دہشت گردی کے انتہائی وسائل، حیاتیاتی اور کیمیائی ہتھیار


اس میں کوئی شک نہیں کہ فتح و کامرانی کی ہوس اور خواہش اقتدار نے انسانوں کو ہر دور میں جنگ کے نئے نئے وسائل کی تلاش میں لگائے رکھا ہے۔ اسی سبب جسمانی جنگ، مہارت میں کارکردگی، تیر، تفنگ، تلوار، برچھی، گولی، بندوق، توپ، بارود، بم وغیرہ کی حدیں پار کرتے ہوئے آج انسان کیمیائی ہتھیاروں اور میزائل کے ذخیرے پر کھڑا نہ صرف خود اپنی ہلاکت کا سامان کر رہا ہے، بلکہ نسل انسانی کی تباہی کی جانب ایک قدم اور بڑھاتے ہوئے اب تباہ کن حیاتیاتی اور کیمیائی ہتھیاروں کی تلاش میں لگا ہوا ہے۔ جو قوم ان کی تلاش میں سب سے آگے آگے دوڑ رہی ہے، وہی آج اس سے سب سے زیادہ ڈری اور سہمی ہوئی ہے اور اس کے لیے کہیں دہشت گردی کے خاتمے کی آڑ میں، تو کہیں انسانیت کے تحفظ کا ریا کارانہ سہارا  لے کر معصوموں کا بے دریغ قتل کرنے سے بھی گریزاں نہیں ہے۔
ماضی قریب جسے پوری انسانی عہد میں سب سے زیادہ پر امن ،تعلیم اور ترقی یافتہ گردانا جاتا ہے، سب سے زیادہ تباہی اسی عہد میں ہوئی ہے۔ اس بابت جو سب سے زیادہ خود کو امن کا نقیب ثابت کرنے اور مسیحائی کا گن گانے کی بات کر رہا ہے، نے انسانیت کو سب سے زیادہ نقصان پہنچایا ہے۔ اس بارے میں یہ بات کسی سے مخفی نہیں ہے کہ خلیج کی جنگ کے وقت امریکا جیسی سپر پاور کو عراق کے نام نہاد حیاتیاتی اور کیمیائی ہتھیاروں کا ڈر سب سے زیادہ ستا رہا تھا۔ ان کے خفیہ نظام کی معلومات کے مطابق عراق نے ایسے ہتھیاروں کے سلسلے میں وسیع تحقیق کی تھی اور ان کو بڑی مقدار میں جمع کر رکھا تھا۔ تاہم اس جنگ میں ان کا خوف بے بنیاد ثابت ہوا۔ اسی معاملہ کو لے کر کے ایران اور بعض دوسرے ممالک کو بھی دھمکیاں دی جاتی رہتی ہیں۔
سب سے پہلے کیمیائی ہتھیار کے طور پر کلورین گیس کا غلط استعمال، جرمنی نے پہلی عالمی جنگ عظیم میں موثر طور پر کیا تھا۔ بتایا جاتا ہے کہ یہ گیس آسانی سے کسی بھی فیکٹری میں عام نمک کی مدد سے بنائی جا سکتی ہے اور اس کے ضمنی اثرات براہ راست پھیپھڑوں پر پڑتے ہیں۔ یہ گیس پھیپھڑوں کے ٹشوز کو جلا کر تباہ کردیتی ہے۔ جرمنی نے اس گیس کی کئی ٹن مقدار ماحول میں چھوڑ کر ایک قسم کا مصنوعی بادل بنانے میں کام یابی حاصل کی تھی اور ہوا کے رخ کے ساتھ اسے وہ دشمن کی طرف بھیجنے میں کام یاب ہوئے تھے۔ اس گیس کی خوف ناک طاقت کو ذہن میں رکھ کر 1925 میں اس جیسے کسی بھی زہریلے کیمیکل اور بیماریاں پھیلانے والے جراثیم کے ہتھیار کے طور پر غلط استعمال کو محدود کرنے کے لیے ایک معاہدے پر دنیا کے زیادہ تر ممالک نے دست خط کیے۔ پھر بھی اس سلسلے میں چوری چھپے تحقیقی کام جاری رہا تا کہ ان کا استعمال اور بھی موثر اور منظّم طور پر کیا جا سکے۔ اس بابت تمام قواعد و قوانین کی دھجیاں اڑانے والے دوسری عالمی جنگ کے وقت جرمنی میں ہٹلر کے بدنام زمانہ گیس چیمبرز سے بھلا کون ناواقف ہو گا؟
