گھوڑے کا انڈہ


’گھوڑے کب سے انڈے دینے لگے۔ ’ ’اچھا آپ کو ابھی تک گھوڑوں کے انڈوں کا علم نہیں ہوا۔ ‘ چلیں پھر آپ کو اس بار لگنے والی گھوڑا منڈی میں لیے چلتے ہیں۔
’یہ گھوڑا ہمیں کتنے میں مل سکتا ہے۔ ہمیں فوری بعض گھوڑوں کی ضرورت ہے۔ ‘ ’ پینتیس چالیس گھوڑے تو ہر صورت درکار ہیں۔ اس سے زائد ہو جائیں تو بھی خرید لیں گے۔ دیکھیں جناب! آپ معزز آدمی معلوم ہوتے ہیں۔ اس لئے آپ سے صرف نظر کیا جاتا ہے۔ لیکن آپ کو بتا دیں کہ آپ گھوڑا کہ کر اس کی توہین کر رہے ہیں۔ ’یہ ہارس ہے ہارس۔ اسے گھوڑا مت کہیے‘۔ ا س کی ٹریڈ بڑے ہائی لیول پر ہے آج کل۔

اگر اس نے سن لیا کہ اس کے بارے میں آپ کا لہجہ درست نہیں ہے تووہ ناراض ہو جائے گا۔ اور ناراضگی کی ہر کروٹ کے بدلے ریٹ بڑھتا جائے گا۔ آپ کی مشکل میں بھی اضافہ ہوتا جائے گا۔ یہ پڑھے لکھے اور سوشل میڈیا استعمال کرنے والے ہارس ہیں۔ ان کو پہلے ہی معلوم ہو چکا ہے کہ آپ کو ان کی ضرورت ہے۔ اگر آپ کو واقعی ہارس درکار ہیں تو اپنا لہجہ اور انداز گفتگو مہذب کیجیے۔ بھلے آپ کے پاس کتنا سرمایہ ہو لیکن ہر صورت میں گھوڑے کاکام گھوڑا ہی کر سکتا ہے۔ گھوڑے کے انڈے کی جگہ آپ روپوں کی گڈیاں نہیں رکھ سکتے۔ ’ درست کہا نا میں نے؟ ‘ جی۔ جی۔ بالکل درست فرمایا آپ نے‘

’اور ہاں ہم اپنی دانستہ و نادانستہ تمام کوتاہیوں کے لئے معذرت خواہ ہیں۔ معافی مانگتے ہیں اور آئندہ ایسی گستاخی ہرگز نہیں کریں گے۔ گزشتہ سالوں میں بھی کوئی گستاخی ہو ئی ہو تو اس کے لئے بھی دلی طور پر معذت خواہ ہیں۔ بڑے صاحب نے بھی ان کے لئے پیار کا خصوصی کا تحفہ اور اسپیشل تھپکی بھیجی ہے‘
’ بس آپ بتادیجئے کہ آپ کتنے ہارسز کا انتظام کرسکتے ہیں۔ ‘
’پہلے تو آپ کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ ان غیر معمولی Horses کی طلب بہت زیادہ ہے۔ اور خاص طور پر وہ آزاد مزاج ہارس جن کو آپ نے کچھ دن پہلے نظر انداز کیا تھا۔ ان کی قیمت بہت زیادہ ہوگی۔ وہ اپنی قیمت خود مقرر کریں گے۔
’کیا مطلب۔ خود مقرر کریں گے؟
جی ہم نے بتایا نا یہ پڑھے لکھے ہارس ہیں۔ اور اپنے بل بوتے پر مارکیٹ میں آئے ہیں۔ ‘
ہمارے پاس ان کے خرید ار ہر وقت رہتے ہیں۔ ایڈوانس بکنگ ہمیشہ رہتی ہے۔ ا س لئے کسی بھی وقت انہیں نئے گاہگ کو تھمایا جا سکتا ہے۔

