اپنے حقوق کا تحفظ کریں، فوج اور عدلیہ کو گالیاں نہ دیں


آپ ذرا پاکستان کی موجودہ حالت پر نظر دوڑائیں، آدھی کے قریب آبادی سطح غربت سے نیچے زندگی گزار رہی ہے، پچاس فیصد سے زائد بچے اور مائیں شدید غذائی قلت کا شکار ہیں، دو کروڑ سے زیادہ بچے سکولوں سے باہر ہیں، اسی فیصد سے زائد افراد کو پینے کا صاف پانی تک میسر نہیں۔ ہمارا بیرونی اور اندرونی قرض سو ارب ڈالر سے تجاوز کر چکا ہے اور اس کے باوجود ہمارے پاس آج ملازمین کو تنخواہیں دینے تک کے پیسے نہیں ہیں۔ لیکن آپ اندازہ کریں یوں لگتا ہے جیسے یہ تمام تر مسائل اس ملک کے لئے کوئی معنی نہیں رکھتے۔ پچھلے دو سال سے اس ملک میں ”مجھے کیوں نکالا“ کا راگ الاپاجاتا رہا، تمام تر وزراء اور اتحادی اپنے فرائض بھلا کر، نواز شریف کے غم میں ہلکان ہوتے رہے، اور آج یہی لوگ اپنی کارکردگی پر شرمندہ ہونے کی بجائے، دھاندلی کا رونا رو رہے ہیں۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جس طرح یہ سیاسی جماعتیں ہمیشہ اپنے مفادات کے لئے اکٹھی ہو جاتی ہیں، آخر ہماری عوام اپنے حقوق اور اپنے مسائل کے حل پر اکٹھا ہونے کی بجائے کیوں اپنے سیاسی لیڈران کے اقتدار کے لئے روتی رہتی ہے؟ حیرت ہے جو لوگ موسم کی سختیاں جھیلتے ہیں، تپتی دھوپ میں سڑکوں پر نکلتے ہیں، اپنے کپڑے پھاڑ کر عجیب و غریب حرکات کرتے ہیں، پولیس کے ڈنڈے کھاتے ہیں اور بعض اوقات اپنی جان سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ آخر کس لئے؟ ان لوگوں کے لئے جو اقتدار میں آنے کے بعد آپ کی طرف منہ کر کے بھی نہیں دیکھتے، جو باہر نکلتے ہیں تو روٹ لگا کر نکلتے ہیں اور آپ بھیڑ بکریوں کی طرح سڑک کے کنارے کھڑے انہیں دیکھتے رہتے ہیں۔

کیا آپ یہ سب ایسے حکمرانوں کے لئے کرتے ہیں جو اپنا علاج تو آپ ہی کے ٹیکس کے پیسوں پر بیرون ملک کرواتے ہیں اور آپ کے لئے گندے اور غلیظ ہسپتال ہیں جہاں آپ کو ایک بیڈ بھی میسر نہیں ہوتا، کیا واقعی مت ماری جا چکی ہے ہمارے عوام کی؟ کیا یہ درست نہیں ہے کہ اقتدار میں آنے کے بعد ان کے اپنے اثاثے اور جائیدادیں تو آسمان سے باتیں کرتے نظر آتے ہیں، چارٹر فلائیٹز میں بیرون ملک کے دورے اور فائیو سٹار ہوٹلوں میں قیام، برینڈڈ شاپنگیں اور ایک انتہائی شاہانہ انداز زندگی جبکہ ملک کا حال یہ ہے کہ ہر ادارہ خسارے میں، جتنا بڑا منصوبہ اتنا ہی بڑا سکینڈل، قرض پر قرض اور اس قرض کو اتارنے کے لئے پھر ایک نیا قرض، کیا یہی ہے کارکردگی آپ کے نزدیک؟ اور کیا آپ واقعی سمجھتے ہیں کہ یہ آپ کے ہمدرد و غمگسار بنیں گے؟

بدقسمتی سے ہم سب اپنے گرد اپنی اپنی جماعت کا یا ذاتی پسند نا پسند کا ایک حصار تعمیر کر چکے ہیں، جب انسان اپنے ذاتی مفادات اور انا کو مقدم بنا لیتا ہے تو وہ خود غرض اور بے حس ہو جاتا ہے، ہم ہر روز اپنے اردگرد یا سڑک پر چلتے ہوئے کچھ ایسی تلخ حقیقتیں دیکھتیں ہیں جو ان کے لئے آواز اٹھانے والوں کی متلاشی ہوتی ہیں، لیکن ہم ان حقیقتوں کو پہچاننے کی بجائے ان سے منہ پھیر لیتے ہیں۔ ایک ایسی ہی حقیقت میرے ایک دوست نے مجھے ایک تصویر کی صورت میں بھیجی، جس میں ایک بچہ فٹ پاتھ پر بوٹ پالش کے سامان کے پاس لیٹا ہے۔ یہ تصویر جیسے دل کو چیرتی ہوئی گزر گئی ہو، اس معصوم بچے کی عمر بمشکل سکول جانے کے قریب کی ہوئی ہوگی، اور یوں لگ رہا تھا کہ اپنی اس چھوٹی سی دکان سجائے بیٹھا یہ بچہ تھک کر لیٹ گیا تھا۔ ابھی بھی اس تصویر کا تصور ذہن میں آتا ہے تو آنکھیں بے اختیار نم ہوجاتی ہیں۔

میں پوچھنا صرف یہ چاہتا ہوں کہ اس بچے اور اس جیسے لاکھوں بچوں کا بچپن چھین جانے کا ذمہ دار کون ہے؟ کیا وہ چیف جسٹس ہے یا آرمی چیف؟ کیا آپ کی لیڈران سے محبت نے آپ کی عقل پر خودغرضی کے ایسے پردے ڈال دیے ہیں کہ آج آپ کو اس بچے میں اپنا بچا نظر نہیں آتا؟ اس قدر پتھر دل ہو چکے ہیں کہ آج عام لوگوں کی حالت زار پر آپ کا ذرا دل نہیں پسیجتا، اور کیا آپ واقعی نہیں دیکھ سکتے کہ اس بچے کی معصوم شرارتوں اور حسرتوں کا قاتل کوئی اور نہیں بلکہ وہ حکمران ہیں جنہوں نے کئی بار اس ملک پر حکمرانی کی لیکن ہر بار اسے عام لوگوں کی فلاح کی بجائے اپنوں کو نوازنے، اپنے اقتدار کو مستحکم کرنے اور بیرون ملک جائیدادیں بنانے میں استعمال کیا۔

دن رات عدلیہ، فوج اور عمران خان کو گالیاں دینے والوں سے میں پوچھنا چاہتا ہوں کہ کیا آپ اتنی سی بات سمجھنے سے قاصر ہیں کہ حاکم وقت اگر رحم دل اور لوگوں کا ہمدرد ہو تو دنیا کی کوئی طاقت یا کوئی خلائی مخلوق اسے اقتدار سے نہیں ہٹا سکتی، اسے اللہ کی نصرت حاصل ہوتی ہے۔ یہ دنیا مکافات عمل بھی ہے، یہاں ہر شخص وہی کاٹے گا جو وہ بوئے گا، نواز شریف ہو یا کوئی اور، انشا اللہ سارے اپنے انجام کو پہنچیں گے۔ میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ آپ ایک ہاری ہوئی جنگ لڑ رہے ہیں، آپ سارے مل کر کوشش کر کے دیکھ لیں ماسواے اپنے آپ کو نقصان پہنچانے کے، آپ انہیں نہیں بچا پائیں گے، اس لئے کہ قدرت کے قانون کے خلاف کوئی نہیں لڑ پایا ہے۔

چنانچہ میرا مشورہ ہے کہ سوشل میڈیا پر، گلی کی نکڑ یا چوراہوں میں کھڑے ہو کر فوج اور عدلیہ پر لعنتیں بھیجنے سے پہلے آپ اپنے اردگرد بھی دیکھ لیں کہ آپ کے لیڈر نے آپ کو دیا کیا ہے؟ لاہور میں ہر چوتھا بندا گندے پانی کے باعث ہیپاٹائٹس کا شکار ہو چکا ہے، اللہ نہ کرے کہیں آپ کے اپنے گھر بھی کوئی ایسا مریض موجود ہو۔ یہ آپ کا حق ہے کہ کبھی کسی سرکاری دفتر یا تھانے، کچہری کا منہ دیکھنا پڑ جائے تو متعلقہ افسران آپ سے عزت سے پیش آئیں، یہ معجزہ آپ کی زندگی میں آخری دفعہ کب واقعہ ہوا تھا؟ معیاری تعلیم اور صحت کی بنیادی سہولیات ہر شہری کا حق ہے، ہو سکتا ہے آپ اپنے بچوں کے لئے پرائیویٹ سکول یا پرائیویٹ علاج افورڈ کر سکتے ہوں، لیکن انصاف کا تقاضا یہی ہے کہ ایک غریب اور اس کے بچوں کو بھی اسی معیار کی سہولیات سرکاری سطح پر مہیا کی جائیں۔

ﷲاب وہ زمانہ بھی گیا جب ”کھاتا ہے تو لگاتا بھی تو ہے“ کے مصداق لوگ بھی چل جاتے تھے۔ ہمیں ایک ایک پائی کا حساب چاہیے اور ہمارا یہی معیار عمران خان صاحب کے لئے بھی ہے۔ دوستو یاد رکھیں جب تک یہ شخصیت پرستی چھوڑ کر اپنے مسائل پر توجہ نہیں دیں گے آپ کے اور اس ملک کے حالات بہتر نہیں ہونے والے، اور آپ اس ملک اور اس قوم کی کوئی خدمت نہیں کر رہے۔ ہمارا اور ہماری آنے والی نسلوں کا مستقبل اس ملک اور اس کے اداروں کی مضبوطی سے وابستہ ہے، ہمارے لیڈران کے مستقبل سے نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).