پاکستانی جمہوریت: آگے راستہ ٹھیک نہیں ہے


  

پاکستان تحریک انصاف کے ایک وفد نے مسلم لیگ (ن) کے قائد اور سابقہ قومی اسمبلی کے اسپیکر ایاز صادق کے ساتھ ملاقات کی ہے اور پارلیمانی معاملات میں مل کر چلنے کی یقین دہانی کروائی ہے۔ وفد کی قیادت قومی اسمبلی کے اسپیکر کے عہدہ کے لئے تحریک انصاف کے نامزد امید وار اسد قیصر نے کی اور اس میں خیبر پختون خوا کے سابق وزیر اعلیٰ پرویز خٹک کے علاوہ شفقت محمود اور پارٹی کے ترجمان فواد چوہدری شامل تھے۔ اس موقع پر تحریک انصاف کے لیڈروں نے مسلم لیگ (ن) کی قیادت کو عمران خان کی بطور وزیر اعظم تقریب حلف برداری میں شرکت کی دعوت دی اور انتخابات میں دھاندلی کے حوالے سے اپوزیشن کے تحفظات دور کرنے کا وعدہ بھی کیا۔ ملک و قوم کو درپیش مسائل کی موجودہ صورت حال میں پارلیمانی پارٹیوں کے درمیان مفاہمانہ مواصلت اور ایک دوسرے کی ضرورتوں کو سمجھتے ہوئے آگے بڑھنے کا رویہ بنیادی اہمیت رکھتا ہے۔ تحریک انصاف کو قومی اسمبلی کے علاوہ پنجاب اسمبلی میں بھی متعدد آزاد ارکان اور چھوٹی پارٹیوں کے ساتھ مل کر حکومت بنانا پڑے گی۔ ان دونوں اسمبلیوں میں اسے بھاری بھر کم اپوزیشن کا سامنا کرنا پڑے گا۔ تحریک انصاف اگر اپنے انتخابی منشور پر کسی حد تک عمل کرنےکا ارادہ رکھتی ہے تو اسے جارحانہ انداز حکومت اپنانے کی بجائے مفاہمت اور مصالحت کو مشعل راہ بنانا ہو گا تاہم اس کی بھاری قیمت بھی ادا کرنا پڑے گی۔

ملک کو اس وقت تین بنیادی مسائل کا سامنا ہے۔ ان میں مالی معاملات، خارجہ تعلقات اور سلامتی کے امور شامل ہیں۔ لیکن یہ تینوں معاملات ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔ کسی ایک شعبہ میں کئے جانے والے اقدامات دوسرے شعبوں کی صورت حال اور مسائل پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ خارجہ سطح پر امریکہ عمران خان کے عہدہ سنبھالنے سے پہلے ہی پاکستان کے خلاف سخت رویہ اختیار کرنے کا اعلان کرچکا ہے۔ پاکستان کی امداد بند کرنے کے علاوہ امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے ایک انٹرویو میں پاکستان کو مزید قرضہ دینے کے بارے میں آئی ایم ایف کو متنبہ کیا تھا۔ اس کے علاوہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکی فوجی اداروں میں پاک فوج کے افسروں کے تربیتی کورسز کا پروگرام بند کرنے کا حکم دیا ہے۔ اس طرح امریکہ نئی پاکستانی حکومت پر قائم ہونے سے پہلے ہی یہ واضح کرنے کی کوشش کررہا ہے کہ اگر اس کی شرائط کو قبول نہ کیا گیا تووہ پاکستان کو تنہا کرنےاور اس کی مالی مشکلات میں اضافہ کا سبب بنے گا۔

