تو پھر ایسے ہی جیو


’اپنی سوچ دبا کر رکھنے سے بڑی غلامی اور کیا ہے؟ ‘ (یوریپیڈیس)۔
’آزادیِ اظہار کے اس کے علاوہ کیا معنی ہیں کہ وہ کہنے کی آزادی ہو جو لوگ نہیں سننا چاہتے۔ ‘ (جورج اورویل)۔

اگر آزادیِ اظہار سلب ہوجائے تو پھر گونگوں بہروں کے ہجوم کو ایسے ہی ہانکا جاسکتا ہے جیسے بھیڑوں کے ریوڑ کو مذبح خانے کی جانب۔ ‘ (جورج واشنگٹن)۔
’مجھے کسی بھی آزادی سے پہلے آزادیِ ضمیر چاہئیے۔ ‘ (جان ملٹن)۔

’جو بھی کسی قوم کو غلام بنانا چاہے اسے ابتدا آزادیِ اظہار چھیننے سے کرنی چاہیے۔ ‘ (بنجمن فرینکلن)۔
’اگر ہم اپنی ہی حکومت پر تنقید نہیں کرسکتے تو پھر یہ حکومت ہماری کیسے ہوگئی؟ ‘ (مائکل ٹمپلٹ)۔

مفکرین و مدبروں کے اقوالِ زریں اپنی جگہ مگر مجھ جیسوں کو وزارتِ دفاع کے اس موقف سے صد فیصد اتفاق ہے کہ جیو چینل کے لائسنس کی صرف پندرہ دن کی معطلی اور ایک کروڑ روپے جرمانے کی سزا کافی نہیں۔

بالکل ایسے ہی جیسے سپریم کورٹ کے معزز جج جواد ایس خواجہ کے خلاف اسلام آباد میں راتوں رات لٹک جانے والے توہین آمیز پراسرار بینروں کے اصل محرکین کے بجائے یہ بینرز لکھنے والے تین غریب پینٹروں کی گرفتاری ناکافی ہے۔

بالکل ایسے ہی جیسے اعلیٰ عدالتی حکم پر 35 گرفتار شدگان کو غائب کرنے کا ذمہ دار وزارتِ دفاع کی جانب سے صرف ایک ماتحت صوبیدار کو قرار دینا ناکافی ہے۔
بالکل ایسے ہی جیسے آئین سے بغاوت کے الزام میں محض پرویز مشرف کو کٹہرے میں لانا کافی نہیں۔

بالکل ایسے ہی جیسے اسامہ بن لادن کی موجودگی اور ہلاکت کے اسباب و ذمہ داری کا تعین کرنے کے لیے ایبٹ آباد کمیشن رپورٹ کو سلیمانی ٹوپی پہنا دینا کافی نہیں۔
بالکل ایسے ہی جیسے بے نظیر بھٹو کے قتل کے بعد خانہ پری کے لیے چند غافل پولیس افسروں کی معطلی اور تین چار نو عمر لڑکوں کو مسلسل حراست میں رکھ کر سات برس سے اس مقدمے کو برف میں لگائے رکھنا کافی نہیں۔

بالکل ایسے ہی جیسے ایٹمی راز فروخت کرنے کے سکینڈل کا سارا ملبہ محض ڈاکٹر قدیر کے سر پر ڈال دینا ناکافی تھا۔
بالکل ایسے ہی جیسے کارگل مہم جوئی کو یہ کہہ کر بھلا دینا کافی نہیں کہ ہن دفع کرو، مٹی پاؤ یار۔
بالکل ایسے ہی جیسے حمود الرحمان کمیشن رپورٹ مرتب کروا کے اسے دیمک کے حوالے کر دینا کافی نہیں تھا۔

کسی اور پر بھلے مقدمہ چلے نہ چلے البتہ جیو چینل کے مالکان اور ادارتی عملے پر ملک دشمنی اور غداری کے الزام میں مقدمہ چلا کر عبرت ناک سزا دینے اور ناک کے بل کم از کم ایک لاکھ لکیریں نکلوانے کی اشد ضرورت ہے ورنہ کل کلاں کوئی اور آڑا ٹیڑھا ترچھا مقدس و معصوم دیوتاؤں کے منہ آسکتا ہے۔

ویسے بھی جب تمام میڈیا، سب کیبل آپریٹرز، ساری سیاسی و مذہبی و جہادی و کالعدم تنظیمیں اس نکتے پر بظاہر یا بباطن متفق ہیں کہ جیو ہی مجرم ہے تو پھر اسے مثالِ عبرت بنانے میں دیر کس بات کی؟

پیمرا بھلے خود مختار ادارہ صحیع لیکن خود مختار تو پی آئی اے اور سٹیل ملز وغیرہ وغیرہ بھی ہیں۔ اور ایسی خود مختاری کو لگے آگ جسے نظریہِ حب الوطنی اور پاک وطن کے پاک اداروں کی عزت سے بھی بڑھ کر سمجھا جائے۔

جہاں تک معاملہ ہے جیو اور اس کے والدِ بزرگوار جنگ گروپ کا تو کون کہتا ہے کہ وہ دودھوں دھلے ہیں۔ اس ادارے نے سڑسٹھ برس میں جو بویا وہی تو کاٹ رہا ہے۔ اس نے حریف اداروں کو طرح طرح سے نیچا دکھانے کی جو کاروباری ترکیبیں بوئیں اور جس طرح گردن میں موقع پرستی کا سریا لگا کے رکھا آج اسی کی نوک تو چبھ رہی ہے۔

پھر بھی میں والٹئیر کا کروڑوں مرتبہ دھرایا جانے والا قول دھرانا چاہتا ہوں کہ ’میں تمہاری باتوں سے قطعاً متفق نہیں مگر تا مرگ تمہارے بولنے کے حق کا دفاع کروں گا‘۔

جیو کی معطلی سے قبل جنگ گروپ نے سو جوتے اور پھر سو پیاز کھا کر سب یاجوجوں ماجوجوں سے اپنے گناہوں اور غلطیوں کی جہازی سائز معافی مانگی۔ کیا ہی اچھا ہو کہ اگلی بحالی کے پہلے ہی دن اخبار کے فرنٹ پیج کا ایک حصہ پادری مارٹن نیمولر کی اس نظم کے لیے بھی وقف کردیا جائے۔

پہلے پہل وہ سوشلسٹوں کو پکڑنے آئے، میں چپ رہا، میں سوشلسٹ نہیں تھا
پھر وہ ٹریڈ یونینسٹوں کے پیچھے آئے، میں چپ رہا، میں ٹریڈ یونینسٹ نہیں تھا
پھر وہ یہودیوں کے تعاقب میں آئے، میں چپ رہا، میں یہودی نہیں تھا
پھر وہ مجھے لینے آ گئے، تب تک سناٹا مکمل ہو چکا تھا۔
8 جون 2014


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).