حکیم جی چٹنی!


پرانے وقتوں میں، جب زمانے نے اتنی ترقی نہیں کی تھی کہ بچے سمارٹ فون پہ پب جی کھیلیں، گرمی کی دوپہریں کاٹنی دوبھر ہو جایا کرتی تھیں۔ گھروں کے بڑے، ڈیزرٹ کولر چلا، کمرے بند کر پوری دوپہر بے سدھ سوتے تھے اور بچوں کے لشکر، بےسری فوج کی صورت گلیوں میں خاک اڑاتے پھرتے تھے۔

خاک بھی کہاں تک اڑاتے؟ جو دو ایک کھیل آتے تھے انھیں بھی کھیل کھیل کر جی اُوب جاتا تھا۔ تب بچوں کا دل پسند مشغلہ، محلے کے سب سے بد مزاج شخص کو چڑا کر بھاگنا ہوتا تھا۔ ہر محلے میں ایک نہ ایک شخص ایسا ضرور ہوتا ہے جو اپنے تئیں مقدس گائے تصور کرتا ہے اور ذرا سا بھی کچھ کہہ دینے پہ آگ بگولا ہو جاتا ہے۔

ایسے افراد، جانے کیوں بھری دوپہروں میں جب سب معقول لوگ نیند کے مزے لے رہے ہوتے تھے، بچوں کی مشقِ ستم بننے کو کہیں نہ کہیں نمودار ہو جاتے تھے۔ کسی محلے میں کوئی بدمزاج بڑی بی اور کہیں کوئی بڑے میاں۔ یوں تو عمر کی کوئی تخصیص نہیں ہوتی کسی بھی عمر میں انسان پہ سنک سوار ہوتے کیا دیر لگتی ہے، لیکن اکثر یہ کوئی بڑے میاں ہوتے تھے جو دیوانے بچوں کے ہاتھوں اپنی گت بنواتے تھے۔

کسی بزرگ کی چھیڑ، ’کھسے والے انکل‘ تھی، کوئی ‘چھڑی والے چاچا’ کہنے پہ برا مان جاتے تھے اور کسی سے صرف یہ کہنے پہ جوتے کھائے ہوئے ہیں کہ ‘انکل! آپ گاڑی کیوں دھو رہے ہیں؟ یہ تو آپ کا کام نہیں۔’ ان معصومانہ سوالوں پہ یہ شان و شوکت والے بزرگ، لکڑی، جوتا یا ڈنڈا جو انہیں میسر آتا تھا، لے کر مخاطب پہ پل پڑتے تھے۔

ایسا کرتے ہوئے وہ بالکل نہیں سوچتے تھے کہ ان کا مرتبہ، عمر اور شان ان بلونگڑوں کے منہ لگنے کا نہیں۔ قصور بچوں کا بھی تھا۔ بھلا یہ بھی کوئی کھیل ہوا؟ اپنے گھروں میں باپ، دادا نہیں ہوتے تھے جویہ محلے بھر کے جالے لیتے پھرتے تھے اور تیرے میرے منہ لگتے تھے؟

انہی دنوں، محلے کے بچوں نے چندہ کر کے ایک ڈراما سٹیج کیا، جس کا نام تھا، ‘حکیم جی چٹنی۔’ اس ڈرامے میں ایک حکیم صاحب دکھائے گئے جو بہت متحمل مزاج تھے۔ مگر محلے کی چنڈال چوکڑی نے ٹھانی کہ انھیں چڑا کر دم لیں گے۔ ایک روز صبح سے جو گاہک دکان پہ آتا، حکیم صاحب سے چٹنی مانگتا۔ پہلے پہل تو مسکرا مسکرا کر ٹالتے رہے لیکن جب پورا دن گزر گیا تو شام کو ان کا یہ حال ہو گیا کہ کوئی دور سے بھی پکارتا کہ حکیم جی چٹنی! تو لکڑی لے کر دوڑتے۔

ڈراما تو بہت مقبول ہوا، مگر محلے کے بد مزاج بزرگ بہت محتاط ہو گئے۔ کوئی بچہ سچ مچ بھی املی، آلو بخارے کی چٹنی خریدنے جاتا تو اسے نظر میں رکھ لیتے اور دنوں اس سے خائف رہتے، کہیں اندھیرے سویرے مل جاتا تو چپکے سے کان ہی اینٹھ لیتے کہ ڈرا رہے اور کہیں ہم پہ ہی یہ گر نہ آزما لے۔

وہ زمانہ گزر گیا اب دھیان آتا ہے کہ اگر وہ بزرگ بچوں کی باتوں کو اتنی اہمیت نہ دیتے اور اپنے کام کاج چھوڑ کے ان کے بنٹے کھیلنے اور پٹھو گرم کے میچوں میں کھنڈت نہ ڈالتے تو اپنی عزت رکھتے، بچوں کے ہاتھوں میں یوں کھلونا نہ بنتے۔ لیکن اس وقت اگر انہیں کوئی سمجھاتا تو وہ کب سمجھتے؟

زمانہ کہاں گزرتا ہے، کردار بدل جاتے ہیں۔ انسانی عقل کچھ معاملات میں زیادہ ترقی نہیں کرتی۔ میں دیکھتی ہوں کہ وہ گلیوں میں کھیلنے والے بچے، وہاں سے اٹھ کے کمپیوٹر اور سمارٹ فون کی سکرینوں کے آگے آبیٹھے ہیں۔ کچھ ٹیلی ویژن چینلوں اور اخباروں کے دفتروں میں جمے ہیں اور کڑی دوپہروں اور اندھیری راتوں میں،جب سب سکھ کی نیند سو رہے ہوتے ہیں یہ بد بخت، کہیں نہ کہیں سے نعرہ لگا دیتے ہیں’حکیم جی چٹنی!’

بعد میں روتے ہیں،چھڑیوں کے نشان دکھا کے ذی ہوش لوگوں کو پریشان کرتے ہیں اور بے وجہ کی ہمدردیاں سمیٹتے ہیں۔ آخر ایسی مار ہی کیا ہے کہ ‘حکیم جی’ کو چھیڑا جائے؟ مگر بات یہ ہے کہ ‘حکیم جی’ اگر چڑنا ہی چھوڑ دیں تو بچوں کو کوئی اور کھیل مل جائے گا اور ’حکیم جی’ کی دستار بھی سلامت رہ جائے گی۔

رونا اس بات کا ہے کہ نہ بچے چھیڑنے سے باز آئیں گے اور نہ ’حکیم جی ‘چھڑنے سے۔ یہ محلہ یوں ہی آباد رہے گا، کبھی ‘حکیم جی’ پیچھے اور بچے آگے اور کبھی بچے پیچھے اور ’حکیم جی’ آگے۔

ویسے مؤخر الذکر صورتحال نہ ہی آئے تو بہتر ہے۔ ‘حکیم جی ‘کی بھی کرکری ہو گی اور محلے کی ناک بھی کٹ کے وہ جا گرے گی۔ حکیم جی! اپنا نہیں تو محلے کی ناک کا ہی کچھ خیال کر لیجیے!

ایسی سبک ناک، پھر کہاں ملے گی ذرا سوچیے!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).