نانو، یہ ہجرت کیا ہوتی ہے؟


”عید کا دن تھا جب ہم نے ہجرت کی تھی“، نانی نے سیاہ چادر تانے آسمان پر ہیروں کی طرح دمکتے ستاروں کی طرف غور سے دیکھتے ہوئے کہا۔

یہ مئی 1992 کے ایک گرم دن کے بعد کی تاریک لیکن ٹھنڈی رات تھی۔ کراچی میں موسم رات کو بدل سا جاتا ہے۔ دن میں جہاں قہر برسے، رات سکون کی ہوتی ہے۔ ان دنوں کراچی کے حالات بدترین تھے اور نانی ہمارے گھر رہنے آئی ہوئی تھیں۔

مضبوط لکڑی کے فریم کی چارپائی چھت پر پڑی رہتی تھی۔ نانی رات دس بجے اوپر آئیں نماز پڑھی، سفید چادر اور تکیہ چارپائی پر ڈالا جس پر میں لیٹ گئی اور ان کے نماز پڑھنے تک میں نے کئی ستارے گن لیے۔

اس رات چاند کی روشنی بھی بہت تیز تھی اور اندھیری رات میں چھت پر پڑی ہر چیز صاف دکھائی دے رہی تھی۔ جب نانی نے مجھے آسمان کی جانب ستارے گنتے ہوئے محو دیکھا تو یہ جملہ کہا۔ میں نے پلٹ کر جھٹ سوال کیا کہ، نانو یہ ہجرت کیا ہوتی ہے؟

نانی نے میرے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا، ”کیا بتاؤں بیٹا کہ ہجرت کیا ہوتی ہے۔ بس ایسا ہی جیسے کسی کو اپنا گھر چھوڑنا پڑے اپنی ہمجولیاں، سکھیاں، محلہ، اپنا دیس چھوڑنا پڑے اور یہ بھی نہ پتہ ہو کہ کب واپس آنا ہوگا اسے ہجرت کہتے ہیں۔ “

”آپ کا تو گھر ہے، اس میں سب رہتے ہیں، میں بھی آتی ہوں، تو آپ نے تو گھر نہیں چھوڑا؟ “ مجھے تشویش ہوئی۔ ”ہاں، یہاں گھر ہے۔ یہ تمہارے نانا نے بنایا تھا۔ میرے امی ابو کا گھر جہاں میں پیدا ہوئی، وہ انڈیا میں ہے جہاں سے ہم تب آئے جب پاکستان بنا تھا۔ “

میں اٹھ کر بیٹھ گئی، ”نانو آپ انڈیا سے اتنی دور کیسے آئیں؟ ریل گاڑی میں؟ مجھے بتائیں ناں۔ “ نانی کو اس رات اپنا گاؤں یاد آیا ہوا تھا، انہوں نے مکمل کہانی سنانے کی فرمائش قبول کر لی۔

”گرداس پور کے قریب ایک چھوٹے سے گاؤں تاریوال میں میرے ابا کی زمینیں اور باڑا تھا، بہت ساری بھینسیں، گائے، بکریاں ہمارے پاس ہوتی تھیں جن کا دودھ ہمارے محلے دار بھی لیتے تھے۔ دادا سے جب زمینیں نہیں سنبھالی گئیں تو ابا جی کو شہر سے بلالیا۔ ابا جی بڑی بڑی مشینیں ٹھیک کرنے کا کام کرتے تھے، اب وہ زمیینیں سنبھالنے لگے۔

میں، میری چھوٹی بہن رضیہ اور ہمارا بھائی دن بھر محلے کے بچوں کے ساتھ کھیلتے کودتے، جس محلے میں ہم رہتے تھے وہاں سکھ اور ہندو بہت زیادہ تھے پر سب میں بڑا پیار تھا۔ دہلی، لکھنؤ، آگرہ، شملہ، لاہور میں کیا ہو رہا تھا ہم کیا جانیں، بس اتنا پتہ تھا کہ کچھ دنوں سے ہر مغرب کے بعد ایک بڑی پنچایت صحن میں لگتی۔ تب بچے ہٹا دیے جاتے اور کرپان والے تاؤ، پگڑ والے چاچو اور گوپی چاچو اور ان جیسے بہت سے محلے دار شام اپنے حقہ اٹھائے ابا جی کے ساتھ بیٹھ جاتے۔

