یومِ آزادی سیل


وہ دونوں 14اگست کو باہر نکلے۔ اس دن موسم خاصا گرم تھا مگر صرف اس سوچ کے تحت کہ اگر آج وطن عزیز کے گلی کوچوں اور بازاروں میں نہ گھومیں پھریں گے تو کب پھریں گے۔ آج تو پورے شہر کا چکر لگا کر ہی لوٹنا ہے۔ دونوں نے جیسے ہی باہر قدم رکھا تو ہر طرف ہر ے ہرے پرچم لہرا رہے تھے۔ دونوں نے پرچم کو سلامی دی اور حیرت سے سڑک کو دیکھا۔ ڈبل سٹوری سڑک کی نچلی منزل پر گاڑیوں کا ہجوم تھا اور اوپر ی منزل پر سرخ رنگ کی بسیں رواں دواں تھیں۔ دونوں نے ایک دوسری کو مسکرا کر چمکتی آنکھوں سے دیکھا۔ ہاتھ کا اشارہ کرکے ایک سبزہلالی پرچم سے مزین گاڑی کو روکنا چاہا مگر وہ گاڑی دوڑتی چلی گئی۔

ایک راہ گیر نے انہیں اجنبی سا پا کر خیر وعافیت پوچھی۔ دونوں نے کہا ہم کو شہر کی سیر کرنا ہے مگر راستے معلوم نہیں اور سفر کی حاجت ہے تو سواری پاس نہیں۔ اس بھلے آدمی نے کہا کہ یہ سامنے شہر کا بڑا بازار ہے ذرا گھوم پھر لو پھر آگے کی منزل دیکھنا۔ بازار میں پاؤں دھرتے ہی پڑھے لکھے جوان کی نظر ایک دوکان کے بورڈ پر گئی تو وہ خوشی سے دیوانہ ہو گیا۔ بورڈ پر جلی حروف میں لکھا تھا آزادی سیل، ہر مال پر 50%رعایت۔ یہ ایک برانڈڈ کپڑوں کی دوکان تھی، کچھ نیا سا نام لگا تھا جوان کو مگر وہ خوش بہت تھا۔ دونوں کو کپڑوں کی کچھ حاجت نہ تھی سو خریدا کچھ نہیں۔

بازار میں گھومتے پھرتے دونوں نے ایک بات واضح طور پر دیکھی کہ کپڑا، جوتا اور میک اپ کے سامان کی دوکانوں پر سیل لگی ہوئی تھی اور کھوے سے کھوا چل رہا تھا۔ اللہ تیر ا شکر ہے کہ صدا اماں جی کے منہ سے برآمد ہوئی۔ میرا ملک کتنا ترقی کر گیا ہے، سجیلے جوان اور کیا میموں جیسی طرح دار خواتین بازاروں میں خریداری کر رہی ہیں۔ جگ جگ جئیں۔

گرمی زوروں پر تھی۔ ایک کھانے پینے کی دکان پر پہنچے تو پانی کو بوتلوں میں بند پایا۔ ایک بوتل اٹھا کر بوڑھی اماں نے پی اور خدا کا شکر ادا کیا جانے لگے تو دکان دار نے آواز لگائی اماں پیسے؟ تو اماں حیران ہو کر بولی ارے بیٹا کا ہے کے پیسے؟ تو دکان دار بولا پانی کے اور کاہے کے۔

دونوں ماں بیٹا ایک دوسرے کا منہ تکتے کر رہ گئے۔ گلاس بھر پانی تھا بوتل میں اور 40 روپے قیمت اس قیمت کا پچاس فیصد ادا کرنا ہوگا تو دکان دار نے کہا کیوں بھائی؟ نوجوان نے کہا یومِ آزادی ہے کپڑوں کی بڑی بڑی دکانوں پر، میک اپ، جوتوں کی دکان پر سیل لگی ہے۔ کیا کھانے پینے کی اشیا ء پر سیل نہیں۔ اور یہ تو پانی ہے ارے آج کے دن تو خون بھی سستا ہو گیا تھا 71 سال پہلے۔ ہماری ماؤں، بہنوں کی ردائیں چھن گئی تھیں۔ دیکھو کپڑا بیچنے والوں نے 3 روزہ سیل کا اہتمام کیا ہے تاکہ ہر ماں، بہن اور بیٹی سستے داموں میں ستر پوشی کر لے اور جن کے چہرے مسخ ہوگئے تھے اُن کے کے لئے سرخی، پاؤڈر اور لالی بھی سستی ہو گئی ہے۔

جن کے جوتے گھِس گئے تھے اُن کے پاؤں میں اب چھالے نہ پڑیں جوتوں کی قیمت بھی کم ہو گئی ہے، دکان دار اپنا کان کھجاتے ہوئے بولا دیکھو۔ کونسا کپڑا، جوتا اور لالی پاؤڈر سستا ہوا ہے ہر وہ چیز جو میرے اور تمہارے جیسے شہری کے لئے سامانِ تعیش ہے وہی سستا ہوا ہے۔ اب 10000 کا لان کا جوڑا 5000 میں مل رہا ہے ان دکانوں پر۔ نوجوان نے بڑھیا کو اشارہ کیا کہ پانی فروش کا دماغ چل گیا ہے سو قیمت چکا کر دونوں لال جنگلہ بس کی جانب بڑھے، نوجوان نے کہا اماں تیرے زخموں سے ابھی بھی خون رس رہا ہے میں نے بورڈ پڑھا ہے چند میل کی دوری پر ہسپتال ہے پٹی کروالے اور جوڑوں کے درد کی دوا بھی لے لے۔

