بیل، بکرا اور میری ماں


پچھلے اسکول میں امی نے ہمیشہ مجھے دس روپے دیے تھے جس کا میں ایک سموسہ لے لیا کرتا تھا کبھی کبھار وہ مجھے پچاس روپے دیا کرتیں۔ یہاں روزانہ میرے پاس سو روپے ہوتے مگر پھر بھی میں خوش نہیں تھا۔ یہ ہی سو روپے اگر پچھلے اسکول میں ملا کرتے تو کتنی ساری چیزیں آجاتیں، یہاں تو اسی روپے کا باسی، سخت سا پزا کا ایک ٹکڑا کھانے کے بعد اتنے پیسے بھی نہ بچتے کہ پانی کی ایک بوتل یا جوس ہی پی لیا جا ئے۔ امی مجھے ایک قیمتی بوتل میں گھر سے ٹھنڈا پانی دیا کرتیں، لیکن شدید گرمی میں پانی ختم ہو نے کے بعد مزید پانی یا مشروب کی خواہش ہو تی تھی۔ پچھلے اسکول میں تو ہم اسکول کی ٹنکی سے ہی منہ لگا کر پانی پی لیا کرتے تھے۔ لیکن یہاں سب اپنے ساتھ پانی لاتے یا کینٹین سے خرید کر پیا کرتے۔ ایک دن میں نے دیکھا فرش پر سو کا نوٹ پڑا تھا، لیکن کسی نے اسے نہیں اٹھایا۔ میرے پچھلے اسکول میں تو کسی کوآٹھ آنے کا سکہ نظر آجائے تو اس کے دس دعوے دار پیدا ہو جاتے تھے۔

امی پہلے اس اسکول میں بس سے جایا کرتی تھیں، اسٹاپ سے ذرا دور وہ رکشہ کرلیا کرتیں۔ لیکن اب میرے ساتھ ہونے کی وجہ سے انہوں نے ٹیکسی لگوالی تھی۔ انہوں نے یہ سارا خرچ نکالنے کے لیے سلائی سیکھ لی تھی۔ وہ بھی اسکول کی دگر استانیوں کی طرح قیمتی اور فیشن ایبل برانڈیڈ کپڑے پہنتیں۔ مگر کسی کو یہ بات نہیں معلوم تھی کہ یہ خود ان کا اپنے برانڈیڈ ہیں۔

مجھے اس اسکول میں گئے ہوئے ایک ہی ماہ ہوا تھا۔ عباس، کمیل اور یاسر سے میں روزآنہ ہی فیس بک کی معرفت باتیں کیا کرتا۔ وہ مجھے اسکول کے قصے بڑھا چڑھا کر بتایا کرتے اب نویں جماعت میں جا کر وہ سب اور بھی بد معاش ہو گئے تھے۔ پورے اسکول کو انہوں نے سر پر اٹھایا ہوا تھا۔ میں ان کی باتیں ایک حسرت سے سنا کرتا۔ ایک ہوک سی دل میں اٹھتی کاش میں کسی طرح اس اسکول میں دوبارہ جا سکتا۔ میری فیس کے لیے پیسوں کی پریشانی تھی، نہ کوئی بہانہ چل سکتا تھا، مجھے تو اب کسی بھی طرح اس اسکول میں رہنا تھا۔ کبھی کبھی میں اتنا خود غرض ہو جا تا کہ دعا کرتا کہ کچھ ایسا ہو جائے کہ اسکول والے امی کو اس اسکول سے نکال دیں مگر امی بڑی محنتی اور پر خلوص ٹیچر تھیں وہ اساتذہ کے ساتھ ہر مسئلے میں تعاون کرتیں اور بچوں میں بہت مقبول تھیں۔

ویسے تو امی کو جھوٹ سے نفرت تھی لیکن اسکول کے بچوں میں میری شان بڑھی رہے اس کے لیے وہ بہت سے جھوٹ سکھاتی رہتی تھیں۔ مثلاً میں اسکول کے دوستوں میں کبھی اپنی شان نہ گھٹنے دوں، اس کے لیے مجھے ان سے کہنا ہے کہ میرے پاس بھی فلاں برانڈ کی گاڑی ہے۔ لیکن امی کو ڈرائیو نہیں آتی اور ڈرائیور کا جھنجھٹ وہ پالنا نہیں چاہتیں، اس لیے ہم ٹیکسی سے آتے ہیں۔ اور ہمارے سارے رشتے دار ڈیفنس میں رہتے ہیں۔ اور ہم فلاں پوش علاقے میں رہتے ہیں۔

