کچھ تو احساس زیاں تھا پہلے


نوے کی دہائی کے نوجوان اینٹی اسٹیبلش منٹ مزاج کے حامل تھے، یہ ضیا کے مارشل لا میں ہوش سنبھالنے والی نسل تھی۔ فطری طور پہ یہ نسل تبدیلی کے لیے بے نظیر بھٹو کے ساتھ کھڑی تھی۔ جنھیں نہیں معلوم انہیں بتاتا چلوں، ضیا دور میں پاکستان میں امن امان کی مجموعی صورت احوال مشرف دور سے کہیں بہتر تھی اور امریکا سے جہاد کے نام پر ڈالر بھی خوب آتے تھے، ملکی خزانہ بھرا تھا۔

آج کے نوجوان نے مشرف کے دور میں آنکھ کھولی، جو امریکہ کی ایک فون کال پہ ڈھے گیا تھا، جب کہ ضیا الحق نے ‘اونٹ کے منہ میں زیرہ’ (peanut) کہ کے امریکا کی معمولی امداد کو لوٹا دیا تھا، اور امریکا سے افغان وار پہ نسبتا بہتر ڈیل کی تھی۔ مشرف دور میں اکبر بگٹی کی شہادت، لال مسجد جیسے سانحے، بارہ مئی 2007ء میں ریاست کی طرف سے قتل عام ہوتا دیکھا، پولس اکیڈمیوں پر حملے، ایف آئی کے دفتر پہ خود کش حملے، بے نظیر کی شہادت; مشرف کے بعد اس کی غلط پالیسیوں کے بھگتان میں مہران بیس پر حملہ، کامرہ بیس پر حملہ، جی ایچ کیو پر حملہ، بازاروں میں، مسجدوں میں دھماکے اور لاقانونیت اور بے امنی کی کون کون سی مثال دی جاے، کہ انسان کی روح نہ لرز جاتی ہو۔ اور پھر ہمارے یہاں سے دنیا کا سب سے مطلوب دہشت گرد اسامہ بن لادن کا برآمد ہونا۔ امریکی میرینز کا آپریشن جس نے ہمارے دعووں کی قلعی کھول کے رکھ دی۔

فوجی آمر مشرف کا دور گزرے محض دس سال ہوے ہیں; اتنے برس تو ایک فوجی حکومت کو معزول کرنے میں لگتے رہے ہیں۔ خیر بات ہو رہی تھی آج کے نوجوان کی، جو اتنا کچھ دیکھتے بڑا ہوا، اور پھر اس نوجوان نے دیکھا کہ آخری دس برسوں میں ملکی حالات پہلے سے کہیں بہتر ہوے۔ آج نہ کراچی سے روز اٹھارہ بیس لاشیں گرنے کی خبریں آتی ہیں، نہ خود کش دھماکوں کا وہ اسکور ہے، جو اس سے پہلے معمول تھا۔

ضیا اور مشرف کے ڈسی ہوئی ہماری نسل، اس وقت شرم سے پانی پانی ہو جاتی ہے، جب ہمارا یہ نوجوان حلق پھاڑ پھاڑ کے چیختا ہے کہ امریکا ہو یا روس، انتخابات کے نتائج وہاں کی اسٹیبلش منٹ کی مرضی کے آتے ہیں، تو کیا ہوا ہمارے یہاں اسٹیبلش منٹ مداخلت کرتی ہے۔

خدا کی قسم، ہماری نسل جاہل تھی، مگر اتنے جاہل ہم نوے کی دہائی میں نہیں تھے، جب عالمی اخباروں تک رسائی نہ تھی، جیسا کہ آج ایک ‘کلک’ کی دوری پہ ہیں۔ یہ نوجوان خود کچھ پڑھنا نہیں چاہتے، دیکھنا نہیں چاہتے، سننا نہیں چاہتے، سمجھنا نہیں چاہتے اور دوسروں کو گھڑے ہوے جھوٹ پر یقین کرنے پر زور دیتے ہیں۔

تبدیلی کے یہ عجب شائقین ہیں کہ مرض کی نوعیت نہیں سمجھتے، ہماری نسل کی غلطیوں کا تجزیہ نہیں کرتے، ملک کی تاریخ پر نظر نہیں رکھتے، بس ایک ہی دھن ہے کہ ایک صبح بیدار ہوں گے تو سب ٹھیک ہو چکا ہو گا اور یہ تبدیلی کے گیت گاتے سڑکوں پر نکلیں گے۔

ظفر عمران

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ظفر عمران

ظفر عمران کو فنون لطیفہ سے شغف ہے۔ خطاطی، فوٹو گرافی، ظروف سازی، زرگری کرتے ٹیلی ویژن پروگرام پروڈکشن میں پڑاؤ ڈالا۔ ٹیلی ویژن کے لیے لکھتے ہیں۔ ہدایت کار ہیں پروڈیوسر ہیں۔ کچھ عرصہ نیوز چینل پر پروگرام پروڈیوسر کے طور پہ کام کیا لیکن مزاج سے لگا نہیں کھایا، تو انٹرٹینمنٹ میں واپسی ہوئی۔ آج کل اسکرین پلے رائٹنگ اور پروگرام پروڈکشن کی (آن لائن اسکول) تربیت دیتے ہیں۔ کہتے ہیں، سب کاموں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑا تو قلم سے رشتہ جوڑے رکھوں گا۔

zeffer-imran has 323 posts and counting.See all posts by zeffer-imran