ایسی اپوزیشن اللہ سب کو دے


اگر یہ درست ہے کہ اسٹیبلشمنٹ نے فیصلہ کر لیا تھا کہ کچھ بھی کرنا پڑے اس بار نواز شریف کی پارٹی کو دوسری مدت کے لیے برسرِاقتدار نہیں آنے دینا اور تحریکِ انصاف کو کسی بھی قیمت پر حکومت سازی کا موقع دینا ہے۔ تو یہ راز سیاسی جماعتوں پر 2014 میں ہی افشا ہو گیا تھا جب اسلام آباد کے ڈی چوک پر طویل دھرنا ہوا اور تھرڈ ایمپائر کی انگلی کا سٹیج سے بار بار تذکرہ ہوا۔

شاید اسی لیے اپوزیشن نے پارلیمنٹ کے اندر نواز شریف کو سخت سست کہتے ہوئے بھی ان کی بھرپور حمایت کی۔ اکثریتی اپوزیشن جماعت پیپلز پارٹی کا موقف تھا کہ ہم نواز شریف کو نہیں بلکہ جمہوریت کو ڈی ریل ہونے سے بچا رہے ہیں۔

جب خطرہ بظاہر ٹل گیا تو نواز شریف پھر اپنی کچن کیبینٹ والی پرانی عادت پر اتر آئے۔ وہ چاہتے تو ایوان کے اندر ملنے والی بھرپور حمایت کو اگلے چار برس کے لیے ’سب کو ساتھ لے کر چلو ` کی حکمتِ عملی میں بدل سکتے تھے مگر حسبِ توقع ایسا نہیں ہوا اور نواز شریف نے کنٹینری شب خون کو کوئی اتفاقی حادثہ سمجھ کر ٹال دیا۔

نواز شریف چاہتے تو پانامہ سکینڈل کھلنے کے بعد سپریم کورٹ کی جانب سے اس سکینڈل کی سماعت کے انکار سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنی مرضی کا تحقیقی کمیشن بنانے میں وقت ضائع کرنے کے بجائے اپوزیشن کی طرف سے ایک پارلیمانی تحقیقاتی کمیٹی کی تجویز کو فوری غیر مشروط تسلیم کر کے معاملے کو ایوان میں ہی نپٹا سکتے تھے۔

اس وقت تحریکِ انصاف بھی موڈ میں تھی کہ پانامہ کا شخشخہ پارلیمنٹ کے اندر نمٹا لیا جائے مگر وہ نواز شریف ہی کیا جو درست وقت پر غلط فیصلے نہ کرے۔

چنانچہ پھر تحریکِ انصاف اور شیخ رشید وغیرہ پانامہ پیٹیشن بذریعہ اسلام آباد لاک ڈاؤن سپریم کورٹ میں دوبارہ لے گئے اور سپریم کورٹ نے اس بار سماعت سے انکار نہیں کیا۔ اس کے بعد اعلی عدالت سے نیب عدالت تک کا شریفانہ سفر اور جزا و سزا کا ماجرا آپ کے سامنے ہے۔

مگر پانامہ تحقیقات کے نتائج سے قطع نظر اپوزیشن کے اس کمیٹمنٹ کا کیا ہوا کہ ہم شریفوں کو نہیں جمہوری نظام کو کسی ماورائے پارلیمان قوت کے شب خون سے بچانا چاہتے ہیں؟

جب بلوچستان میں گذشتہ دسمبر میں اچھی خاصی رواں ثنااللہ زہری کی مسلم لیگ نواز مخلوط حکومت کے پاؤں تلے سے کھلم کھلا قالین کھینچا گیا تو کیا اس وقت پیپلز پارٹی کو مہرہ بنتے ہوئے اندازہ نہیں ہوا کہ یہ کھیل اب سینیٹ میں لیگی حکومت کو اکثریت لینے سے روکنے پر نہیں رکے گا۔

