاکٹر نثار جٹ، بلال ورک این اے 117 سے محمد شاہ کگھہ، خدیجہ عامر، ظاہرہ باسط بخاری وغیرہ۔

مجموعی طور پر تحریک انصاف نے پنجاب میں قومی اسمبلی کے 42 ٹکٹ ان ”الیکٹیبلز“ کو دیے جن میں سے صرف 20 جیت سکے۔ سینٹرل پنجاب سے علیم خان کے الیکٹیبلز 42 میں سے صرف سات قومی اسمبلی کی نشستیں جیت سکے۔ اس لحاظ سے الیکٹیبلز کی سیاست خاطر خواہ کام یابی حاصل نہیں کر سکی۔ اگر زر تاج گل، فرخ حبیب، شبیر قریشی بڑے بڑے الیکٹیبلز کو ہرا سکتے ہیں، تو باقی ماندہ شہروں میں بھی نوجوان اور نئی قیادت سے بہتر نتائج آ سکتے تھے۔

یہ ان لوگوں کے لیے پیغام ہے جو کہتے تھے کہ الیکٹیبلز کے بغیر پنجاب جیتنا ناممکن ہے۔ عوام اب اتنے باشعور ضرور ہو چکے ہیں، کہ چہرہ دیکھ کر ووٹ دیں۔ نظریے کو ووٹ ملا ہے اور اگر اسی طرح نظریاتی لوگوں کو آگے لایا جاتا تو نتائج اس سے بھی اچھے آ سکتے تھے۔ خان صاحب کو بھی اب سوچنا چاہیے کہ کیسے ان الیکٹیبلز سے جان چھڑا کر نظریاتی لوگوں کو ان کے متبادل کے طور پر لایا جائے۔ الیکٹیبلز تو ہوا کا رُخ دیکھ کر پارٹی بدل لیتے ہیں، جب کہ نظریاتی اپنے نظریہ پر قائم رہتا ہے۔

قمر زمان کائرہ کو تحریک انصاف میں شمولیت کی دعوت کئی بار دی گئی تھی، لیکن انھوں نے آنے سے انکار کر دیا اور 53 ہزار کی لیڈ سے ہارے۔ جس دن نظریاتی سیاست الیکٹیبلز پر بھاری پڑ گئی، سیاسی جماعتیں بھی سکھ کا سانس لیں گی، ورنہ سیاسی اصطبل میں گھوڑے اسی طرح بکتے رہیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).