مائیک پومپیو نے اپنے بیان میں آئی ایم ایف سے ممکنہ قرضہ کے معاملہ کو پاکستان کے چین کے ساتھ تعلقات، سی پیک منصوبہ اور چینی قرضوں کی ادائیگی سے جوڑنے کی کوشش کی ہے۔ یہ طرز استدلال پاکستان کو دھمکی دینے اور امریکی عوام کو گمراہ کن تصویر دکھانے کے سوا کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔ امریکہ خود اپنے بجٹ کا توازن برقرار رکھنےکے لئے چین سے قرضے لیتا ہے اور چین کی بھاری بھر کم معیشت پاکستان سے قرضوں کی اقساط کی ادائیگی پر انحصار نہیں کرتی۔ اس کے علاوہ سی پیک کے تحت جاری متعدد منصوبے ابھی زیر تکمیل ہیں۔ معاہدہ کے مطابق منصوبوں پر قرضوں کی ادائیگی کا آغاز منصوبوں کے فعال ہونے کے بعد ہوگا۔ پاکستان نے ابھی تک آئی ایم ایف سے کسی قرض پیکج کی درخواست بھی نہیں کی ہے۔ البتہ نامزد وزیر خزانہ اسد عمر 12 ارب ڈالر کے مالیاتی پیکج کی بات کرچکے ہیں۔ امریکہ بھی ان حقائق سے آگاہ ہے لیکن وہ پاکستان کی نئی حکومت کو اس کے آغاز سے پہلے ہی دباؤ میں لانا چاہتا ہے۔ اس حقیقت سے انکار بھی ممکن نہیں کہ پاکستان کو ادائگیوں کا توازن برقرار رکھنے کے لئے فوری طور سے کثیر قرض کی ضرورت ہے جو آئی ایم ایف سے ہی حاصل کیا جاسکتا ہے۔ امریکہ نے عملی طور سے مجبور کیا تو آئی ایم ایف پاکستان کو قرضہ دینے سے گریز بھی کرسکتا ہے۔

خارجہ تعلقات کا یہ پہلو ملک کی معاشی صحت اور ضرورت کے لئے بنیادی اہمیت کا حامل ہے۔ امریکہ افغانستان کے حوالے سے پاکستان کے ساتھ اپنی شرائط پر معاملات طے کرنا چاہتا ہے۔ ملک کی فوج اور سابقہ حکومت ان مطالبوں کو پوری طرح ماننےسے انکار کر چکی ہیں۔ البتہ دہشت گردی کے خلاف پاکستان حتی الامکان تعاون کا یقین دلاتا رہا ہے۔ صدر ٹرمپ اور ان کی حکومت جارحانہ اور کسی حد غیر سفارتی ہتھکنڈے اختیار کرنے کی شہرت رکھتی ہے۔ صدر ٹرمپ اپنے ہمسایہ ملکوں کینیڈا اور میکسیکو کے علاوہ چین اور یورپین ممالک کے ساتھ بھی اسی یک طرفہ اور غیر متوازن جارحیت کا مظاہرہ کرچکے ہیں۔ ایران کے خلاف امریکہ کے اقدامات اور حال ہی میں ترکی کے ساتھ شروع کی گئی معاشی جنگ اس کی تازہ ترین مثالیں ہیں۔ اس حوالے سے پاکستان کو صدر ٹرمپ سے کسی بھلائی کی امید نہیں رکھنی چاہئے۔ لیکن اس کے ساتھ ہی یہ بھی حقیقت ہے کہ امریکہ دنیا کی سب سے بڑی طاقت اور معیشت ہے۔ اس کے ساتھ دشمنی کوئی آپشن نہیں ہے۔ تاہم امریکہ کے یک طرفہ اور ناجائز مطالبات کا سامنا کرنے کے لئے متبادل دوستیاں بنانا ہوں گی اور ہمسایہ ملکوں کے ساتھ کشیدگی اور تصادم کی صورت حال کو ختم کرنا ہوگا۔ اس حوالےسے افغانستان کے علاوہ بھارت سر فہرست ہے۔

باقی تحریر پڑھنے کے لئے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2742 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali