اکہترواں سال؛ ہم کہاں کھڑے ہیں؟


یہ تو ہم سب جانتے ہیں کہ چودہ اگست پاکستان کے قیام کا دن ہے۔ ہمیں یہ علم بھی ہے کہ اس دن کو دنیا کے نقشے پر پاکستان نام کا ایک ملک معرض وجود میں آیا تھا۔ لیکن اس بارے میں شاید ہم نے بہت کم سوچا ہوگا، کہ اکہتر سال کا طویل عرصہ گزرنے کے باوجود ہم آج بھی سیکھنے کے موڈ میں کیوں نہیں ہیں؟ یا یوں کہیے کہ ایک معمر پاکستان میں رہتے ہوئے بھی ہمارے ہاں کیوں کر وہی فاش غلطیاں دہرائے جاتے ہیں، جو ایک نونہال پاکستان کے وقت دہرائے جاتے ہیں؟ بالخصوص وہ لوگ تو سرے سے اس طرف دھیان بھی نہیں دیتے، جن کا شمار ارباب حل و عقد میں ہوتا ہے۔ جنھوں نے آزادی کے ابتدائی برسوں میں اس ملک کو غلط رخ کی طرف موڑنے کا نہ صرف ارادہ کیا تھا، بلکہ اسے عملی جامہ بھی پہنا کر دم لیا۔

گو کہ ہم اس وقت جناح اور اقبال اور نہ ہی لیاقت علی خان کے پاکستان میں رہتے ہیں۔ سچی بات یہ ہے کہ ہم آئین کے ہوتے ہوئے ایک بے آئین پاکستان میں رہتے ہیں اور قانون کو سمجھنے کے باوجود لاقانونیت میں پنپ رہے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ بدعنوانی، اقربا پروری اور لالچ کو ممنوع سمجھنے کے باوجود ہم ڈنکے کی چوٹ پر اس کا ارتکاب کررہے ہیں۔ ہم جمہوریت کو بہترین نظام کہہ کہہ کر بھی آمریت کے لیے سبیل نکال رہے ہیں۔

مشرقی بازو گنوا کر پینتالیس سال سے ہم ہر دسمبر کو اس دن کا ماتم تو کرتے ہیں لیکن اس سے سبق نہیں لینے کے موڈ میں نہیں ہیں۔ بے شک، اس بازو کو جدا کرنے میں اُن دشمنوں کا ہاتھ بھی تھا، جو شروع دن سے نظریہ پاکستان کو خلیج بنگال میں ڈبو دینے کے متمنی تھے، لیکن سب سے اہم سوال یہ ہے کہ ہمارے حکمران اگر گھمنڈ میں مبتلا نہ ہوتے تو کیا پھر بھی ”نظریہ پاکستان کوخلیج بنگال میں ڈبو دینے“ کا اندرا گاندھی کا خواب شرمندہ تعبیر ہو پاتا؟

ہمارے جرنیلوں کے دلوں میں اگر اپنے بنگالی بھائیوں کے لیے رتی بھر وقعت ہوتی تو کیا پھر بھی سقوط ڈھاکا ساقط ہو پاتا؟ جس مسلم لیگی قیادت کی کاوشوں سے ہمیں یہ ملک ملا تھا اس کی بنیاد ڈھاکا میں رکھی گئی تھی اور تئیس مارچ 1940 کی قرار داد کے محرک اسی بنگال کے مولوی فضل الحق ہی تو تھے۔

آخر ایسے علل و اسباب تو ضرور تھے، جس نے شیخ مجیب اور بنگالیوں کو بالآخر چھہ نکات کا آپشن لانے پر مجبور کر دیا۔ پاکستان کے قیام سے لے کر 1969 تک کے بائیس سالہ عرصے میں مشرقی پاکستان میں ایک بھی ایسے چیف سیکرٹری کانام کوئی نہیں بتا سکتا جو نسلی اعتبار سے بنگالی ہو۔ ان تئیس سالوں میں مشرقی پاکستان کی پندرہ نام زد گورنروں میں سے کتنوں کا تعلق مشرقی پاکستان سے تھا؟ حقیقت یہ ہے کہ شیخ مجیب پاکستان سے آزادی نہیں چاہتے تھے بلکہ صوبائی خود مختاری چاہتے تھے۔ چھہ نکات کی شکل میں انھوں نے معقول اور جائز مطالبات پیش کر کے مجیب نے انھی جائز حقوق مانگنے کا مطالبہ کیا تھا، جو مغربی پاکستان کے چوالیس فی صد عوام کو حاصل تھے، لیکن جب ہمارے مستند حاکموں نے مذکورہ مطالبات کو تسلیم کرنے کی بجائے بنگالی بھائیوں کو دھمکانے پر اتر آئے، جس کے بعد بنگالی بھی ہمارے ان دشمنوں کی طرف دیکھنے لگے جو پہلے سے تاک میں بیٹھے ہوئے تھے۔

