ہائے قربان


عیدالاضحٰی کی آمد تھی اور ہر طرف قربانی کے جانوروں کا ایک ہجوم دیکھنے کو مل رہا تھا۔ یہ ایام ہر سال آتے ہیں، اور ہر بار ایک نئی بحث کا آغاز ہو جاتا ہے کہ عید پر جانور کی قربانی کرنی ہے یا نہیں۔ اب ذہن میں نہ کا لفظ کم آتا ہے۔ جب ہم بچے تھے تو والدین اس کا اہتمام کرتے تھے، ہمیں علم بھی نہیں ہوتا تھا کہ بکرا کتنے میں خریدا گیا، کیوں کہ ہماری غرض تو اس جانور کو ساتھ لے کر بازار اور گلی میں سیر کرانے کی حد تک ہوتی تھی۔ اس خواہش کی تکمیل بظاہر احسن طریقے سے ہو جاتی تھی۔ وہ الگ بات ہے کہ بچپن میں بکرے کی دہشت کا شکار رہ چکے ہیں، اس کے قاتلانہ حملے کے واقعات اب تک ذہن کے میموری کارڈ میں محفوظ ہیں۔ اب حالات تبدیل ہوگئے ہیں، بچوں کی فرمایش اور مطالبہ ہوتا ہے کہ بکرا لایا جائے۔ انھیں اس بات سے کوئی زیادہ سروکار نہیں ہوتا کہ جانور کتنی مالیت کا ہے۔

سنت ابراہیمی ادا کرنا کون نہیں چاہتا لیکن قربانی کے جانور فروخت کرنے والے اس ثواب میں کسی طور شریک ہونے کے خواہش مند نہیں ہوتے، انھیں اپنا منافع اور جانوروں کی سال بھر کی گئی خدمت کا معاوضہ مطلوب ہوتا ہے۔ جانور کی تلاش، پہچان اور پھر اپنی پسلی کو دیکھتے ہوئے قیمت کا تعین کسی طور بھی جان جوکھوں کی مشق ہوتی ہے۔

بچوں کے سمجھ دار ہونے کی دیر تھی اور پھر ان کے مطالبے شروع ہو گئے، جس کے بعد ہماری کم بختی کا بھی آغاز ہوگیا۔ ہم نے اپنے بجٹ کا جائزہ لیا اور بیگم سے مشورہ کیا، طے یہ پایا کہ بچوں کی خوشی کو مدنظر رکھتے ہوئے قربانی دی جائے اور ثواب بھی حاصل کیا جائے۔ اس فیصلے کے بعد سب سے بنیادی اور اہم مرحلہ جانور کی تلاش کا تھا، جس کی پہچان ہمیں ہرگز نہیں تھی۔ وجہ بڑی معقول تھی کہ جانوروں کی کبھی قربت ہی حاصل نہیں تھی۔ اب اُن کا مزاج جاننا مشکل کام تھا۔ اپنے ایک سینئر ساتھی کی منت سماجت کی جنھیں اس فیلڈ کا ماہر خیال کیا جاتا تھا۔ انھوں نے ہمارے ساتھ آفس کے بعد جانے کی ہامی بھر لی۔ چوں کہ دباو زیادہ تھا اس لیے سارا دن انھیں شام کے پروگرام کی یاد دہانی کرانے میں گزار دی۔ انھیں دفتر سے موٹر سائکل پر بٹھایا اور منڈی کی طرف روانہ ہو گئے۔ وہاں ایک محفوظ مقام پر موٹرسائکل کو کھڑا کیا۔ اور بکروں کی بھیڑ میں شامل ہوگئے۔

