پاکستان بردہ فروشوں کے ہاتھ


میں وہ پاکستان ہوں جس نے اماوس کی ایک حبس زدہ رات میں آنکھ کھولی اور غلامی میں پسے ہوئے ہاپنتے کاپنتے ہجوم کو ایک قوم بننے کی نوید دی۔ آزاد فضاؤں میں سانس لینے کا بھر پور موقع دیا۔ مگر میرے لاڈلے محمد علی جناح کی موت کے بعد میں وہ یتیم بچہ ہوں جو آج بردہ فروشوں کے ہاتھوں میں پل رہا ہے۔

کیا بھول گئے تم سب کہ میں نے ایک ایسی زمین پر جنم لیا تھا جہاں میرے چاروں جانب دشمن ہی دشمن تھے۔ گویا میری پیدائش ہرن کے اُس بچے کی طرح تھی جس کو پیدا ہوتے ہی شکاریوں سے چوکنا رہنے کی نصیحت ملی تھی۔ مجھے وجود میں آنے سے روکنے کے لیے کیا کچھ نہیں کیا گیا، میرا ہر حق مار لیا گیا، میری تقسیم میں لوٹ مار کی گئی۔ انگریز، ہندؤ، کانگریس نواز مسلمانوں اور علماء نے کیا کیا بد دیانتی نہیں کی۔ حتیٰ کہ یہاں تک کہا گیا کہ اگر پاکستان بنتا ہے تو یہ پاجامہ پاکستان ہو گا جو جلد ہی دوبارہ اکھنڈ بھارت کا حصہ بن جائے گا۔ مگر میری بنیاد ایک عظیم اور طاقت ور جذبے ’لا الہ الا اللہ‘ پر اٹھائی گئی تھی اس لیے مجھے دنیا میں آنے سے کوئی نہیں روک سکا۔

دنیا نے دیکھا کہ بدترین لاقانونیت، سنگین ترین صورتحال، زمین کی تقسیم، جان کی سلامتی، ایک عمل اور اُس کے رد عمل کی سب سے بڑی جنگ۔ چار لاکھ سے زائد ہلاکتیں، 75 ہزارسے زیادہ انتقامی جنسی زیادتیاں اور لاکھوں کے لگ بھگ مہاجرین کا تحفہ مجھے دیا گیا۔ جسے میں نے پوری ذمہ داری کے ساتھ قبول کیا۔

یہ بیسوی صدی کے نصف سے ذرا پہلے 14 اگست 1947 کو میری پیدائش کا دن تھا جسے میں نے جبر اور استحصال کے ہر امتحان کے ساتھ قبول کیا۔ میری آنکھ کھلنا ایک ایسا جرم تھا جس نے مجھے تسلیم کیا اسے اپنی جان، مال حتیٰ کے اپنی عزت و آبرو سے بھی ہاتھ دھونا پڑے۔ میں پاکستان اُن سب کا مقروض ہوں اور شکر گزار بھی اور تا قیامت رہوں گا، جو میری خاطرہجرت کرتے ہوئے تاریک راہوں میں مارے گئے۔ مگر ارے نہیں وہ زندہ ہیں، شہدا کبھی مرتے ہیں کیا؟ وہ بھی ایک عظیم ہجرت کے شہیدا۔

میری گود میں پلنے والے آدم ذادوں، مجھے قدرت نے ایسے ایسے خزانوں سے مالا مال کر رکھا ہے جو پوری دنیا میں کسی کے پاس نہیں، میرے یہی خزانے ان کی آنکھوں میں کھٹکتے ہیں، جس پر قبضہ کرنے کے وہ خواہش مند ہیں۔ وائے رے میری بد قسمتی، جو بھی اقتدار کی کرسی پر بیٹھا وہ میرے خزانوں کو نگلتا رہا، اور میرے باسی، میرے ماننے والے افلاس، غربت اورجہالت کے اندھیروں میں خوں اگلتے رہے۔

اور جس جس کو حصہ نہیں ملا، وہ میرے نام پر اپنی گندی سیاست کرتا رہا اور آج تک کرتا چلا آ رہا ہے۔ میرا دکھ یہ بھی ہے کہ میرے کوکھ جنے ہی ان دشمنوں کے ہمنوا ہیں۔ میں وہ گھر ہوں جس کو گھر کے چراغ سے ہی آگ لگتی رہی اور اب بھی لگتی ہے۔ ان کے لالچ، سیاست اور اقتدار کی ہوس نے مجھے دو لخت کر دیا۔ میرے نظریہ کو شکست دے دی مگر میرا وجود ختم نہیں کر سکا۔