بے شک جغرافیائی اور لسانی تفاوتیں، مشرقی اور پاکستان کے درمیان اتحاد کے حق میں نہیں تھیں لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں تھا کہ خوام خواہ بنگالیوں کو اپنانے کی بجائے الگ کرنا مسئلے کا حل تھا۔ مرحوم مجید نظامی لکھتے ہیں کہ ”مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان کے بیچ میں جغرافیائی فاصلے ضرور موجود تھے، لیکن 1951 سے 1970 تک فوجی جرنیلوں، بیورو کریٹس اور اکثر سیاست دانوں نے استحصال پر مبنی سیاسی، سماجی اور معاشی فیصلے کر کے پاکستان کے دونوں حصوں میں بسنے والے شہریوں کے دلوں اور ذہنوں کے درمیان بھی فاصلے پیدا کر دیے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلاکہ ستر کے انتخابات میں نہ تو مغربی پاکستان کی کسی سیاسی جماعت کو مشرقی پاکستان میں اور نہ پھر مشرقی پاکستان کی کسی سیاسی جماعت کو مغربی پاکستان میں ایک بھی نشست پر کام یابی ملی۔

حمود الرحمن کمیشن رپورٹ میں مغربی پاکستان کے جن جرنیلوں، فوجی آفیسروں اور کچھ سیاست دانوں پر مقدمات چلانے کی سفارش کی گئی تھی، لیکن کیا کسی پر مقدمہ چلایا گیا یا موت کے بعد بھی انھیں پوری شان و شوکت اور قومی اعزاز کے ساتھ دفنایا گیا۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اکہتر جیسا دل خراش سانحہ پیش آنے کے باوجود ہمارے حاکموں نے بعد میں کوئی ندامت محسوس کی یا کچھ ہوش کے ناخن لیے؟ اس سوال کا جواب بھی ہم کو نفی میں ملتا ہے، کیوں کہ اس ملک کو چلانے کے لیے 1973 کے جس تاریخی دستاویز (آئین)کو ہم نے بالاجماع ایک مقدس دستاویز تسلیم کیا تھا، کی وقتاً فوقتاً دھجیاں اڑائی گئیں۔ کیا یہ جنرل ضیا کے الفاظ نہیں تھے کہ آئین محض ایک کتابچہ ہے جسے میں پھاڑ سکتا ہوں اور کہ سکتا ہوں کہ کل سے ہم ایک نئے نظام کے مطابق چلیں گے۔ کیا انھوں نے یہ نہیں کہا تھا کہ سیاست دان اپنی دُم ہلا ہلاکر میرے پیچھے آئیں گے؟

ایک بنیاد پرست جرنیل کے طور پر ضیا نے اسلام کے مقدس دین کو سیاسی اہداف کے حصول کیے لیے قابل رحم حد تک استعمال کیا۔ افغانستان کی سرزمین پر روس کے خلاف امریکا کا فرنٹ لائن اتحادی بن کر یہ نہیں سوچا کہ مستقبل میں یہی امریکا افغان پاک خطے میں اپنی تھانیداری کے لیے پر تول رہا ہے۔ اور پھر اسی قبیل کے ایک جرنیل نے بھی اپنے نو سالہ دور میں نہ صرف آئین اور عدلیہ پر شب خون مارا بلکہ دہشت گردی کے برائے نام جنگ میں امریکا کا فرنٹ لائن اتحادی بن کر ملک کو نہ ختم ہونے والے خود کش حملوں کا تحفہ دے کر دم لیا۔ حیف، ہم نے ابھی کچھ نہیں سیکھا ہے۔ ہمارے یہاں پچھلی دو جمہوری حکومتوں نے اپنی مدت ضرور پوری کی تاہم صحیح بات یہ ہے کہ اس وقت بھی ایک جدید یا بقول کسے ”کمپیوٹرائزڈ“ شکل میں ماضی کے آمروں کی تقلید ہو رہی ہے، جو کسی طور بھی پاکستان، جمہوریت اور عوام کے مفاد میں نہیں ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).