پاکستان کیلئے لبرل شعور ہی کیوں بہترین بیانیہ ہے ؟


اب یہ ترقی پسند دانشور مسلم لیگ یا جماعت اسلامی میں تو نہیں جاسکتے تھے۔ مجبورا پیپلز پارٹی جیسی ملٹی کلاس سیاسی پارٹی میں چلے گئے۔ 1970 کے زمانے میں ترقی پسند ادیبوں کا ایک مقبول اخبار بھی نکلا جس کا نام آزاد اخبار تھا۔ حمید اختر، عبدللہ ملک اور آئی ائے رحمان اس اخبار کے خالق تھے۔ یہ وہ واحد لیفٹ کا اخبار تھا جو بنگالیوں کے حقوق کی بات کرتا تھا۔ کہتا تھا کہ ان کے ساتھ زیادتی ہورہی ہے۔ یہ وہ اخبار تھا جس نے بنگال میں فوجی ایکشن کے خلاف بات کی۔ جس نے یحیی خان کے مارشل لاٗ کے خلاف لکھا۔ اسی اخبار نے انیس سو ستر کے انتخابات کے بعد لکھا تھا کہ آزمائش آچکی ہے۔ بھٹو، مجیب الرحمان مل جائیں۔ ورنہ حالات بدترین ہو جائیں گے۔ یہ دونوں اقتدار چاہتے تھے۔ لڑ پڑے، پھر نتیجہ بنگلہ دیش کی صورت میں بر آمد ہوا۔

ترقی پسندوں نے ہمیشہ بنگالی کے حقوق کی بات کی، ولی خان جیسی ترقی پسند جماعت کے خیال و فکر کو پاکستانیوں تک پہنچایا ترقی پسندوں نے ہمیشہ کہا کہ گیارہ اگست کی جناح کی تقریر پر عمل نہ کیا گیا تو پاکستان انتہا پسندی کا گڑھ بن جائے گا اور ایسا ہی ہوا۔ جنرل ضیاٗ جیسے آمر کے زمانے میں جتنا بھی مزاحمتی ادب سامنے آیا، یہ سب ترقی پسند ادیبوں کی کاوش تھی۔ اس کے باوجود کہ الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا دائیں بازو کے کنٹرول میں ہمیشہ رہا ہے۔ طاقت و وسائل ہمیشہ دائیں بازو کی جماعت کے پاس تھے۔ طاقتور حلقوں نے ہمیشہ مسلم لیگ اور جماعت اسلامی کو طاقتور بنایا اور ان کا استعمال کیا۔

تشدد، انتہا پسندی کا متبادل نظام آج بھی ترقی پسند سوچ اور لبرل ازم ہے۔ اسٹیبلشمنٹ کی طاقت سے نجات کا ذریعہ صرف لبرل سوچ میں ہی ہے۔ پاکستان کی تباہی کے پیچھے ضیاٗ کے نصاب تعلیم کا ہاتھ ہے۔ اس نصاب میں نفرت کا درس ہے، اس میں تضادات ہیں، نفرت اور تعصب ہے، یہود و ہنود کا فلسفہ ہے، اس نصاب تعلیم کی وجہ سے پاکستان کے انسانوں کا رویہ انتہا پسندانہ ہے۔ اب بھی موقع ہے کہ پڑھے لکھے اور سمجھدار انسان سامنے آئیں، اس متعصبانہ نصاب تعلیم کے خلاف تحریک چلائیں، ترقی پسند سوچ کو نصاب تعلیم کا حصہ بنائیں، تب ہی جاکر ہمارا رویہ بدلے گا، پھر کہیں جاکر ہم انسانوں کی بات کریں گے، پھر ہی جاکر مشعال جیسے انسانوں کا قتل عام رکے گا۔ اس کے لئے جدو جہد کرنی ہوگی، ترقی پسند سوچ کے لئے پروگرامز ترتیب دینے کی ضرورت ہے۔

ترقی پسند ادیبوں سے مشاورت کرنے کی ضرورت ہے۔ ترقی پسند سوچ و فکر کے لئے لائحہ عمل مرتب کرنے کی ضروت ہے۔ ملٹری ڈکٹیٹرشپ کا خاتمہ بھی لبرل سوچ سے ہی ممکن ہے۔ درست اور ترقی کا راستہ صرف ترقی پسندانہ لبرل سوچ میں پوشیدہ ہے۔ لیکن اس راستے میں بڑی مشکلات اور مسائل حائل ہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ اس وقت پاکستان میں ایک بھی ایسی سیاسی جماعت نہیں جو لبرل سوچ کی حامل ہو، مسلم لیگ ن سے پیپلز پارٹی اور پی ٹی آئی تک سب ہی کسی نہ کسی حد تک دائیں بازو کی جماعتیں ہیں۔ اس وقت ایک لبرل اور لیفٹ کی سیاسی جماعت کی تشکیل کی ضرورت ہے۔ نیا سوشل کنٹریکٹ ترتیب دینے کی ضرورت ہے جس کی بنیاد انسانیت اور پروگریسو فکر پر مبنی ہو۔ اس طرح سے ہی انتہا پسندی اور تشدد کا راستہ روکا جاسکتا ہے۔

یہ جو بدترین حالات ہیں، اس کے ہم خود ذمہ دار ہیں۔ ہمارا قومی رویہ جان بوجھ کر سازشی نظریات پر استوار کیا گیا ہے۔ افغان وار نے سوویت یونین کا شیرازہ نہیں بکھیرا تھا۔ یہ تو روس کا اندرونی نظام تھا، جس کی وجہ سے وہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوا۔ سوویت یونین کے آمرانہ اور بیورو کریٹک نظام نے کارل مارکس کو شکست دی۔ ورنہ کارل مارکس کو کبھی شکست نہ ہوتی۔ افغان وار کی وجہ سے ہمارے طاقتور لوگوں نے مال بنایا۔ جہادی پیداکیے جو آج ہمارے گلے پڑے ہوئے ہیں۔ اگر ان کی سرپرستی نہ کی گئی ہوتی تو ہمارا سماج ایسا نہ ہوتا۔ اب ان کا علاج صرف اور صرف لبرل شعور ہے۔ یہی بہترین بیانیہ ہے جس پر سوچنے کی ضرورت ہے۔ عمران خان کے لئے بہترین موقع ہے کہ وہ لبرل سوچ کی آبیاری کے لئے اقدامات اٹھائیں، لبرل شعور کی نشوونما کے لئے عمران خان صاحب پالیسی ترتیب دیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ عام انسان سمجھ گئے ہیں کہ جو بھی اسلام کا نام لیتا ہے، اس کے پیچھے اس کے اپنے مفادات ہوتے ہیں۔ آج عوام کی ہمدریاں انتہا پسندوں اور شدت پسندوں کے ساتھ نہیں۔ یہی موقع ہے کہ عوام کو انسانیت پر مبنی ترقی پسندانہ شاہراہ پر ڈالا جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2