سائنسدان کیڑے مارنے والے ادویات میں پائے جانے والے بہت سے زہریلے کیمیکلز کو بھی موثر ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کے لیے تجربات کر رہے ہیں۔بھارت؛ بھوپال جہاں یونین کاربائڈ پیسٹی سائیڈز (کیڑے مار ادویات بنانے والی فیکٹری) میں 2 دسمبر 1984 کے حادثے میں ٹاکسک اور بیماریاں پھیلانے والے بیکٹیریا کے ذریعے کچھ ہی لمحوں میں ہزاروں کی جانیں سوتے ہی میں چلی گئیں۔ لاکھوں افراد آج بھی اس کے اثرات کو جھیل رہے ہیں۔ پیدائشی طور پر بچوں کا معذور ہونا یا ایسی بیماریاں کہ جس کی دوا بھی مارکیٹ میں دست یاب نہیں ہیں۔ اسی طرح 1995 میں ”مسنرو“ نامی دہشت گرد تنظیم کے لوگوں نے ٹوکیو شہر میں اعصابی نظام کو متاثر کرنے والی گیس کا رساو کر کے ہزاروں لوگوں کو پل بھر میں گھایل کر دیا اور بارہ لوگوں کو موت کی نیند سلا دیاتھا۔
کہا جاتا ہے کہ صدام حسین کے سپہ سالاروں نے عراق میں کردوں کی بغاوت کو دبانے کے لیے ایسے ہی کسی کیمیائی ہتھیار کا استعمال کر کے ہزاروں کو موت کی آغوش میں پہنچا دیا تھا۔ فی زمانہ ہتھیاروں کے معاملے میں تکنیکی ترقی نے ایسے حالات پیدا کر دیے ہیں، جہاں انسانیت کے خلاف عمل کرنے والے لوگوں کو تازہ ترین ہتھیار قبضہ کرنے کا موقع مل جاتا ہے اور وہ زیادہ سے زیادہ بربادی اور دہشت پھیلا سکتے ہیں؛ پھیلا رہے ہیں۔ بدقسمتی سے اب تک وسیع قتل عام والے ہتھیاروں کی پیداوار کے ذخیرے اور استعمال پر پابندی نہیں ہے۔ اگر چہ بعض ممالک نے ان ہتھیاروں پر کنٹرول کے لیے اور ایٹمی ہتھیاروں کے قوانین کے لیے قرارداد بھی منظور کی ہوئی ہے۔ اس مقصد کو حصول کے لیے کئی طرح کی کانفرنسیں کی گئیں، لیکن ان کا نتیجہ بھی سب پر عیاں ہے۔
2013ء تک پوری دنیا میں 17،000 کل ایٹمی ہتھیار موجود ہیں۔ ان میں امریکا کے پاس سب سے زیادہ 2,150 / 7,700، جب کہ روس کے پاس 1,800 / 8,500، فرانس 290 / 250، برطانیہ 160 / 225، چین 250، ہندوستان 65 اور پاکستان کے پاس 25 جوہری ہتھیار ہیں۔ ان سب کے علاوہ دنیا کے 80 ممالک نے وسیع ہلاکت خیز کیمیائی، حیاتیاتی ہتھیار بنا لیے ہیں۔
یہ حیاتیاتی کیمیائی مادے جیسے ہی جان دار کو مس کرتے ہیں، اپنا عمل شروع کر دیتی ہے اور انجام موت۔ اولین صورت میں یہ عضلات کے معلومات کے نظام کی خلیات کے لیے “ایسی ٹل کولین” نامی کیمیکل کا اخراج کرتی ہیں۔ چوں کہ پٹھوں کا بھی نظام کی ترسیل ہی پر انحصار ہوتا ہے۔ اس لیے اگر اعصابی نظام کے خلیات سے ایسی ٹل کولین کو نہ ہٹایا جائے تو ہمارے جسم کااعصابی نظام پورے طور سے مسلسل تنگ ہونے لگتا ہے۔ اور اگر ایسا سینے اور پیٹ کو الگ کرنے والے ڈائی فرام کے پٹھوں کے ساتھ ہوا توانسان گھٹ کر مر جائے گا۔ ہمارے پھیپھڑوں میں مندرجہ بالا گیسوں کی ایک ملی گرام کی مقدار ہی زندگی کو ختم کرنے کے لیے کافی ہے۔ مسٹرڈ اور لیوسائٹ جیسی گیسوں کے ضمنی اثرات جلد پر چھالے اور پھیپھڑوں کے ٹشو کی تباہی کے طور پر دیکھے جا سکتے ہیں۔ مسٹرڈ گیس کا استعمال تو پہلی عالمی جنگ کے وقت سے ہے۔ اس کی دس ملی گرام کی مقدار ہی موت کے لیے کافی ہے۔ ویسے تو بہت سے زہریلے کیمیکل ہیں جن کا غلط استعمال کیمیائی ہتھیاروں کے طور پر ہو سکتا ہے، لیکن مندرجہ بالا کیمیکل سب سے زیادہ خطرناک ہوتے ہیں۔
اینٹی بائیوٹکس کی دریافت سے پہلے طاعون اور ہیضے جیسی بیماریوں نے لاکھوں کروڑوں کی تعداد میں لوگوں کی جانیں لی ہیں اور آج بھی انسان ایڈز، کینسر اور سارس جیسی بیماریوں سے نجات حاصل کرنے کا راستہ تلاش کرنے میں لگا ہوا ہے۔  کیسی ستم ظریفی ہے کہ انسان انھی بیکٹیریا کو ہتھیار کے طور استعمال کر کے ہزاروں لاکھوں جان داروں کی جان لینے کے در پے ہے۔ ایسے حملے کے لیے کسی جدید اسلحے کی ضرورت نہیں ہوگی۔ انھیں تو بس چھوٹے موٹے جانوروں، پرندوں، ہوا، پانی، انسان وغیرہ کسی بھی ذریعے سے پھیلایا جا سکتا ہے۔ سارس کو پھیلانے میں انسانی دماغ کس طرح ذرائع کا کام کر رہا ہے۔ یہ اس عمل کی محض ایک مثال ہے۔
انسانی یا حیوانی فضلے سے بنی کھاد کو کنویں، تالاب یا پانی کی ٹنکی میں ملا دیں تو اس پانی کو ان جانے میں پینے والے طرح طرح کی خطرناک اور جان لیوا بیماریوں کا شکار ہو جائیں گے۔ کیوں کہ کھاد میں طرح طرح کے خطرناک اور جان لیوا جراثیم پلتے ہیں۔ اس قسم کے حملوں کے بعد ہم ایک نادیدہ دشمن کے رحم و کرم پہ ہوں گے، جس کا نہ چہرہ ہو گا نہ شناخت. جب تک ہم ان کے خلاف کارگر دوا کی تلاش کریں گے تب تک شاید بہت دیر ہو چکی ہوگی، اس وقت شاید پورے انسانیت ہی تباہی کے دہانے پر پہنچ چکی ہو گی۔
اب زرا کچھ ایسی مثالوں پر توجہ دیتے ہیں جوحقیقی خطرہ ہیں اور لوگ جن سے سب سے زیادہ ڈرتے ہیں۔ اینتھریکس (Anthrax) پھیلانے والے بیسلس اینتھریسس (Bacillus anthracis) نامی بیکٹیریا کو حیاتیاتی ہتھیار کے طور پر آسانی سے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ تاہم یہ بیکٹیریا متعدی نہیں ہے اور بنیادی طور پر جانوروں میں پھیلتا ہے، پھر بھی کھانے پینے سے سانس کے ساتھ اس کے جراثیم ہمارے جسم کے مسامات میں پہنچ کرجان لیوا ثابت ہو سکتے ہیں۔ سانس کے ساتھ ہمارے جسم میں آئے ”سپورز“ (Spores) سات سے دس دن کے اندر داخل ہو کر بیماری کی علامات ظاہر کرنے لگتے ہیں۔ بخار، کھانسی، سر درد، قے، سردی، کم زوری، پیٹ اور سینے میں درد، سانس لینے میں دقت وغیرہ اس کی ابتدائی علامات ہیں، جو کچھ گھنٹے سے لے کر کچھ دن تک رہتے ہیں۔ پھر یہ علامات کچھ وقت کے لیے غائب بھی ہو سکتی ہیں۔ دوسری بار ان علامات سے سانس کی تکلیف، پسینے کے ساتھ بخار، نیز جلد پر نیلے دھبے؛ نتیجہ بالآخر موت کی شکل میں ظاہر ہوتا ہے۔ اس کی تشخیص سپرو فلاکسیسین (Ciprofloxacin) نامی اینٹی بائیوٹک کے ذریعے سے کی جا سکتی ہے لیکن بعد میں صرف اس “بیکٹیریا” کو تباہ کیا جا سکتا ہے، بیماری کو نہیں۔ اکیسویں صدی کے اوائل سے اس بیکٹیریا کے اسپورز کو پاوڈر کی شکل میں ڈاک کے ذریعے سے پھیلانے کی کوشش بھی دیکھنے میں آئی تھی، جس سے امریکا کے شہری دہشت زدہ ہو گئے تھے۔
اسی طرح”ہیموریجک“ (Hemorrhagic) بخار پیدا کرنے والا آر اے نئے قسم کا ابولا وائرس بھی حیاتیاتی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اس وائرس میں مبتلا مریض کی شناخت سب سے پہلے 1975 میں ڈیمو کریٹک ریپبلک آف کانگو میں ہوئی تھی۔ اس کی انفیکشن کے اثرات 2 سے 21 دنوں کے اندر نظر آتے ہیں۔ بخار، سر درد، جوڑوں اور پٹھوں میں درد وغیرہ اس کی ابتدائی علامات ہیں. بعد میں دست، قے اور پیٹ درد کی علامات بھی پیدا ہوتی ہیں۔ کچھ مریضوں میں جلد پر ددورے، لال آنکھیں اور بیرونی اور اندرونی کم زوری وغیرہ علامات بھی دیکھنے کو ملتی ہیں۔ اس بیماری سے کچھ مریض خود ٹھیک ہو جاتے ہیں تو بہت سے مر بھی جاتے ہیں۔ ایسے لاکھوں کیس موجود ہیں۔
”باٹیولن بیکٹیریا“ کے ذریعے سے پیدا زہر کے ایک گرام کا اربواں حصہ ہی ہمارے جسم میں’لقوہ‘ اور فالج پیدا کرنے کے لیے کافی ہے۔ یہ زہر اعصابی خلیوں سے ان کیمیکلز کا اخراج روک دیتا ہے جن کی طرف سے پٹھوں کا داخلہ ہوتا ہے۔ جانوروں میں منہ کھر بیماری پھیلانے والا ببیکٹیریا بھی حیاتیاتی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے۔ ساتھ ہی، ان وسائل کا استعمال دہشت گرد سرگرمیوں، ہتھیاروں کے لیے تحقیق اور تعمیر پر خرچ کیا جا رہا ہے، جب کہ ان کا استعمال دوسرے مثبت کاموں میں کیا جا سکتا ہے۔ دہشت گرد حملے نہ صرف زندگی چھینتے ہیں، بلکہ صحت،کی امید اور لوگوں کی توقعات کا بھی قتل کر دیتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی وہ انفراسٹرکچر، رہن سہن، کھیت کھلیان، پل، اسپتال اور باقی سہولیات کو بھی بگاڑ دیتے ہیں۔ اس سے بنیادی ضروریا ت جیسے بجلی، پانی وغیرہ کی ترسیل میں بھی رکاوٹ پیدا ہو جاتی ہیں۔ قابلِ کاشت زمین زہریلی ہو جاتی ہے۔
حیاتیاتی ہتھیاروں میں ہمیشہ کسی جان دار فنگس، بیکٹیریا یا جان دار نما اجسام جیسے وائرس کا استعمال کیا جاتا ہے جس کی مدد سے دشمن کو ہلاک یا مفلوج کیا جا سکتا ہے۔ حیاتیاتی ہتھیار کو چلانے کے بعد سے لے کر اس کے کارگر ثابت ہونے تک عموماً کچھ گھنٹوں سے کچھ دن لگتے ہیں، یعنی ہتھیار کے چلائے جانے اور دشمن کی ہلاکت کے درمیان کچھ وقت حائل ہوتا ہے۔ انسان کو نقصان پہنچانے، فصلوں کی تباہی، زمین کی تباہی یا پھر مال مویشی کے خلاف بھی استعمال ہو سکتے ہیں۔ ان کا اپنا اپنا طریقِ مبارزت ہوتا ہے جو اس میں استعمال ہونے والے ذریعے پر منحصر ہوتا ہے۔