جب ایک بکرے کو کمر سے پکڑ کر بظاہر جانچنے کے بعد اس کی قیمت پوچھی تو مالک نے بتایا کہ جوڑی بیس ہزار کی ہے۔ یہ اس دور کی بات ہے جب ہماری بساط بمشکل پانچ چھہ ہزار کی ہوتی تھی۔ مالک سے دریافت کیا کہ جناب ایک لینا چاہیں تو کیا قیمت وصول کریں گے، بولے بارہ ہزار لوں گا۔ جب پوچھا کہ آخری دام کیا ہوں گے، جواب ملا سو دو سو کم دے دیں۔ وہاں سے آگے چلے کچھ اور بکرے دیکھے ان کی مالی حالت بھی کچھ مختلف نہیں تھی۔ نصف گھنٹے بعد صورت احوال یہ ہو گئی کہ مایوسی نے ہمیں گھیر لیا۔ میرے ساتھی نے تھوڑا سا حوصلہ دیا کہ کوئی بات نہیں ہمارے بجٹ کے مطابق جانور مل جائے گا۔ مجھے بیوپاریوں کی اس بات سے زرا اختلاف تھا کہ قیمت پوچھنے پر جوڑی کا بتاتے، جس سے مجھ جیسے کی دل آزاری ہوتی تھی۔ لیکن وہ اپنی جگہ درست تھے کیوں کہ یہی ٹرینڈ چل رہا تھا، کہ ہر کوئی جوڑی سے کم نہیں خریدتا تھا۔ ہمیں اپنی مالی حالت پر رحم اور بچوں کی فرمائش پر ترس آرہا تھا۔ ایک لمحہ ایسا بھی آیا جس میں لگا کہ خالی ہاتھ ہی جانا پڑے گا یہ ہمارے بس کی بات نہیں۔

جوڑے دیکھ کر بالآخر تنگ آ کر ہمارے ساتھی نے بوچھا کہ کیا یہ جوڑا شادی شدہ ہے کہ الگ نہیں ہو سکتے۔ بیوپاری یہاں تک کہہ دیتے تھے یہ دونوں جڑواں بھائی ہیں اور اکٹھے پلے ہیں۔ انھیں ایک ساتھ ہی فروخت کرنا ہے۔ اب ان کی منطق اپنی جگہ ہماری جیب پر ان کی نگاہ نہیں تھی۔ ان کی بلا سے لینا ہے تو لو ورنہ اپنا راستہ ناپو۔

ہماری نیت تھی اس لیے شائد ناکامی سے بچ گئے، اور ایک بکرا آٹھ ہزار روپے میں خریدنے میں کام یاب ہوگئے۔ لیکن اس کے ساتھ ہی ذہن میں حساب کتاب شروع کر دیا کہ دو ہزار زائد دینے کے بعد اب اس کی خوراک کا سامان اور کٹائی کے اخراجات ڈال کر بجٹ بری طرح متاثر ہو گیا۔ خریداری کے بعد یہ بھی یاد آ گیا کہ بکرے کو لے جانے کے لیے ٹرانسپورٹ کا حصول بھی ضروری ہے، کیوں کہ ہم اتنے ماہر نہیں تھے کہ اسے موٹرسائکل پر بٹھا کر لے جاتے۔ تھوڑی تلاش کے بعد موٹرسائکل رکشا لیا اور اپنے ساتھی سے کہا کہ آپ میری موٹرسائکل چلاکر آئی، میں رکشے میں اس کے ساتھ آتا ہوں۔ یہ مرحلہ بھی کچھ تکلیف دہ تھا بکرا رکشے پر سوار ہونے کے لیے تیار نہیں تھا۔ اسے شائد کبھی رکشے پر سفر کا اتفاق نہیں ہوا ہو گا۔ میں نے اسے اپنی گود میں بٹھا کر مضبوطی سے پکڑلیا۔ اور ایک خوشی کا تاثر چہرے پر لاتے ہوئے گھر کی طرف روانہ ہوگئے۔

ہمیں اس بات پہ از حد فخر تھا کہ بکرے کی خریداری نہایت احسن طریقے سے انجام پا گئی۔ خلاف توقع راستے میں اس نے بالکل تنگ نہیں کیا گھر پہنچتے ہی جب اسے اتارا تو اس نے سڑک گیلی کردی۔ مجھے اس پر بھی خوشی ہوئی کہ بکرے نے راستے میں یہ حرکت میری گود میں بیٹھے نہیں کی۔

