قائد اعظم کے پاکستان کے مجرم


تاریخ نویس اسٹینلے والپرٹ ’جناح کے پاکستان‘ میں لکھتے ہیں، کہ ’کچھ لوگ تاریخ کے دھارے کو تبدیل کردیتے ہیں۔ جب کہ اُن میں سے بھی کچھ دُنیا کے نقشے میں ترمیم کرتے ہیں۔ اُن میں سے بہت ہی کم لوگ نئی قومیت پر ملک تعمیر کرنے کا سہرا سر پہ سجاتے ہیں، اور جناح نے یہ تینوں کام کر دکھائے‘۔

بہت پہلے ہمارے چند دوستوں میں یہ بحث چھِڑی کہ ’مسلمان ایک قوم ہیں‘، اس بنیاد پر تقسیم ہند کا فیصلہ غلط تھا۔ اس پہ کئی طرح سے مکالمہ ہو سکتا ہے، اور ہوتا آیا ہے۔ میری رائے یہ ہے کہ اس وقت اگر مسلمانوں کے بجائے ہندو اقلیت میں ہوتے، تو بھی یہ مطالبہ اُٹھ کھڑا ہونا تھا، کہ ہمیں الگ وطن چاہیے، کیوں کہ ہم مسلمان اکثریت کے ہوتے اپنے حقوق کا تحفظ نہیں کرپائیں گے۔ سو مجھے اُن دوستوں سے ہمیشہ اختلاف رہتا ہے، جن کا کہنا ہے، کہ پاکستان کا قیام اسلام بچانے کے واسطے عمل میں آیا تھا، مسلمان کا یقین ہے کہ اسلام چودہ سو سال پہلے بھی تھا اور تاقیامت رہے گا۔ اس لیے یوں کہنا بجا ہوگا کہ پاکستان کا قیام ہندُستان کی سب سے بڑی اقلیت کے حقوق کے تحفظ کا سوال تھا۔

پھر یہ بھی دیکھنا ہوگا، کہ مسلمان کی ہندُستان پر حکومت کب تھی؟ یہ کہنے میں باک نہیں کہ ہندُستان پر کبھی بھی اسلامی راج نہیں رہا۔ وہ بادشاہ جو مسلمان گھرانوں سے تھے، وہ حکمران تھے؛ اسی کو ہم ہندُستان پر مسلمانوں کی حکومت کہتے ہیں۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے بھارت کے صدر ابو الکلام ہوں اور ہم کہیں بھارت پر مسلمانوں کی حکومت ہے۔ بادشاہوں کے ادوار میں رعایا وہ ہندو رہی ہو یا مسلمان، اس کی گزر بسر کیسے ہوتی تھی، اس کا احوال کیوں کر بیان ہو، کہ معروف بات ہے، تاریخ بادشاہوں کی ہوا کرتی ہے، رعایا کی نہیں۔

انگریز کی کالونی بننے کے بعد ہم جن بہت سی نعمتوں سے سرافراز ہوئے، ان میں جدید تعلیم، خیالات و نظریات سے آگاہی بھی ہے۔ عامی تعلیم حاصل کرکے سرکاری عہدہ پاتے خاصوں میں شمار ہو جاتا تھا۔ انگریز دور میں ہم جمہوری طرز حکمرانی سے آشنا ہوئے۔ پھر جمہوری طریقہ انتخاب کے رائج ہونے سے پہلے کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا، کہ عوام کے ووٹوں کی مدد سے تخت پر براجمان ہوا جاسکتا ہے۔ جمہوری نظام میں حکمران بالواسطہ طور پہ عوام کو جواب دہ ہوتا ہے۔ عوام کی رائے سے، عوام کی حکومت، عوام کے لیے۔ حکمران کی عوام کو جواب دہی، اس سے پہلے بادشاہی نظام میں ایسا سوال، دیوانے کی بڑ کہلائی جا سکتی تھی۔ طلسم ہوش رُبا کی داستانوں کا ذکر سوا ہے۔