آپ معزز ہیں۔ پہلی بار آئے ہیں۔ اس لئے آپ کا احترام کرتے ہوئے آپ کو ترجیح دی جا رہی ہے۔ یا درکھیں ا س بار ان کی مارکیٹ بہت ہائی ہے۔ وجہ ان نایاب گھوڑوں کی تعداد محدود ہونا ہے۔ مقابلہ بہت سخت ہے اور طلب بہت زیادہ۔ ہم آپ کو کچھ شرائط بتا دیتے ہیں۔ باقی شرائط ساتھ ساتھ ہارس خود بخود آپ کو بتاتا جائے گا۔ شرائط میں بغیر پیشگی اطلاع کسی وقت بھی کوئی بھی تبدیلی آ سکتی ہے۔

ہارس انڈہ دے گا تو اسے سنبھال کر رکھنا آپ کی ذمہ داری ہوگی۔
انڈہ ٹوٹ گیا یا خراب نکلا تو ہم ذمہ دار نہ ہوں گے۔
آپ اس ہارس کو سنبھال نہ سکے اور کسی روز یہ بھاگ آیا۔ یا کہیں اور چلا گیا تو آپ ہم سے واپسی کا مطالبہ نہیں کر سکتے۔
بھاگ جانے کی صورت میں رقم واپس نہیں کی جا ئے گی۔
یہ جس کے اصطبل میں پایا جائے گا اسی کا شمار ہو گا۔
جہاں ہارس ہوگا اس کا انڈہ بھی وہیں شمار ہوگا۔

ہارس کے آپ کے اصطبل سے نکلتے ہی آپ کا ایک انڈہ خود بخود کم ہو جا گا۔
آپ نے چارہ وقت پر نہ ڈالا، پیار سے نہ رکھا یا اس نے کسی کو بھی دولتی مار دی تو ہم ذمہ دار نہ ہوں گے۔
اس دولتی کی وجہ سے آپ اسے سزا نہیں دے سکتے۔ بلکہ اور پیار کرنا ہو گا۔
دانے پانی کا ہر لمحہ خیال رکھنا ہوگا۔

آپ کو کھانے کو ملے نہ ملے لیکن اسے بہر صورت بروقت ’ کھانے کو ’دینا ہوگا۔
صبح، دوپہر، شام اس پر پیار سے ہاتھ پھیرنا ہو گا۔
گرمی سردی سے بچانا ہو گا۔
جب ہارس چاہے بڑے صاحب سے ملاقات کروانا ہو گی۔

ہاں ان کے اپنے اپنے شوق ہیں۔ ان کے شوق پورے کرتے رہنا آپ کی ذمہ داری ہو گی۔ چند ایک شوق آپ کو بتا دیتے ہیں تاکہ آپ محتاط رہیں اور وقتاً فوقتاً ان کا انتظام کرتے ہیں۔
بعض کو فوٹو بنوانے کا بہت شوق ہے۔
بعض کو ٹی وی پر آکر انٹریو دینے کا شوق ہے۔
بعض سوشل میڈیا کو بہت پسند کرتے ہیں۔
بعض ولایتی گھوڑیوں سے دوستی کرنا پسند کرتے ہیں۔
بعض بڑے جلسے جلوسوں میں خطاب کرنا چاہتے ہیں۔

یہ سارے پبلک ہارس ہیں۔ شوقین مزاج ہارس۔ اگر آپ ان کی شرائط پوری کر سکتے ہیں تو اپنی ذمہ دوری پر لے جائیں۔
اور ہاں جناب والا! یہ مشتاق یوسفی کے دھوبی والا معاملہ نہیں۔ ’جو بریلی سے تازہ ہجرت کر کے آیا تھا۔ ایک ہزار روپے لے کر گدھا خریدنے نکلا۔ تو گدھے بیچنے والے نے جھڑک دیا۔ جاجا بڑا آیا گدھا خریدنے والا۔ انٹی میں کل ہزار روپے ہی ہیں تو گھوڑا کیوں نہیں خرید لیتا‘۔
‘لیکن اب گھوڑے واقعی گھوڑے ہیں۔ انڈے دینے والے گھوڑے۔ پڑھے لکھے گھوڑے۔ آپ بھی اب گدھے اورگھوڑے میں فرق کرنا سیکھئے صاحب۔ ‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).