جوان نے اپنی جیب میں ہاتھ ڈال کر کچھ ٹٹولا اور اطمینان سا چہرے پر ابھر آیا۔ دونوں بس میں سوار ہوئے مگر پونجی تمام کی تمام خرچ ہو چکی تھی۔ بس کا ٹکٹ خرید لیا تھا انہوں نے۔ بوڑھی اماں نے کہا اے بیٹا دام زیادہ ہوگئے ہیں بسوں میں سواری کی مگر دیکھ اپنا سوہنا پاکستان کیا شان کی بس میں سوار ہیں۔ پر اماں اب جیب میں چند آنے ہی ہیں تو اماں ہنس پڑی اور کہا کہ ہسپتال جا رہا ہے کہ میلے میں۔ آج یومِ آزادی ہے وہ پانی والا تو دیوانہ تھا کیا ہسپتال میں بھی خرچہ ہوگا۔ نہ بیٹا نہ۔ آج مفت علاج ہو رہے ہوں گے۔ سیل ہو گی نا وہاں بھی 100% والی۔ فیاض اور غیور قوم ہے پاکستانی قوم بھلا علاج کے کیسے پیسے وہ بھی آج۔ نوجوان نے کہا اماں کہتی تو ٹھیک ہو۔

میری تعلیم بھی ادھوری رہ گئی تھی آج کالج میں داخلہ بھی کروا لیتا ہوں اور اب یہیں کوئی مکان لے کر رہیں گے۔ بڑھیا خوشی سے بغلیں بجاتی ہوئی بولی تو ہاں اب یہ نظارے دیکھ کر کس کا جی چاہے ہے واپسی کو۔ مگر ناعلاج پر سیل تھی نہ تعلیم پر، 100% تو کیا 1% بھی نہیں۔ مگر دونوں سوہنے پاکستان کو دیکھ کر بہت خوش تھے۔ پھرتے پھراتے شام ہو گئی گلی کوچوں اور بازاروں میں لاکھوں کی تعداد میں برقی قمقمے جگمگا اٹھے۔ مگر غروب آفتاب سے پہلے کسی گھر، دفتر یا دکان سے قومی پرچم اتار کر کسی نے لپیٹ کر واپس نہیں رکھا تو دونوں کو دکھ ہوا کہ پرچم کے تقدس کا تقاضہ ہے کہ سلامی دے کر غروب آفتاب سے پہلے اتار لیا جائے۔

چلتے چلتے دونوں کہیں دور نکل آئے تو سوچا اب کچھ آرام کر لیا جائے۔ ایک دروازے پر دستک دی آواز آئی کون ہے؟ جواب میں جوان نے کہا مسافر ہوں۔ اندر سے ایک ادھیڑ عمر مرد برآمد ہوا اور انہیں اندر لے گیا۔ مگر کمروں میں، صحن میں کہیں روشنی نہ تھی۔ دونوں نے حیرت سے کہا میاں جگہ جگہ بجلی کے کھمبے اور تاریں مگر تمہارے گھر میں اندھیرا کیوں ہے۔ اور اس حبس کے موسم میں کوئی پنکھا بھی نہیں چل رہا۔ اس مرد نے کہا کہ لوڈ شیڈنگ ہے۔ یہ لفظ کچھ اجنبی سا تھا۔ دونوں کی سمجھ میں نہیں آیا۔

جب حبس گھٹن اور اندھیرے میں دو گھنٹے بیٹھ چکے تو نوجوان نے اماں کا ہاتھ پکڑ کرکہا اماں دل برا مت کرنا مگر وہیں چلتے ہیں جہاں سے آئے ہیں۔ یہ ترقی یافتہ پاکستان وہ نہیں جس کے لئے ہم دونوں نے جان کی قربانی دی تھی۔ یہ تیرے میرے جیسوں کے لئے رہنے کی مناسب جگہ نہیں۔ ابھی جوان بات کر ہی رہا تھا کہ ایک زور دار دھماکہ ہوا اور اللہ اکبر کے نعروں سے گلی گونج اٹھی۔ بڑھیا کو لگا بلوائی آئے ہیں مگر وہ تو کسی نامعلوم شخص نے خودکش حملہ کیا تھا۔

جوان چھت گرنے سے مرچکا تھا اور بڑھیا زخموں سے چور کلمہ ِ شہادت پڑھ رہی تھی۔ پروردگار نے انہیں جنت سے پاکستان جانے کی 3دن کی اجازت دی تھی مگر اُسے علم تھا کہ یہ آزادی کے شہید کب رہ پائیں گے یہاں۔ یہ ان کے خوابوں کا ملک نہیں سو اس نے دونوں کو واپس جنت میں بلا لیا۔ دوہرے زخموں کے ساتھ بڑھیا وطن آکر بھی وطن سے واپس چلی گئی اور نوجوان کا مفت تعلیم اور کالج کا خواب کھلی آنکھوں میں کہیں بکھرا پڑا تھا۔ دوسرے دن کے اخبار میں آدھا صفحہ آزدی سیل مبارک کے اشتہاروں سے بھرا پڑا تھا اور باقی آدھے صفحے پر سیاستدانوں کے 300 افراد کے مرنے پر مذمتی بیان تھے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).