کیمیائی ہتھیار کی عام اور قدیم ترین قسم دشمن کے علاقے میں گھس کر یا اپنے علاقے کو چھوڑتے وقت پانی کے ذخائر کو زہر آلود کر دینا ہوتا تھا جس کی مدد سے دشمن کو زیادہ سے زیادہ جانی نقصان پہنچایا جا سکے۔ اس کی مثالوں میں ویت نام میں ایجنٹ اورینج اور افغانستان میں روس کی جانب سے زہر وغیرہ کو پانی میں ملانا شامل ہیں۔
تاہم یہ ہتھیار جنھیں ویپنز آف ماس ڈسٹرکشن یعنی وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار کہا جاتا ہے، اب ایک طرح سے ماضی کا قصہ ہیں۔ نئے دور کی جنگ اب اس سے کہیں زیادہ جدید ہو چکی ہے۔ اب موسمیاتی طرز کو کنٹرول کرنے، بارش برسانے یا کسی علاقے سے بارش کو یک سر ختم کر دینے، زلزلے اور دیگر “قدرتی” تباہی، طوفان برپا کرنے جیسے ہتھ کنڈے استعمال ہو رہے ہیں۔ ظاہر ہے اس طرح کے حملوں کا سیدھا مطلب تو یہی ہے کہ لوگوں کو کھانا بھی نصیب نہیں ہو گا۔ پانی پینے کے قابل نہیں ہو گا، عمارتیں بری حالت میں اور ٹوٹی پھوٹی ہوں گی۔ صحت کی سہولیات کا ملنا دوبھر ہو جائے گا اور دشمنی ختم ہونے کے بعد بھی لوگوں کی زندگی قابل رحم ہوگی۔ اس لیے دہشت گردی کے انتہائی وسائل کے خاتمے اور انسانیت کی تحفظ کی خاطر سب کو صدق دلی سے ایمان دارانہ کردار ادا کرنا ہو گا اور اس عفریت سے پوری دنیا کے ممالک کو مل کر نپٹنا ہو گا۔ اگر ہم ایسا کرنے میں کام یاب ہو گئے، تو اس میں کوئی شک نہیں کہ آنے والی نسلوں کو ایک صاف اور صحت مند ماحول، آب و ہوا دے سکیں گے۔
محمد علم اللہ جامعہ ملیہ، دہلی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

محمد علم اللہ جامعہ ملیہ، دہلی

محمد علم اللہ نوجوان قلم کار اور صحافی ہیں۔ ان کا تعلق رانچی جھارکھنڈ بھارت سے ہے۔ انہوں نے جامعہ ملیہ اسلامیہ سے تاریخ اور ثقافت میں گریجویشن اور ماس کمیونیکیشن میں پوسٹ گریجویشن کیا ہے۔ فی الحال وہ جامعہ ملیہ اسلامیہ کے ’ڈاکٹر کے آر نارائنن سینٹر فار دلت اینڈ مائنارٹیز اسٹڈیز‘ میں پی ایچ ڈی اسکالر ہیں۔ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا دونوں کا تجربہ رکھتے ہیں۔ انھوں نے دلچسپ کالم لکھے اور عمدہ تراجم بھی کیے۔ الیکٹرانک میڈیا میں انھوں نے آل انڈیا ریڈیو کے علاوہ راموجی فلم سٹی (حیدرآباد ای ٹی وی اردو) میں سینئر کاپی ایڈیٹر کے طور پر کام کیا، وہ دستاویزی فلموں کا بھی تجربہ رکھتے ہیں۔ انھوں نے نظمیں، سفرنامے اور کہانیاں بھی لکھی ہیں۔ کئی سالوں تک جامعہ ملیہ اسلامیہ میں میڈیا کنسلٹنٹ کے طور پر بھی اپنی خدمات دے چکے ہیں۔ ان کی دو کتابیں ”مسلم مجلس مشاورت ایک مختصر تاریخ“ اور ”کچھ دن ایران میں“ منظر عام پر آ چکی ہیں۔

muhammad-alamullah has 167 posts and counting.See all posts by muhammad-alamullah