بچوں نے بکرے کو دیکھتے ہی نعرے بازی شروع کردی اور ان کا جوش و خروش دیدنی تھا۔ میں نے بیگم سے کہا کہ بچے خوش ہو گئے، ہمارے پیسے پورے ہو گئے۔ جواب میں بولیں وہ تو خیر آپ پہلے ہی کر آئے ہیں۔ اب اور کیا رہ گیا۔ بچوں نے بکرے کا نام قربان رکھ دیا بلکہ چھوٹے بیٹے نے مہندی لے کر اس کی کمر پر لکھ بھی دیا۔ ابھی عید دو روز بعد تھی بکرے کو گھر میں رکھنے اس کی خوراک اور پھر گندگی کو ٹھکانے لگانے کے مراحل بھی تھے۔ اس کے ساتھ ساتھ رات کو وقت بے وقت وہ تنہائی کا شکار ہوکر راگ الاپ دیتا۔ جس پر پریشانی اور کوفت کی مشترک کیفیت دوبالا ہو جاتی۔

عید سے ایک روز قبل میں نے قصائیوں کے ایک کنسورشیم سے رابطہ کیا۔ جس میں دس بارہ کے قریب قصاب تھے جو دیہات سے آئے تھے اور ایک سکول کی عمارت کو اپنا ہیڈکوارٹر بنایا تھا۔ انھوں نے بخوشی ہمارے ساتھ مفاہمت کی یادداشت پر دست خط کیے، جس میں طے پایا کہ وہ ہمارے بکرے کے بعد میرے باس کے گھر جا کر ان کے دو بکروں کو بھی ذبح کریں گے۔ ہمیں اس بات پر بڑی خوشی تھی کہ اپنے افسر کے کسی کام آرہے ہیں۔

عید کا دن آیا صبح اٹھے نہا دھو کر وضو کرکے بچوں کے ساتھ نماز کے لیے گھر سے نکلنے لگے تو مذکورہ قصاب دروازے پر مل گیا، بولا کہاں ہے جانور۔ میں نے جواب دیا کہ بکرا تو گھر میں ہے لیکن ابھی نماز ادا نہیں کی۔ جناب بولے ہمارے پاس وقت نہیں ہمیں جلدی فارغ کر دیں۔ میں نے کہا بھائی صاحب نماز کی ادائی سے قبل ایسا کیوں کر ممکن ہے۔ اسے بات سمجھ میں آ گئی اور وہ کچھ دیر بعد آنے کا کہہ کر روانہ ہوگیا۔ ہماری تمام تر توجہ نماز ادا کرکے فوری گھر واپس آنے پر لگی تھی۔ لیکن یہ کیا جب قصاب سے رابطہ کرنے ہیڈکوارٹر پہنچے تو وہاں کوئی بھی نہیں تھا۔ اردگرد سے دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ وہ لوگ اپنی مار پر چلے گئے ہیں۔ اب ہمیں ان کے اہداف کا بھی علم نہیں تھا۔ اس دوران باس کے فون آنے کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ پہلے تو یہ کہہ کر ٹال دیا کہ ابھی بھیج دیتا ہوں، لیکن اصل احوال بتایا تو وہ بھڑک اٹھے۔ کیوں کہ قصاب کو لینے کے لیے انھوں نے اپنے بیٹے کو گاڑی پر میرے گھر روانہ کردیا تھا۔

