آپ بیٹھ کر حالات کا رونا نہیں رو سکتے: وراٹ کوہلی


وراٹ کوہلی

دنیا میں ٹیسٹ کرکٹ کی نمبر ایک ٹیم کے کپتان جو خود بیٹنگ کی درجہ بندی میں پہلی پوزیشن پر ہوں جب وہ کہیں کہ ’ہم ہار کے ہی لائق تھے‘ تو اس پر مختلف قسم کے سوالات کا پیدا ہونا ضروری ہے۔

کپتان وراٹ کوہلی کی مایوسی کا سبب لارڈز ٹیسٹ کے سکور کارڈ سے بخوبی واضح ہوتا ہے۔ انڈیا کی ٹیم بارش سے متاثرہ میچ میں چوتھے ہی دن گھٹنے ٹیک بیٹھی۔

پانچ میچوں کی سیریز کا دوسرا میچ لارڈز کے تاریخی میدان پر کھیلا گیا جس میں پہلا دن پورا کا پورا بارش کی نذر ہو گیا۔ دوسرے دن بھی صرف 35.2 اوورز کا کھیل ہوا جس میں انڈیا کی پوری ٹیم آوٹ ہو گئی۔ چوتھے دن بھی کھیل کئی بار بارش سے متاثر ہوا اور انڈیا کی پوری ٹیم اپنی دوسری اننگز میں 47 اوورز میں آوٹ ہو گئی۔

پہلی اننگز میں انڈیا 107 رنز پر ڈھیر ہو گئی جبکہ دوسری اننگز میں تمام تر کوششوں کے باوجود 130 رنز ہی بنا سکی اور اننگز کی شکست سے دو چار ہوئی۔ انگلینڈ نے سات وکٹوں کے نقصان پر 396 رنز بناکر اننگز ڈکليئر کر دی تھی۔

اوپنر مرلی وجے نے دونوں اننگز میں کوئی رنز بنانے کی زحمت گوارا نہ کی جبکہ وکٹ کیپر بیٹسمین دینیش کارتک نے دونوں اننگز میں ایک رنز پر ہی اکتفا کیا۔

ٹاپ آرڈر بیٹسمین لوکیش راہل اور چتیشور پجارا نے دونوں اننگز میں 18-18 رنز کا تعاون کیا۔

برمنگھم میں کھیلے جانے والے پہلے ٹیسٹ میں 200 رنز بنانے والے کپتان وراٹ کوہلی لارڈز میں صرف 40 رنز بنا سکے۔

آخر ایسی شکست کی وجہ کیا ہے؟

انڈیا

انڈیا کے برعکس صرف 25 ٹیسٹ میچوں کا تجربہ رکھنے والے ووکس نے تنہا 137 رنز کی اننگز کھیلی۔ انڈیا کے بیٹسمین تجربے میں ان سے کہیں آگے ہیں۔

وراٹ کوہلی 68، مرلی وجے اور پجارا 59-59، رہانے 47 اور شیکھر دھون نے 31 ٹیسٹ میچز کھیل رکھے ہیں۔ ایسے میں یہ سوال اٹھتا ہے کہ کیا وہ حالات کے مطابق اپنے آپ کو ڈھالنے کے قابل نہیں ہیں؟

کپتان وراٹ کوہلی کا کہنا ہے کہ ’آپ بیٹھ کر حالات کا رونا نہیں رو سکتے۔‘

یہ بھی پڑھیے

’انڈیا کے بیٹنگ یونٹ میں لڑنے والے کردار کی کمی ہے‘

’صرف ایک کوہلی کافی نہیں ہے‘

سینیئر کھیل صحافی اياز میمن کا کہنا ہے کہ اس بات کا تجزیہ کیا جانا چاہیے کہ غلطی کہاں ہوئی ہے؟

انہوں نے کہا: ’ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ انڈین بیٹسمین کے پاس ٹیلنٹ نہیں ہے۔ دھون، پجارا، رہانے وغیرہ کے پاس صلاحتیں ہیں لیکن ان سب کے ناکام ہونے کے اسباب کا پتہ لگانا ضروری ہے۔‘

ایاز میمن جس غلطی کی جانب اشارہ کر رہے ہیں کہیں وہ ٹیم کے انتخاب کی جانب تو نہیں۔

انڈیا

انڈین ٹیم کی انتظامیہ ہر میچ میں کوئی نہ کوئی تبدیلی کر رہا ہے۔ اس سے غیر یقینی کی صورتحال پیدا ہوتی ہے۔ یوں لگتا ہے کہ جیسے کسی کھلاڑی کو یہ پتہ نہ ہو کہ وہ اگلا میچ کھیلے گا یا نہیں۔

برمنگھم میں شیکھر دھون ٹیم میں تھے تو پجارا بینچ پر جبکہ لارڈز میں اس کا الٹ نظر آیا۔ تیسرے ٹیسٹ کے لیے بھی یہ واضح نہیں کہ کون کھلاڑی حتمی 11 میں شامل ہوگا۔

انڈیا کے سابق کرکٹر گاوسکر نے بھی اپنے مضمون میں دھون کو بینچ پر بٹھائے جانے پر حیرت کا اظہار کیا تھا۔

ایاز میمن کا کہنا ہے کہ کھیل میں مینجمنٹ کا اہم کردار ہوتا ہے۔ کس کھلاڑی کا کس طرح استعمال کرنا ہے یہ ذمہ داری کپتان کی ہوتی ہے۔ کچھ کھلاڑی ٹیم کے اندر کے مقابلے سے خوفزدہ رہتے ہیں۔ انھیں یہ خوف ہوتا ہے کہ کہیں کوئی دوسرا کھلاڑی ان کی جگہ نہ لے لے۔

انڈیا پر دباؤ

ایسے میں انڈیا کے ہر کھلاڑی پر اچھی کارکردگی کے مظاہرے کا دباؤ ہوتا ہے۔

ایاز میمن کہتے ہیں کہ دو میچ تو ہار چکے ہیں، اب سیریز ہارنے کے دہانے پر ہیں۔ اگر اب بھی وراٹ کوہلی اس معاملے کو نہیں سلجھا پاتے ہیں تو مسائل میں اضافہ ہو جائے گا۔

کرس ووکس

37 ٹیسٹ میچز میں انڈیا کی کپتانی کرنے والے وراٹ کوہلی کو 21 میچوں میں کامیابی ملی ہے لیکن انگلینڈ میں مسلسل دو شکست نے ان کے سامنے بڑے چیلنجز پیدا کر دیے ہیں۔

ایاز میمن کا کہنا ہے کہ اب دباؤ کپتان پر آ گیا ہے۔ ان کی ذمہ داری ہے کہ درست ٹیم کا انتخاب ہو۔

جبکہ وراٹ کا کہنا ہے کہ ’ہم دو صفر سے پیچھے ہیں۔ ہمارے پاس ایک ہی راستہ ہے کہ ہم مثبت سوچ رکھیں اور اسے دو ایک بنانے کی کوشش کریں۔‘

اس سے قبل انڈیا کے سابق کرکٹر سورو گنگولی نے کہا تھا کہ ’انڈیا کی بیٹنگ یونٹ میں لڑنے والے کردار کی کمی ہے۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32497 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp