پاکستانی جذباتی قوم



ہم ایک جذباتی جنونی قوم ہیں، جو بات ذہن مین بیٹھ جاتی ہے کر گذرتے ہیں. کوئی مسئلہ ہو کوئی مہم ہمیں اکھٹا کرنے اور جذباتی کرنے کی دیر ہے پوری قوم اس ڈگر پر چل پڑتی ہے.

سنہ65 کی جنگ میں قوم کا جنون اور بہادری ہم دیکھ چکے ہیں کیسے پوری قوم دشمن کے خلاف سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن گئی تھی. کرکٹ کا سیزن ہو تو کرکٹ کے دیوانے عام بات چیت میں بھی آوٹ اور ناٹ آوٹ کی گردان کرتے نظر آتے ہیں اور اگر بھارت کے ساتھ میچ ہو تو پوری قوم کرکٹ کے بخار میں مبتلا ہوجاتی ہے اور ہار جیت موت زندگی کا مسئلہ بن جاتا ہے.

حالیہ دنوں کے الیکشن اس بات کے گواہ ہیں کہ الیکشن مہم میں تبدیلی کے نعرے نے اتنا متاثر کیا کہ پوری قوم تبدیلی کی رو میں بہہ گئی اور ہر طرف تبدیلی ہی تبدیلی نظر آرہی ہے پرانے چہرے یکسر غائب ہوئے اور نئے چہروں کی بہار ہے خدا کرے یہ تبدیلی ہمیں راس آئے.

پاکستان بننے کے کافی سالوں تک یوم آزادی اس طرح نہیں منایا جاتا تھا جیسے آج کل رواج پاگیا ہے. یوم آزادی کی تقریبات سرکاری سطح پر یا پھر تعلیمی اداروں تک محدود تھیں. کب ایسی ہوا چلی کہ ہر طرف یوم آزادی کا شوروغوغامچ گیا. یہاں تک کہ جشن آزادی 14 اگست تک محدود نہیں رہا بلکہ یکم اگست سے ہی جشن کا سماں ہوتا ہے.

یہ دن تہوار کی طرح منایا جانے لگا ہے جھنڈیوں سے لے کر جھنڈوں تک لاکھوں کروڑوں کی خریداری، بیجز، کپڑے، ٹوپیاں جس بازار یا شاپنگ سینٹر میں جاؤ ہرے سفید کپڑوں کی دکانیں سلے سلائے سوٹ، رومال، اسکارف، غرض یوم آزادی سے متعلق ہر چیز بک رہی ہے ہر جگہ آزادی سیل کے نام پر برانڈڈ کپڑوں کی کی خریداری پر ایسا رش جیسے عید کی خریداری پر ہوتا ہے لوگ بھی سیل کے چکر مین بے تحاشہ خریداری کرتے ہیں اور بچت کے چکر میں الٹا فضول خرچی کر بیٹھتے ہیں بعد میں آزادی سیل بھگتتے ہیں.

جس شاپنگ مال میں دیکھو اسٹیج بنا کر پروگرام ہورہے ہیں ناچ گانے کے ساتھ قومی نغمے بج رہے ہیں، پوری قوم سر سے پیر تک سراپا آزادی بنی ہوئی ہے. بغیر سائیلنسر کی موٹر سائیکلیں دندناتی پھر رہی ہیں، رات گئے تک نوجوان لڑکے بائیکس کی ریس لگاتے ہیں اور نڈر تو ون وہیلنگ کا مظاہرہ جان پر کھیل کر کرتے ہیں اور حادثات کا شکار ہوجاتے ہیں .

ریسٹورنٹ اور ہوٹلوں میں آزادی ڈیل پر کھانے مل رہے ہیں. چودہ تاریخ کی رات کو فائر ورک پر کروڑوں روپے آگ کی نذر کردیتے ہیں . مختلف شوز اور کنسرٹ ہورہے ہیں رات گئے تک لوگوں کا رش اس بات کی گواہی ہے کہ ہم فارغ قوم ہیں یا پھر بہت خوشحال قوم ہیں جسے کسی بات کی فکر نہیں نہ کوئی مسئلہ ہے نہ مشکل ہر چیز ہمیں دروازے پر مہیا ہے.

کیا یہ سب کرنا جائز ہے؟ کیا یہ سب ہمیں زیب دیتا ہے؟ بجا ہے خوشی منانا ہمارا حق ہے لیکن کیا ہم اس خوشی کے متحمل ہو سکتے ہیں؟ ہمارا ملک چاروں طرف سے مسائل سے دوچار ہے، سب سے پہلا مسئلہ دہشت گردی کا ہے جس کے خلاف لڑتے لڑتے ہماری پولیس اور فوج کے ہزاروں جوان اور ہزاروں شہری لقمئہ اجل بن چکے ہیں کیا پوری قوم اس دہشت گردی کے خلاف متحد نہیں ہوسکتی اور سب ملکر پاکستان کو دہشت گردوں سے پاک کردیں.

دوسرا بڑا مسئلہ پانی کا، پانی کے ذخائر نہ ہونے کے برابر رہ گئے ہیں، پانی جمع کرنے کا کوئی موثر ذریعہ نہیں ہے، پھر بھی ہم پانی ضائع کیے جارہے ہیں ہر فرد انفرادی طور پر سوچتا ہے میں پانی محفوظ کرکے کیا کر لوں گا. اتنے سے پانی سے کیا ہو جائے گا. ڈیم بنانے کے لیے چیف جسٹس نے فنڈ جمع کرنے کی مہم شروع کی ہے لیکن اتنا بہت سا فنڈ کہاں سے جمع ہو جائے گا کہ ایک ڈیم بن جائے اس کے لیے لوٹی ہوئی دولت پاکستان واپس لائیے اس پر زور دیا جائے تاکہ ڈیم بن سکے.

تیسرا بڑا مسئلہ تعلیم کا ہے سرکاری اسکول مویشی باندھنے کے کام آرہے ہیں. ہر پڑھا لکھا پاکستانی قوم آزادی پر عہد کرے کے ایک ان پڑھ کو پڑھائے گا تو یقیناً جہالت کے اندھیرے دور ہوسکتے ہیں. ایک اور بڑا مسئلہ مریضوں کو علاج معالجے کی سہولت نہ ہونے کہ برابر ہے سرکاری ہسپتالوں کی حالت خراب تر ہے اور ہم یوم آزادی منارہے ہیں.

جس ملک کا بال بال قرضے میں ڈوبا ہوا ہو اس ملک کے عوام کو ایسی حرکتیں زیب دیتیں ہیں، یوں پیسے کا زیاں، یوں وسائل کا استعمال زیب دیتا ہے. حکمراں ایک جگہ سے قرضہ لے کر دوسرے کا قرض ادا کررہے ہیں نہ یہ ادا ہوتا ہے اور نہ وہ بلکہ سود کی قسط ادا کرکے کہتے ہیں قرضہ ادا کردیا، قرضہ وہیں کا وہیں موجود ہے .
دراصل اس قوم کو سبز باغ دکھا کر مختلف حرکتوں میں لگا دیا گیا ہے کبھی ویلنٹائن ڈے، کبھی فارد، مدر ڈے کبھی یوم آزادی اس میں محو ہوکر اس قوم نے ساری مشکلات اورمسائل بھلادیے ہیں اور باور یہ کروایا جاتا ہے کہ یہ دن منانا فخر وخوشی کی بات ہے.

یوم آزادی ضرور منائیں لیکن یہ ملک جس جہدوجہد اور قربانیوں سے بنا ہے اسے یاد رکھیں، ان مشکلات اورمسائل کو نظر میں رکھیں کہ ہمارا ملک کن حالات سے گذر رہا ہے۔ کیا وہ ایسی مادر پدر آزادی کا متحمل ہو سکتا ہے کہیں اس طرح ہم اپنے ملک سے دشمنی تو نہیں کر رہے. ہم اپنے ملک کو اپنے آپ کو کسی قابل تو کر لیں پھر اس کے شایان شان یوم آزادی مناتے  اچھے بھی لگیں گے.

اس وقت ہماری مثال اس کبوتر جیسی ہے جو سر پر منڈلاتے خطرے کو دیکھ کر آنکھیں بند کر لیتا ہے کہ خطرہ ٹل گیا تو پاکستانیوں خطرہ ٹلا نہیں سر پر کھڑا ہے بلکہ خطرات ہیں جن سے ہمیں لڑنا ہے ہم اپنا ساراجذبہ ساری قوت ان کے خلاف استعمال کریں تو زیادہ بہتر ہوگا.
پاکستان پائندہ باد


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).