بقرعید قریب آرہی تھی۔ امی نے کہہ دیا کہ میں سب کو یہ ہی بتا ؤں کہ ایک بیل اور ایک بکرا آیا ہے۔ میں امی سے تو اپنی حرکتوں کو چھپانے پر جھوٹ بولتا تھا، لیکن یہ جھوٹ لاکھ بے ضرر سہی، مجھ سے بولے نہیں جاتے تھے، میں ہکلانے لگتا تھا۔ مگرلگتا تھا امی اس معاملے میں بڑی طاق تھیں۔ امی کا کہنا تھا کہ بڑے گھر کے بچے اپنی حیثیت کے مطابق دوستی کرنا پسند کرتے ہیں۔ بڑے گھر کے بچوں سے دوستی کرو گے تو خود بھی ان جیسا لائف اسٹائل اپنانے کے لیے اتنی ہی محنت کرو گے۔ میں نے تمہیں اس اسکول میں اسی لیے ڈالا ہے۔ تاکہ تم کو Groom کر سکو۔

مگر میرا احساسِ کمتری بڑھتا چلا جا رہا تھا۔ یہ ایک ماہ مجھے ایک صدی کی طرح محسوس ہوتا تھا۔ اکثر بچے بڑے اعتماد اور انگریزوں کے سے تلفظ کے ساتھ روانی سے انگریزی بولتے تھے۔ ٹیچر جب مجھ سے کچھ پو چھتی تو غلط انگلش بولنے کے خوف سے میں ایک لفظ بھی نہ بول پاتا۔ امی مجھے انگریزی فلمیں دیکھنے اور تلفظ پر غور کرنے کے لیے کہتیں وہ اکثر کہتیں کہ ان کا تلفظ انگریزی فلموں اور ماحول سے ہی بہتر ہوا ہے اور میں بھی جلد سیکھ جاؤں گا۔

کلاس میں میں میں سب سے تمیز دار بچہ مشہور تھا۔ جب کہ دیگر بچے کافی شور کرتے، سوالات کرتے، لیکن میں خود کو لکھائی یا پڑھائی میں مصروف ظاہر کرتا۔ اور حقیقت بھی یہ ہی تھی۔ میرا ہوم ورک اور کلاس ورک وقت پر مکمل ہوتا۔ اساتذہ امی سے میری تعریف کیا کرتے اور امی بھی اپنے فیصلے پر خوش ہو تیں۔ وہ اب اکثر مجھے شام کو گھمانے بھی لے جا یا کرتیں۔ لیکن میں آزادی چاہتا تھا۔ اسکول میں امی، گھر میں امی۔ پارک میں امی، ریسٹورینٹ میں امی۔ ہر جگہ امی کی موجودگی سے مجھے اکتاہٹ ہو نے لگی تھی۔

عباس، کمیل اور یاسر میرے ہم راز، اور ہمدرد تھے۔ انہوں نے مجھے امی کے خلاف بھڑکانا شروع کر دیا۔ میں اب بڑا ہوں مجھے اپنی زندگی گزارنے کا پورا حق حاصل ہے۔ انسان کو ایک ہی مرتبہ زندگی ملتی ہے اگر میں خوش نہیں تو مجھے امی کو اپنا فیصلہ سنا دینا چاہیے۔ انہوں نے انہیں مجھے کہا کہ میں امی کو دھمکی دوں کہ اگر انہوں نے مجھے دوبارہ برٹش لارڈز اسکول میں داخل نہیں کیا تومیں خود کشی کر لوں گا۔

زبردست آئیڈیا تھا۔ مجھے یقین تھا کہ اس دھمکی کہ بعد امی اسی طرح خاموش ہو جا ئیں گی جیسے میری کسی بڑی غلطی یا جھوٹ پر ہو جا یا کرتی تھیں۔ اگلے روز بقرعید تھی۔ ہم نے خالہ کے گھر گائے میں حصہ ڈالا تھا۔ اور ہم صبح سویرے ہی ان کے گھر پہنچ جایا کرتے تھے۔ میں نے سوچا میں صبح، امی سے خالہ کے گھر جاتے ہوئے راستے میں بات کروں گا۔ پھر جو ہو گا دیکھا جا ئے گا۔

صبح سو کر اٹھا تو بڑی حیرانی ہوئی ہمیشہ امی ہی کی آواز پر آنکھیں کھولتا تھا۔ امی صبح سویرے اٹھنے کی عادی تھیں۔ میں نے کروٹ لی۔ امی سو رہی تھیں۔ بہت عرصے بعد امی میرے کمرے میں سوئی تھیں۔ اٹھ کر لائٹ جلائی گھڑی کی طرف دیکھا دو پہر کے دو بج رہے تھے۔ خالہ کے گھر حصہ لینے جانا تھا۔ امی۔ امی۔ امیں نے امی کو آوازیں دینا شروع کیں۔ مگر اس بار امی نے میری بات سنے بغیر ہی پراسرار خاموشی اختیار کر لی تھی۔ اور اس کے بعد پھر میں نے کبھی برٹش لارڈز اسکول کا نام نہیں لیا۔

امی والے اسکول میں اے لیول کرنے کے بعد میں نے اسی اسکول میں پڑھانا شروع کر دیا۔ اور اب میرے بچے بھی اسی اسکول میں پڑھتے ہیں۔ ہر سال بقرعید پر میرے گھر میں ایک بیل اور ایک بکرا آتا ہے۔ میرے پاس ایک مہنگے برانڈکی گاڑی اور پوش علاقے میں گھر ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2