پیپلز پارٹی نے اس وقت بلوچستان میں جو پراسرار حکمتِ عملی اختیار کی اور پھر سینیٹ کے الیکشن میں جس طرح تحریکِ انصاف سے ہاتھ ملا کر رضا ربانی جیسی شخصیت کو اپنا امیدوار نامزد کرنے سے انکار کر کے کسی بالائے پارلیمان قوت کی مرضی کے مثبت نتائج پیدا کرنے میں جو مدد دی۔ اس کی فارسی آصف زرداری کیا 29 بے نامی اکاؤنٹس کا فیصلہ ہونے کے بعد بتائیں گے؟

سینیٹ الیکشن کے دوران پیپلز پارٹی نے فیصلہ کسی انفرادی غصے کے تحت کیا یا کسی نے کوئی لالی پاپ دکھایا یا کسی نے بلیک میل کر کے استعمال کر لیا؟ کیا وجہ تھی کہ پچھلے پچاس برس میں بالائے جمہوریت قوتوں سے سب سے زیادہ مار کھانے والی جماعت کو یہ سمجھ میں نہ آیا کہ اب کیا کھیل شروع ہے اور اس کا اختتام کیسے ہو گا؟

25 جولائی کو انتخابات منعقد کروانے کے الیکشن کمیشن کے اعلان سے بہت پہلے ہی سیاسی اسٹاک ایکسچینج میں خبر پھیل چکی تھی کہ ایک خاص پارٹی کے لیے بھاری تعداد میں سیاسی شیئرز اٹھانے کا کام شروع ہو چکا ہے۔ الیکشن کی تاریخ کا اعلان ہوتے ہی نواز لیگ ہو کہ پیپلز پارٹی، اے این پی کہ بلوچستان کی قوم پرست جماعتیں، سب الگ الگ چیخ رہی تھیں کہ انتخابی نتائج کو ایک خاص شکل دینے کے لیے محکمہ زراعت منہ مانگے داموں میں فصل اٹھا رہا ہے اور انکار پر زبردستی بھی کی جا رہی ہے۔

کیا وہ وقت نہیں تھا کہ تمام شکوہ کناں عاقل بالغ سیاسی جماعتیں انا، ماضی اور حال ِ بے حال کو بھول بھال کر اپنی اپنی فصل بچانے کے لیے قبل از 25 جولائی وسیع تر انتخابی اتحاد کے بارے میں سوچتیں کہ جس اتحاد کا خیال انھیں 25 کے بعد آیا؟ ایسا کرنے سے کس لالچ، لالی پاپ یا آسمانی مدد کے انتظار نے روکا تھا؟

اب جو اتحاد ہوا ہے وہ لڑائی کے بعد یاد آنے والا مُکا ہے۔ یعنی جمہوریت کو ڈی ریل ہونے سے بچانے کے لیے سڑک پر بھی آتے رہیں گے اور ’دھاندلی کی پیداوار‘ اسمبلیوں میں بھی نئی حکومت کو ٹف ٹائم دیتے رہیں گے۔ مگر اسی ’فراڈ الیکشن‘ کی پیداوار صوبائی اسمبلیوں میں قومی اسمبلی سے الگ حکمتِ عملی پر بھی بنا اتحاد کاربند رہیں گے۔

تحریکِ انصاف جب اپوزیشن میں تھی تو اس نے بھی یہی تو کیا تھا جو آپ آج کرنا چاہ رہے ہیں۔ اب جبکہ آپ نے آدھا انتخابی بکرا حلال آدھا حرام تسلیم کر ہی لیا ہے تو پھر حکومت بھی چلنے دیں اور بطور تعمیری اپوزیشن بھرپور کردار ادا کرتے رہیں۔ مگر الگ الگ یا یکجا ہو کر؟ یہی سوال آپ کا جمہوری و ذہنی مستقبل طے کرے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).