پہلے میں فون سننے سے گریز کررہا تھا اب ان کا بیٹا گھر کے باہر گاڑی لے کر کھڑا ہو گیا۔ میری پوری کوشش تھی کہ اگر قصاب کہیں سے مل جائے، تو باس کی طرف پہلے روانہ کر دوں، مگر اس نے کہاں ملنا تھا۔ بڑی مشکل سے باس سے جان خلاصی ہوئی اور اپنے ٹارگٹ کے بارے میں سوچنے کا موقع ملا۔ میں مایوسی کے عالم میں موٹر سائکل پر بیٹے کو بٹھا کر قصاب کی تلاش میں نکل گیا۔ میرا ہدف اب کوئی بھی قصاب تھا۔ ایک طویل جدوجہد کے بعد میری نگاہ ایک شخص پر پڑی جو اپنے حلیے سے قصاب نہیں دکھائی دیتا تھا، لیکن اس نے اوزار وہی اٹھا رکھے تھے۔ بس ہم نے رک کر پوچھا کیا آپ قربانی کا جانور ذبح کر لیتے ہیں۔ پشتو لہجے میں کہا بالکل کرتا ہوں۔

میں نے بھی زیادہ تحقیق کرنے یا انٹرویو لینے کی زحمت نہیں کی اور معاوضہ پوچھ کر اپنے ساتھ موٹر سائکل پر بٹھا کر گھر لے آیا۔ اسے دیکھ کر بڑے بھائی صاحب نے پوچھ ہی لیا یہ کس کو ساتھ لے آئے ہو۔ میں نے جواب دیا بکرا ذبح کرنے کے لیے لایا ہوں۔ بچے قربان کو لے آئے میں نے انھیں اوپر بھیج دیا، کیوں کہ اس عمل کے دوران انھیں دور رکھنا چاہتا تھا۔ قصاب نے کہا جانور کو زمین پر لٹا دیں۔ اور ٹانگیں پکڑ لیں۔ اب وہ منظر جسے میں کبھی فراموش نہیں کر سکتا۔ جب اس نے چھری گردن پر پھیری تو قربان حقیقی معنوں میں قربان ہو گیا۔ بظاہر ایک تکلیف دہ عمل تھا اور بقول میرے بھائی صاحب کے، اس کی چھری تیز نہیں تھی اس لیے یہ کارروائی درست نہیں ہو پائی۔ اب اس پارٹ ٹائم قصاب کی گفتگو بھی ہمیں صیحح طور پر سمجھ نہیں آ رہی تھی۔ بڑے بھائی صاحب ویسے ہی احتجاجاً بڑبڑاتے ہوئے اندر کمرے میں چلے گئے کہ اس نے بے چارے جانور کے ساتھ زیادتی کی ہے، بھلا ایسے بھی ذبح کیا جاتا ہے۔ مجھے بھی محسوس ہونے لگا کہ شخص کوئی ماہر قصاب نہیں بلکہ عید پر دیہاڑی بنانے کے لیے نکل آیا ہے۔ جس انداز سے اس نے کھال الگ کی اور بکرے کو رسی کے ساتھ لٹکایا وہ آگے کی کہانی بھی بیان کر گیا۔

اب آخری مرحلہ گوشت کاٹنے کا تھا جس کے دوران ایسے مناظر دیکھنے میں آئے کہ لگا جیسے بیکری میں کیک کٹوا رہے ہوں۔ انتہائی بے دردی سے گوشت کے حصے بنائے گئے۔ رہ رہ کر قربان کی شکل آنکھوں کے سامنے گھومتی رہی۔ بچوں کا اس کے ساتھ پیار حقیقی معنوں میں قربانی کا جذبہ تھا۔ لیکن اس اناڑی نے جو کچھ کر دیا وہ کم سے کم میرے لیے ناقابل برداشت تھا۔ میں نے کس دل کے ساتھ رشتہ دار عزیزوں میں گوشت بانٹا یہ میں ہی جانتا ہوں۔ بس اللہ سے دعا کی کہ میری قربانی قبول فرمائے اور قربان کے ساتھ ہونے والے سلوک پر معاف کردے۔

نعمان یاور

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

نعمان یاور

نعمان یاور پرنٹ اور الیکٹرانک صحافت میں وسیع تجربہ رکھتے ہیں اور ان دنوں ایک نجی ٹی وی چینل سے وابستہ ہیں

nauman-yawar has 140 posts and counting.See all posts by nauman-yawar