میرے بیٹوں کے سروں کے مینار بنائے گئے، حتیٰ کہ میری ماں بہنوں اور بیٹیوں کے پیٹ چاک کر کے میرے معصوموں کو دنیا میں آنے سے پہلے ختم کر دیا گیا اور دنیا خاموش بنی تماشا دیکھتی رہی۔ میرے پرچم، میری علامت کو قدموں تلے بے حرمت کیا گیا اور میں خاموشی سے سہتا رہا۔ ابھی مجھے اور بھی بہت کچھ سہنا ہے کیونکہ میرے وجود کی روشنی کا ’کن فیکون ’ ابھی نہیں بولا گیا اور جس دن یہ بول دیا گیا دنیا حیران رہ جائے گی۔ ابھی تو میں اپنی ہی آستین کے سانپوں کی بے غیرتی دیکھ رہا ہوں جن کے دیے گئے زخموں کو شمار کرنا میرے اختیار میں نہیں۔ مگر مجھ سمیت سب نے دیکھا کہ وہ نظریہ جس کی بنیاد پر میرا وجود اٹھایا گیا تھا اس کو زبان کی برتری کی بنیاد پر ہندؤں کے چرنوں میں قربان کر نے والا مجیب الرحمان کس طرح مرا۔

میں یہ بات پورے وثوق سے کہتا ہوں کہ مجھے لوٹا تو جا سکتا ہے مگر میرا وجود ختم نہیں کیا جا سکتا۔ آپ سب نے دیکھا کہ اپنے مقاصد کے لیے کس کس طرح میرے شہروں کو جلایا گیا؟ میرے کھیت کھلیانوں کو آگ لگائی گئی۔ میرے نام پر سیاست کرنے والے یہ مداری اور شعبدہ باز صرف میری عوام کو لوٹ رہے ہیں جبکہ خود ساختہ مذہبی سیاست کے مداریوں نے بھی اسلام، اللہ اور محمدﷺ کا نام اتنا استعمال کیا کہ میرے لوگوں کے دلوں سے روز خیال جزا بھی چلا گیا ہے اور میرے لوگوں پر آئے روز اتنی قیامتیں اتاری جاتی ہیں کہ اب وہ ڈرتے نہیں ہیں وہ بے حس ہو گئے ہیں۔ مگر یہ سب تاریخ بھول رہے ہیں کہ جس جس نے اللہ اور رسول وﷺ کے نام پر سیاست کی حتیٰ کے اپنے مقاصد کے حصول اور غیر ملکی آقاؤں کی خوشنودی کے لئے نظریہ اور فلسفہِ جہاد کو استعمال کرنے کی کوشش کی اس کا انجام کیا ہوا۔ زیادہ دور نہ جائیں بس سابق جرنیل ضیاء الحق کے ہی انجام کو یاد کر لیں۔

میں پاکستان ہوں اور میں اپنے ہر مجرم کو خود سزا دے دیا کرتا ہوں، میری عزت اور وقار اسی میں ہے کہ میری عوام ہر منفی سیاست کو رد کریں مجھے کسی انقلاب کی ضرورت نہیں۔ مجھے اپنے لیے کسی نئے نظریے اور نئی شناخت کی ضرورت نہیں۔ میں ہی پاکستان ہوں تا قیامت رہوں گا اور مجھے کسی نئے پاکستان کی ضرورت نہیں، نیا پاکستان تو زبان کے نام پر پہلے ہی بن چکا ہے۔ میں اپنی قوم سے التجا کرتا ہوں کہ وہ اپنے حصے کا کام کریں تاکہ میرا ملک اس قدرمضبوط ہو جائے کہ یہ تمام بردہ فروش جن کے شکنجے میں ’ میں جکڑا ہوا ہوں خود ہی اپنی موت آپ مر جائیں۔ میری قوم یاد رکھے جب تم خود مضبوط ہو جاؤ گے تو کوئی بھی تم کوحقوق، تبدیلی، مذہب، اللہ، رسولﷺ اور پاکستان کے نام پر یرغمال نہیں بنا سکے گا۔ اللہ تم سب کا حامی و ناصر ہو، تمہارا اپنا پاکستان


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).