وہ زمانہ جب عام آدمی کا سیاسی شعور اپنے گزشتہ عہد کے فرد سے خوب تر تھا، اور وہ یہ سمجھ چکا تھا، کہ اقتدار میں کیسے شریک ہوا جا سکتا ہے۔ اس دور میں بابائے قوم، قائد اعظم محمد علی جناح (25 دسمبر 1876 تا 11 ستمبر 1948) مسلمانان ہند کے سب سے نمایاں رہ نما ہو گزرے ہیں۔ قائد اعظم کے گجراتی خاندان کا تعلق خوجا اسماعیلی شیعہ پس منظر سے تھا، بعد میں انھوں نے بہن فاطمہ جناح سمیت بارہ امامی مسلک اختیار کرلیا تھا، لیکن یہ نہیں کہ وہ شیعہ رہنما تھے، یا اسلام کی ترویج کے لیے جدوجہد کرنے اٹھے تھے۔ یہ اُن کی ذاتی زندگی کا صفحہ ہے۔ جناح جمہوریت پر یقین رکھتے تھے، اور جمہوری طریقے سے مسلمانان ہند کے حقوق کے لیے کوشاں رہے۔ جمہوری نظام میں یہ ممکن نہ دکھائی دیا، کہ اقلیت میں ہوتے مسلمانان ہند متحدہ ہندُستان میں اپنے حقوق کا تحفظ کرسکیں گے، تو ایک وقت آیا کہ مسلم لیگ نے جس کے سربراہ قائد اعظم تھے، ہندُستان کی سب سی بڑی اقلیت یعنی مسلمانوں کے لیے ایک الگ وطن کا مطالبہ پیش کردیا۔

خیال کیا جاتا ہے کہ تحریک پاکستان کی بنیاد اس روز پڑگئی تھی، جب مسلمانان ہند نے کانگریس سے اپنی راہیں جدا کرلی تھیں۔ 23 مارچ 1940ء کے جلسے میں قرارداد لاہور جسے قرارداد پاکستان کے عنوان سے بھی یاد رکھا جاتا ہے، پیش کی گئی تو تحریک پاکستان کا آغاز ہوگیا۔ ذہن نشین رہے کہ یہ سب کچھ جمہوری طریقے سے ہو رہا تھا۔ پاکستان کو بنانے میں کسی عسکری طاقت کا عمل دخل نہیں رہا۔ پاکستان کے معرض وجود میں آنے کے بعد فروری 1948ء میں قائد اعظم محمد علی جناح نے امریکی عوام سے ریڈیو کے ذریعے خطاب کرتے ہوئے کہا:

’پاکستانی قانون کو ابھی پاکستانی اسمبلی نے بنانا ہے۔ مجھے یہ بات معلوم نہیں کہ قانون کی اصل وضع کیا ہوگی، لیکن مجھے یہ یقین ہے کہ ایک جمہوری قسم کی ہوگی، جس میں اسلام کے بنیادی اصول بھی شامل کیے جائیں گے۔ آج بھی یہ اصول ایسے ہی قابل عمل ہیں، جیسے کہ تیرہ سو سال قبل تھے۔ اسلام اور اس کے نظریے نے ہمیں جمہوریت سکھائی ہے۔ یہ ہمیں انصاف، انسانی مساوات اور دوسروں سے اچھائی کا درس دیتی ہے۔ ہم ان اقدار کے وارثین ہیں، اور مستقبل کے پاکستانی قانون کو بنانے کی مکمل ذمہ داری کا احساس رکھتے ہیں‘۔
(حوالہ: جناح کا پاکستان از اسٹینلے والپرٹ)

بدقسمتی سے قائد اعظم محمد علی جناح پاکستان کے معرض وجود میں آنے کے بعد زیادہ عرصے نہ جی سکے، اور ان کی وفات کے دس برسوں بعد ہی ملک پر مارشل لا نافذ کردیا گیا۔ جنرل ایوب خان کے بعد، جنرل یحیی خان نے اقتدار پر قبضہ کرلیا۔ ہماری کوتاہیوں کے سبب مشرقی پاکستان ہم سے بچھڑ کے بنگلا دیش بن گیا۔ اب مغربی پاکستان ہی اسلامی جمہوریہ پاکستان کہلایا۔ کچھ برس کے لیے جمہوری حکومت بحال ہوئی تو جنرل محمد ضیا الحق نے اسے اپنے پاوں تلے روند ڈالا اور منتخب وزیر اعظم کو ایک کم زور مقدمے میں پھانسی گھاٹ تک جا پہنچایا۔ جنرل ضیا الحق کی طیارے کے حادثے میں ہلاکت کے بعد انتخابات ہوئے تو بھی عوام میں مقبول جماعت کا راستہ روکنے کے لیے غیر قانونی اور غیر آئینی ہتھ کنڈے استعمال کیے گئے۔ 1999ء میں ایک بار پھر فوج نے منتخب وزیر اعظم کا تختہ اُلٹ دیا۔ جمہوریت پر پے در پے شب خون اور سیاسی عمل میں مداخلت نے جمہوری عمل اور جمہوریت کی شکل مسخ کردی۔

ہم آج بھی یہ بحث کرتے ہیں کہ قائد اعظم کا پاکستان کیسا ہونا چاہے۔ ایسا نظام کہ جہاں شہری کے حقوق اس کا مذہب دیکھ کر طے کیے جائیں؟ ایسا کہ جہاں ہر شہری کے حقوق مساوی ہوں؟ یا پھر جناح کا پاکستان کیسا ہو؟ سیکولر پاکستان یا اسلامی پاکستان؟ اس بحث کو ایک طرف رکھیں تو یہ واضح ہے کہ جناح جمہوری پاکستان چاہتے تھے۔ عوام کی رائے سے، عوام کی حکومت، عوام کے لیے۔ المیہ یہ ہے کہ جمہوریت نام ہی کو یہاں گالی بنادیا گیا ہے۔ جمہور کے اجتماعی شعور کو شک کی نظر سے دیکھا جانے لگا ہے۔ ورنہ یہ کیسے ممکن تھا، کہ وہ ہندُستانی مسلمان جس نے ستر اسی برس پہلے محمد علی جناح جیسے عظیم رہ نما کی پہچان کی ہو، ووٹ کی طاقت سے پاکستان کی بنیاد رکھی ہو، آج اس پاکستانی عوام کے ووٹ کی توہین کی جاتی ہے۔ اس عوام کے شعور پہ سوالیہ نشان لگایا جاتا ہو۔ اُن کے منتخب سیاست دانوں کو غدار کہا جاتا ہو۔ کیا یہ نہ کہا جائے کہ جمہوریت کا مذاق اُڑانے والے قائد اعظم کی توہین کرتے ہیں، بلکہ جمہوری عمل سے بننے والے پاکستان کا عالمی برادری میں ٹھٹھا اُڑانے کا سبب بھی ہیں!

ظفر عمران

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ظفر عمران

ظفر عمران کو فنون لطیفہ سے شغف ہے۔ خطاطی، فوٹو گرافی، ظروف سازی، زرگری کرتے ٹیلی ویژن پروگرام پروڈکشن میں پڑاؤ ڈالا۔ ٹیلی ویژن کے لیے لکھتے ہیں۔ ہدایت کار ہیں پروڈیوسر ہیں۔ کچھ عرصہ نیوز چینل پر پروگرام پروڈیوسر کے طور پہ کام کیا لیکن مزاج سے لگا نہیں کھایا، تو انٹرٹینمنٹ میں واپسی ہوئی۔ آج کل اسکرین پلے رائٹنگ اور پروگرام پروڈکشن کی (آن لائن اسکول) تربیت دیتے ہیں۔ کہتے ہیں، سب کاموں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑا تو قلم سے رشتہ جوڑے رکھوں گا۔

zeffer-imran has 323 posts and counting.See all posts by zeffer-imran