گلگت بلتستان کے باسی کس کے ساتھ کھڑے ہوں؟


ایک وقت تھا جب گلگت میں شیعہ سنی فسادات ہوتے تھے۔ ٹارگٹ کلنگز ہوتی تھیں۔ جانے انجانے میں عام آدمی بھی مخالف مسلک کے بے گناہ لوگوں کے قتل کو جائز سمجھنے لگا تھا۔ رشتہ داروں سے بھی ترک تعلق صرف اس وجہ کیا جاتا تھا کہ ان کا خونی رشتہ مسلکی رشتہ سے مطابقت نہیں رکھتا۔ اس جرم میں نوجوانوں سے لے کر بزرگوں تک اور کم پڑھے لکھوں سے لے کر اعلی تعلیم یافتہ لوگ بھی کسی نہ کسی طرح برابر کے شریک تھے۔ ان نفرتوں نے نہ صرف انسانوں کو بلکہ پانی، سکول اور مسجدیں بھی تقسیم کیں۔

یہ وہ دور تھا جب اللہ کے گھر اللہ کے گھر نہ رہے وہاں سے پیغام حق و امن کے بجائے قتل و غارت اور کفر کے فتوے آنے لگے تھے۔ محبت کا پیغام ذات برادری اور مسلک سے غداری سمجھا جاتا تھا۔ یہ سلسلہ سنہ 1988 سےشروع ہوا اور کافی عرصہ ہماری دھرتی ماں گلگت بلتستان کو اپنی لپیٹ میں لئے رکھا۔ بیچ میں کچھ عرصہ گلگت بلتستان کے عوام نے سکھ کا سانس لیا اور سنہ 2005 کو ایک بار پھر اس جنت نظیر علاقے کے امن کو دشمنوں کی نظر لگ گئی اور ایک بار پھر لوگ اسلام کی ان تعلیمات کو فراموش کرگئے جن میں کسی ایک انسان کے قتل کو پوری انسانیت کے قتل سے تشبیہ دی گئی ہے اور ایک دوسرے کے قتل کو نہ صرف جائز سمجھنے لگے بلکہ اس کار خیر کو جنت میں اعلی مقام حاصل کرنے کا ذریعہ بھی سمجھنے لگے۔

یہ بھیانک دور جو 2005 کے بعد دوبارہ سے شروع ہوا تھا تقریبا 6 سالوں تک جاری رہا اور بہت ساری بہنیں بیوہ ہوئیں، سینکڑوں بچے یتیم ہوگئے اور بوڑھی مائیں اپنے جگر گوشوں کی لاشوں سے لپٹ کر آہ و بکا کرتی رہیں مگر کوئی بھی مذہبی ٹھیکہ دار یہ کہتے ہوئے نظر نہیں آیا کہ اس جنگ کا حاصل کچھ نہیں اور ہر وہ شخص جو اللہ کو واحد اور حضور پاک ؐ کو نبی آخر مانتا ہے اسلامی قوانین کی نظر میں مسلمان کہلاتا ہے، مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں اور ہر مسمان پر دوسرے مسلمان کی جان و مال کی حفاظت واجب ہے۔ مذہبی ٹھیکہ دار اس جنگ کا شکار ہونے والوں کے گھروں میں جاتے رہے اور فاتحہ خوانی کے بعد یتیم بچوں کو ان کے شہید والد کے جنت میں جانے کی نوید سنا کر چلتے بنے اور اس کے بعد نہ تو کسی نے ان یتیم بچوں کی کفالت کا سوچا نہ ہی تعلیم و تربیت کا کسی نے ذمہ لیا۔ یوں ان ماثرہ خاندانوں کا واحد سہارہ اللہ کی ذات اور شہداء کی یاد کے علاوہ کوئی نہ بنا۔

2005 کے بعد شروع ہونے والی اس جنگ کو روکنے میں نہ صرف مذہبی رہنماؤں نے کردار ادا نہ کیا بلکہ گلگت کی انتظامیہ، سیکیورٹی فرسز اور عدلیہ بھی مکمل طور پہ ناکام رہی۔ کسی ایک دہشت گرد کو قرار واقعی سزا نہیں دی جاسکی اور بجائے سزا دینے کے قانون نافز کرنے والے اداروں کی جانب سے ہی لواحقین کو مجبور کیا گیا کہ آپ اپنے لخت جگر کے قاتل کو معاف کردیں تو آپ کے سیکٹ کے فلاں دہشتگرد کو بھی معافی دلوائی جائے گی۔ یوں نہ صرف دہشتگردوں کی حوصلہ افزائی ہوئی بلکہ امن و امان پہ بھی کاری ضرب لگی۔

یہ جنگ بلآخر اپنے آپ ختم ہوئی اور لوگ ایک بار پھر سے معمول کی زندگی گزارنے لگے اور ملکی و غیر ملکی سیاحوں کا جم غفیر گلگت کا رخ کرنے لگا۔ ہوٹل انڈسٹری نے زوال سے عروج کا سفر شروع کیا جس کی وجہ سے غربت میں واضح حد تک کمی دیکھنے میں آئی۔ یوں گلگت بلتستان کے باسی ایک بار پھر سکھ کا سانس لینے لگے ہی تھے کہ شر پسندوں کو یہ سلسلہ پسند نہ آیا اور وہ ماچس کی تیلی لے کر معصوم بچوں کےتعلیمی اداروں کو جلانے نکل پڑے۔ اور یوں ایک رات میں دیامر میں 13 سکولوں کو جلایا گیا جس کے بعد گلگت بلتستان ایک بار پھر خوف و دہشت کے بادلوں کے سائے تلے دکھائی دینے لگا۔ سکولوں کو جلائے جانے کے ایک روز بعد دہشتگردوں نے پولیس کے ایک جوان عارف حسین کو شہید کیا اور اگلے روز ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج جناب ملک عنایت الرحمان صاحب پہ حملہ آور ہوئے۔ حکومت اور حکومتی ادارے بڑے تحمل سے یہ سب دیکھتے رہے اور عام آدمی ایک بار پھر اس کش مکش میں مبتلا ہواکہ وہ کس جانب کھڑا ہوجائے؟

یہ سچ ہے کہ دہشتگردی کی اجازت کوئی مذہب نہیں دیتا اور دہشتگردوں کا کوئی مذہب نہیں ہوتا مگر ہماری سوسائٹی میں ایسی باتیں کہنے کی حد تک تو ٹھیک لگتی ہیں مگر جب عمل کرنے کا وقت آتا ہے تو بہت ساری مجبوریاں آڑے آجاتی ہیں۔ کبھی ذات پات، کبھی برادری، کبھی یاری دوستی اور کبھی مسلکی مجبوریاں پاوں کی زنجیر بنتی ہیں۔ ایسا ہی دیامر واقعات کے بعد بھی ہوا۔ سوائے چند گنے چنے لوگوں کے ان بزدلانہ کارروائیوں کی کسی نے مذمت کرنا بھی مناسب نہیں سمجھا اور حیلے بہانوں سے کام لیتے ہوئے کبھی اندرونی تو کبھی بیرونی ایجنسیز پہ ملبہ ڈالنے کی کوشش کرتے رہے۔ یوں عام آدمی کو یہ بات سمجھنے میں مشکل پیش آرہی تھی کہ دہشتگردوں کا کوئی مذہب نہیں ہوتا مگر دہشت گرد ٹولہ یہ بات باآسانی سمجھ گیا اور کارگاہ کے مقام پہ پولیس چوکی پہ حملہ آور ہوا اور بغیر کسی مسلکی تفریق کے پولیس فورس کے تین جوانوں کو موت کی نیند سلادیا۔

اب گلگت کے باسیوں کے پاس دو ہی راستے ہیں یا تو دہشتگردوں کے ساتھ کھڑا ہوا جائے یا پھر ان معصوم بچوں کے ساتھ جو اپنے ننھے ہاتھوں میں کلاشنکوف نہیں قلم لینا چاہتے ہیں۔ یا تو ان تعلیم دشمنوں کا ساتھ دینا ہوگا جو اسلام کے نام پہ حصول علم کے دشمن بنے بیٹھے ہیں حالانکہ اسلام میں علم حاصل کرنا ہر مسلمان مرد اور عورت پہ فرض ہے۔ یا پھر ان ننھی بچیوں کے ساتھ کھڑا ہونا ہوگا جن کی درس گاہیں جلائی گئیں اور وہ اپنے ہاتھوں میں۔ ہمیں انصاف چاہیے کے پلے کارڈز لئے انصاف کی منتظر ہیں۔

قانون فطرت ہے کہ جب دو گروہ آپس میں لڑ پڑتے ہیں تو ان میں سے ایک ہی گروہ حق پہ ہوتا ہے ایسا ہو نہیں سکتا کہ بیک وقت دونوں گروہ حق پہ ہوں۔ موجودہ صورتحال میں بھی ضرورت اسی امر کی ہے کہ حق و باطل میں فرق کیا جائے اور بجائے قاتل و مقتول دونوں کو ایک ایک ثواب دینے کے واضح پوزیشن لی جائے اور مظلوم و محکوم کے حق میں میں آواز حق بلند بلند کی جائے کیونکہ یہ بچے ہمارے بچے ہیں ان کی تعلیم ہمارا مستقبل ہے ان کےہاتھوں میں کلاشنکوف کی جگہ قلم دینا ہم سب کی ذمہ داری ہے۔ مگر اس سب کے لئے ہمیں ایک ہونا پڑے گا اور کیا ہی اچھا ہو اگر آج بھی ہم سنبھل جائیں اپنے اندر کی ساری نفرتیں مٹا کر دوسرے کے حق میں دعا کرنے کی کڑوی گولی کھالیں۔

پھر ممکن ہے خدا بھی ہمیں معاف کردے اور ہم اس نفرت کی آگ سے ہمیشہ کے لئے نکل آئیں اور دھرتی ماں کے کمسن بچے تعلیم کے حق سے محروم نہ ہوں۔ مائیں اپنے جوان بیٹوں کی لاشوں پہ روتی نظر نہ آئیں، کسی حوا کی بیٹی کا سہاگ نہ اجڑے، کسی کی گود خالی نہ ہو اور کمسن بچوں کے سر سے باپ کا سایہ نہ چھن جائے۔
اور ہاں۔
دہشتگرد تو سمجھ گئے کہ ان کا کوئی مذہب نہیں ہوتا مگر ہم کب سمجھیں گے؟

عجیب تیری سیاست عجیب تیرا نظام
یزید سے بھی مراسم حسینؑ کو بھی سلام


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).