کیا باتیں کرتے، سمجھ نہ آتیں، بس ایک جملہ روز کی ملاقات میں ہوتا کہ ”اب حالات ٹھیک نہیں، نہ جانے کب یہ علاقہ بھی اس کی لپیٹ میں آجائے، پر تسی چنتا نہ کریو ساڈی جان وی حاضر ہے۔ “

کئی دوپہریں سکھیوں کے نام ہوئیں تو کئی شامیں پنچایتوں نے صلاح مشوروں میں گزاردی۔ ایک دن اماں نے عید کے لیے ساری ہم جولیوں کے دوپٹے پر گوٹے ٹانکنے کا کام مکمل کیا اور مجھے بلا کر کہا، اللہ رکھی اس بار عید پر سب سہیلیوں کے جوڑے ایک سے ہیں، خوب تیار ہونا ہے۔

ستائیس رمضان کی افطاری کے بعد پھر صحن بھر گیا آج لوگ زیادہ تھے، بیٹھے سب تھے پر سناٹا تھا۔ تاؤ جی بولے ’من نہیں پتہ اے چنگا ہویا کہ نہیں، صرف اے گل جاندا کہ تو نہیں جا سکدا۔ اے تیرا ملک، اے تیرا پنڈ، اے تیرے پرکھاں دی زمین، قبر، تے تیرا بچپن جوانی سب اتھے نے تو کنج اس سفر تے جائے گا جتھے آگ اور خون دے سوا کجھ وی نہیں؟ “

تاؤ جی نے کرپان نکالی تو سب سکھ پڑوسیوں نے ان کی تقلید کرتے ہوئے کرپان نکال کر زمین پر رکھ دی اور قسم کھائی کہ کوئی بھی اگر اس طرف آیا تو ہم سے گزر کر ابا جی تک جائے گا۔ گوپی چاچو مسلسل سر جھکائے روئے جارہے تھے اور ان کا بڑا بیٹا جو کالج جاتا تھا مگر فسادات کے سبب ان دنوں گھر پر تھا، وہ غصے میں کھڑا ہو کر ایک ہی بات کہتا کہ کوئی کہیں نہیں جائے گا، سب سن لیں۔ ابا جی خاموش تھے کچھ نہ بولے۔

رات جب بیٹھک ختم ہوئی تو پہلی بار سب ابا جی کو گلے لگا کر آنکھیں مسلتے اپنے اپنے گھروں کو رخصت ہوئے، میں نے ابا جی سے کہا کہ یہ کیوں رو رہے ہیں؟ ابا جی نے مسکرا کر کہا بیٹا آج پاکستان بن گیا ہے وہ ہمارا ملک ہے ہم نے اب وہاں جانا ہے۔ پاکستان بن گیا ہے کوئی نئی جگہ ہوگی وہاں بھی کنواں ہوگا، خوب سارے کھیت ہوں گے، پگڈنڈیاں ہوں گی، آم کے درخت ہوں گے، خوب سارے سوال دماغ میں آئے۔

مزید پڑھنے کے لئے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں

سدرہ ڈار

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3

سدرہ ڈار

سدرہ ڈارنجی نیوز چینل میں بطور رپورٹر کام کر رہی ہیں، بلاگر اور کالم نگار ہیں ۔ ماحولیات، سماجی اور خواتین کے مسائل انکی رپورٹنگ کے اہم موضوعات ہیں۔ سیاسیات کی طالبہ ہیں جبکہ صحافت کے شعبے سے 2010 سے وابستہ ہیں۔ انھیں ٹوئیٹڑ پر فولو کریں @SidrahDar

sidra-dar has 82 posts and counting.See all posts by sidra-dar